دنیا میں پیدا ہونے والی معاشی بدحالی اسباب اور انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا،نئی دہلی
یہ اللہ تعالی کی سنت ہےکہ اس نے دنیا میں ہر حیثیت اور صلاحیت کےانسان کو جگہ دی ہے۔ بلکہ فرط مراتب کی اسی رنگا رنگی کے ساتھ انسانی دنیا کو آبادرکھا ہے ۔ایک طرف غربااوروسائل زندگی سے محروم لوگوں ٕکے لئے یہ دنیا جائے امتحان ہے۔ تو دوسری طرف یہ غربا ٕاورمساکین اصحاب ثروت کےلئے سامان عبرت اور اللہ کی نعمتوں اور برکتوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ۔ اس اعتبار سےجس معاشرے میں محتاجوں اورضرورت مندوں کی حاجت روائی کا جس قدر فراخ دلانہ رجحان پایا جائےگا۔زکوۃٰ وصدقات کی کثرت ہوگی وہ انسانی معاشرہ اسی قدر دنیوی نعمتوں اور مال ودولت سے بہرہ ور اورآسودہ ہوگا۔اور ٹھیک اس کے برعکس جومعاشرہ اور اس میں جینے والے متمول افراد میں غریب پروری۔محتاجوں ۔بے کسوں، لاچاروں، بیواؤں ،یتیموں اور کمیونٹی کے کمزور لوگوں کی واجب ضروریات کا خیال رکھنے کامزاج کم پایا جائےگا وہ انسانی معاشرہ وسائل زندگی سے محروم اور معاشی بدحالی؛یعنی ایکونامیکل کرائسس کا شکار ہوگا۔ آج بھی دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جوملک دستوری لحاظ ویلفئیر اسٹیٹ ہے۔ اس ملک کا کوئی باشندہ حکومت کی پالیسی کے مطابق بےروز گار نہیں رہ سکتا۔ جو مجبور ہے اس کے گزارے کا انتظام حکومت نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔خواہ وہ ملک مسلم ہویاجمہوری۔ وہ دنیا میں آج بھی اپنی غریب پروری کی پالیسی کی وجہ سے خوش حال ہے ۔غریبوں کے خیال رکھنے کی وجہ سے اللہ ان ملکوں کی پیداواری صلاحیت میں روز اضافہ کرتا رہتاہے۔اس کے باغوں میں وافر مقدار میں پھل پیداکرتاہے۔کھیتوں میں خوب اناج اگاتاہے۔ دودھ دینے والے جانوروں میں دودھ کی کثرت ہوتی ہے اور پھروہ ملک اور ساراکاسارا معاشرہ خوشحال اور پربہار ومرتفع نظر آتاہے ۔اللہ کی اس کرم فرمائی کوآج ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔اور جب انسانوں میں فیاضی کی کمی ہوتی ہے۔ بخل کا مزاج بن جاتاہے ۔غریبوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ احتکاربڑھ جاتاہے۔ سود خوری عام ہوجاتی ۔لوگوں کا استحصال ہونے لگتا ہے۔ دنیاکی دولت پھیلاؤ کی بجائےچند ہاتھوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ تو اللہ کے کرم کادروازہ بھی بند ہونے لگتاہے۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں گھڑ رہا ہوں ۔بلکہ خالق کاٸنات نے اسکی طرف واضح انداز میں ہدایات دیں ہیں ۔دیکھئے سورہ بقرہ آیت نمبر276[سودمال کو گھٹاتااور صدقہ مال میں اضافہ کرتاہے]
اسی طرح دنیا کی نعمتوں میں کمی کے اسباب کی طرف سورہ الفجر میں اللہ نے اشارہ کیا ہےکہ اللہ نے تمہاری عیش وعشرت میں یوں ہی کمی نہیں کی” بلکہ تم نے یتیموں اور محتاجوں کی قدر نہیں کی۔ان کو صدقات وزکوٰۃ کی شکل میں انکے حصے نہیں دیئے۔مسکینوں کو تم نے کھانا کھلانے کی پرواہ نہیں کی“ نتیجہ تمہاری بھکمری اورمعاشی ہاہاکارکی شکل میں سامنے آیا۔دنیا کے انسانو إ اپنی آنکھیں کھولو اللہ ہدایات کو محض مذھب اسلام سے جوڑ کر نظر انداز مت کرو ۔ حقیقت یہی ہے” ان فی ذلک الآیات لاولی الالباب“اس وقت دنیا میں اور خاص طور سے ہمارے ملک میں لاک ڈان کی وجہ سے لاکھوں انسان بلاتفریق مذھب روزی روٹی کی کمی کی مار جھیل رہے ہیں بہت سے بچے بوڑھے جوان سب نان شبینہ کو ترس رہے ہیں۔ مائیں اپنے بھوک سے بلبلاتے بچوں کودیکھ کر سینہ کوبی کررہی ہیں ۔انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ کریں تو کیا کریں ۔بہت سے لوگ موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں ایسی بھی خبریں آنی شروع ہوگئی ہیں ۔ کوئی صوبہ ، ضلع اور گاؤں ایسا نہیں ہے جن میں لوگ فاقہ کاشکار نہ ہورہے ہوں ۔۔یہ ان کا شوق نہیں ۔بلکہ حالات کی مجبوری ہے ۔انسانیت کے تحفظ کی وجہ سے وہ اپنے ملک کے قانون وانتظام کی پاسداری کررہے ہیں ۔اور کرنا بھی چاہئے ۔مگر اس وقت ان کاخیال رکھنا ہمارا انسانی فریضہ اور اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کاذریعہ ہے ۔یہ محتاج اور غربا ٕ ومساکین اور حالات کے مارے ہوئے لوگ ہمارے لئے خدمت کے نقطہ نظر سے نعمت الہی سے کم نہیں ہیں ۔اصحاب خیر کو خدمت کے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیناچاہئے ۔خواہ کسی بھی مذھب سے تعلق رکھتے ہوں انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے آگے آئیں ۔ان پر خرچ کرنے سے دولت میں کمی نہیں آئےگی ۔بلکہ ان شاءللہ اضافہ ہوگا ۔اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور قبول فرمائے۔۔جلد سے جلد اس آزمائش سے دنیا کو نجات عطا فرمائے۔ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کردے ۔اور توبہ کی توفیق دے ۔توبوا الی اللہ ایھا المومنون جمیعا۔
Comments are closed.