شب برات کی فضیلت اور اس کی حقیقت

مفتی ڈاکٹر سید نعمان طہ قاسمی
جنرل سکریٹری ہوپ فاؤنڈیشن ( رجسٹرڈ( خانقاہ شریف گڑھی مانک پور پرتاپ گڑھی
شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
شب برات میں عبادت :۔
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔
عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں :۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا:۔
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
15 شعبان کا روزہ:۔
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور29 شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیار رہے۔
ہمارے ہاں شبِ برات کے حوالے سے دو انتہائیں پائی جاتیں ہیں۔ایک طرف متشدّد ین ہیں جواسے بدعت قراردیتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔
ماہِ شعبان اور شبِ برات کے حوالے سے تقریباً ایک سو پینتیس (۱۳۵) صحیح ‘ حسن ‘ضعیف اور موضوع روایات کو مختلف کتبِ احادیث میں بیان کیا ہے ۔اِن کے علاوہ بھی بعض دوسرے علماء نے کتب تفسیر وغیرہ میں کچھ روایات کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں بعض روایات درج ذیل ہیں۔
۱۔وَعَنْ مُعَاذَ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ: یَطَّلِعُ اللّٰہُ اِلٰی جَمِیْعِ خَلْقِہٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ اَوْ لِشَاحِنٍ ۔ صحیح الترغیب و الترھیب: ۲۷۶۷
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔‘‘
شب برات کی فضیلت میں حسن روایت
۱۔حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِطَّلَعَ اللّٰہُ اِلٰی خَلْقِہٖ فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَیُمْلِیْ لِلْکَافِرِیْنَ وَیَدَعُ اَھْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِھِمْ حَتّٰی یَدَعُوْہُ ’’
جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں ۔‘‘ (یعنی جب تک وہ بغض اور کینہ ختم نہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا)۔
شب برات کی فضیلت میں ضعیف روایات
۱۔حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادٰی مُنَادٍ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہٗ؟ ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأَعْطِیَہُ؟ فَلَایَسْاَلُ اَحَدٌ شَیْئًا اِلاَّ أُعْطِیَ اِلاَّ زَانِیَۃٌ بِفَرْجِھَا أَوْ مُشْرِکٌ۔
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکار لگانے والا پکار لگاتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والاکہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ پس نہیں کوئی سوال کرتا کسی چیز کے بارے میں مگر اس کو وہ چیز دے دی جاتی ہے سوائے اُس عورت کے جو اپنی شرم گاہ کے ساتھ زنا کرتی ہے اور مشرک کے ‘‘۔
۲۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْب۔ جامع الترمذی ابواب الصوم
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰــ’’ کلب‘‘ قبیلے کی بکریوں سے زیادہ گناہوں کو معاف کرتے ہیں ۔‘‘
۳۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
اِنَّ اللّٰہَ یَطَّلِعُ عَلٰی عِبَادِہٖ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَـیَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِیْنَ وَیَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِیْنَ وَیُؤَخِّرُ اَھْلَ الْحِقْدِ کَمَا ھُمْ۔
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہل بغض کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں ۔‘‘
۴۔راشد بن سعد سے نصف شعبان کی رات کے بارے میں مرسلاً مروی ہے :
یُوْحِی اللّٰہُ اِلٰی مَلَکِ الْمَوْتِ یَقْبِضُ کُلَّ نَفْسٍ یُرِیْدُ قَبْضَھَا فِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ ۔
’’اللہ تعالیٰ( اس رات میں ) ملک الموت کی طرف وحی کرتے ہیں کہ وہ ہر اُس جان کو قبض کر لے جس کو اللہ تعالی ٰنے اس سال میںقبض کرنے کا ارادہ کیا ہے‘‘۔
۵۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
فَقَدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَیْلَۃً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ھُوَ بِالْبَقِیْعِ فَقَالَ : ((اَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہٗ )) قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ۔
’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایک رات گم پایا۔میں (آپؐ‘ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپؐ ‘بقیع (مدینہ کا قبرستان) میں موجود تھے ۔پس آپ ؐنے فرمایا: ’’اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے ؟‘‘تو حضرت عا ئشہ ؓنے کہا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ !میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے ۔پس آپؐ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ (گناہوں )کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘
۶۔عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : یَطَّلِعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلٰی خَلْقِہٖ لَـیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَـیَغْفِرُ لِعِبَادِہٖ اِلاَّ اثْنَیْنِ مُشَاحِنٍ وَ قَاتِلِ نَفْسٍ
’’حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے کینہ رکھنے والے اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے۔‘‘
۷۔عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ : ((ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا ھٰذِہِ اللَّـیْلُ؟یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ)) قَالَتْ مَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟ فَقَالَ: ((فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ أَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تُنْزَلُ أَرْزَاقُھُمْ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ فَقَالَ : ((مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی)) ثَلَاثًا‘ قُلْتُ وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی ھَامَّتِہٖ فَقَالَ: ((وَلَا أَنَا اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ)) یَقُوْلُھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ نبی اکرمﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’(اے عائشہ!) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔‘‘ حضرت عائشہ ؓنے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ !اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا:’’اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ‘‘۔ پس حضرت عائشہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’ کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔‘‘ آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو حضرت عائشہؓ نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ !کیا آپ بھی؟آپؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ’’ہاں میں بھی‘ سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔‘‘ آپؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔‘‘
۸۔عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : ((أَتَانِیْ جِبْرَئِیْلُ فَقَالَ ھٰذِہٖ لَــیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلّٰہِ فِیْھَا عُتَقَائُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ بَنِی کَلْبٍ وَلَا یَنْظُرُ اللّٰہُ فِیْھَا اِلٰی مُشْرِکٍ وَلَا اِلٰی شَاحِنٍ وَلَا اِلٰی قَاطِعِ رَحِمٍ وَلَا اِلٰی مُسْبِلٍ وَلَا اِلٰی عَاقٍّ لِوَالِدَیْہِ وَلَا اِلٰی مُدْمِنِ خَمْرٍ
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ میرے پاس حضرت جبرئیل ؑ آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اور اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ اس رات مشرک اور کینہ پرور کی طرف نظر کرم نہیں فرماتا اور نہ ہی قطع رحمی کرنے والے کی طرف اور نہ ہی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ہی والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ ہی ہمیشہ شراب نوشی کرنے والے کی طرف۔‘‘
Comments are closed.