لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا،اصحاب قرطاس و قلم سے چند گزارشات

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
آغا شورش کاشمیری مرحوم میدان صحافت و خطابت کے بادشاہ تھے ۔حق گوئ اور صاف گوئی ان کا خاص وصف تھا۔ حق گوئ اور بے باک صحافت کے پاداش میں بارہا قید زنداں میں جانا پڑا ۔آزادی کے سورماؤں میں تھے ۔ آزادی کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں بھی آغا شورش کو دو تین بار قید و بند ہونا پڑا مگر انہوں نے بڑی عزیمت و استقامت کا ثبوت دیا۔ مشہور شخصیتوں پر نقد کرنے میں وہ خاصے جری اور بے باک تھے ۔انہوں نے اپنے تیشئہ قلم سے بڑی بڑی شخصیتوں کے پندار کے بت توڑے ۔ ہفتہ وار چٹان کے وہ ایڈیٹر تھے اور پوری جرآت اور امانت کے ساتھ اپنے قلم کا استعمال کرتے تھے انہوں نے اظہار حق میں اور کلمئہ حق بلند کرنے میں، کبھی مداہنت سے کام نہیں لیا وہ قلم و قرطاس اور خطابت کی صلاحیت کو ایک الہی امانت ، خدائی عطیہ اور ربانی ہدیہ سمجھتے تھے ۔ ان کی زبان و قلم سے دینی محاذ کو تقویت ملی۔ کاش آج کی صحافتی دنیا شورش کاشمیری جیسے باغیرت اور حق گو صحافی کی طرح اپنی صحافتی خدمات انجام دیتی اور حق گوئ اور صداقت کو اپنا شعار بناتی ۔ شورش کاشمیری نے قلم و قرطاس کی امانت کے حوالے سے لکھا ہے؛
میں قلم کو ہمیشہ ضمیر کی آواز پر اٹھاتا ہوں ۔لہذا کسی لفط پر اس لحاظ سے ندامت نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی مخفی اشارہ ہے یا اس پر کسی اور کی چھاپ لگی ہوئی ہے، کسی ماں نے آج تک وہ بچہ ہی نہیں جنا جو میرے قلم و زبان کو خرید سکے ،میرے نزدیک قلم فروشی عصمت فروشی سے کم نہیں ہے، بلکہ اس سے قبیح اور مکروہ ہے ۔قدرت نے قلم اس لئے نہیں دیا کہ بیچا جائے،اس سے بہتر ہے کے ہاتھ شل ہوجائیں، زبان اس لئے نہیں بخشی کہ مرہون غیر ہو،ایسی زبان پر فالج گر جائے تو خدا کا احسان ہے ۔میں نے جو کچھ لکھا وہی لکھا جو خود محسوس کیا،میں زبان و بیان میں ٹھوکر کھا سکتا ہوں لیکن ضمیر مطمئن رہتا ہے کہ آواز اس کی اپنی ہوتی ہے، وہ لوگ جو قلم کا کاروبار کرتے ہیں میں انہیں شر الدواب عند اللہ سمجھتا ہوں ، میرے نزدیک وہ تمام ادیب ،شاعر، صحافی،واعظ، مقرر اور خطیب بالا خانوں کی مخلوق ہیں جنہوں نے جوہر قلم اور جوہر زبان کو بازار کی جنس بنا دیا ہے اور جن کا خیال ہے کہ انہیں درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیا جاسکتا ہے، اسی کا نام عبرت ہے۔
یہ شورش کاشمیری کے قلم سے نکلنے والے وہ موتی ہیں جن سے ان کی صحافتی زندگی چمک دار بنی ،ان کی صحافتی زندگی کا عملی میدان ہفت روزہ چٹان تھا جو ان کا اپنا جاری کردہ تھا ۔چٹان کے بیس سال مکمل ہونے پر شورش مرحوم نے اس ہفت روزہ کا وجہ امتیاز یوں بیان کیا تھا:
پہلے دن بھی اس کا طغرائے امتیاز یہی تھا کہ جس بات کو حق سمجھو اس کو بے کم و کاست کہہ ڈالو، آج بھی اس کا شیوہ افتخار یہی ہےکہ حق کا ساتھ دو،چاہے مسجد کے فرش پر ہو یا میکدے کی چوکھٹ پر،ہم اجتماعی طور پر ذاتی حیثیت سے جو محسوس کرتے ہیں، وہ حوالہ قلم کرتے ہیں ۔کوشش یہی ہوتی ہےکہ کلمة الحق کی پشتیابی ہو،اس کے لیے ہم نے ماضئی مرحوم سے لے کر اب تک بے شمار صعوبتیں اٹھائ ہیں اور جو کچھ حاصل کیا وہ قوت بازو سے حاصل کیا ۔ اس پر آج تک کسی دوسرے کے انعام و احسان کی مہر نہیں لگی،صرف اللہ کا کرم شریک حال رہا ہے ،چٹان کسی تنظیم کا پرچہ نہیں نہ مستعمل معنوں میں وہ کسی مکتب خیال کا نمائندہ ہے یا اس کے حلقہ بگوشوں میں ہے،وہ ایک آزاد خیال ہفت وار ہے جس کا دل لوگوں کی اجتماعی ڈھرکنوں کے ساتھ ڈھرکتا ہے،اس کا ہمیشہ ہی یہ شعار رہا ہے کہ سیاسی مجاوروں، ادبی نٹ کھٹوں ،شرعی جیب تراشوں اور مجلسی لقندرون کا پردہ چاک کیا جائے ، قیمت خواہ اس کی کچھ ادا کرنی پڑے، جب تک ان لوگوں کا وجود باقی ہے اور چٹان بفضل تعالی زندہ ہے سیاسی عجائب گھروں کی مورتیوں ،ادبی بت کدوں کے کھلونوں، منبر و محراب کے آوارہ مصرعوں اور مجلسی روز بازار کے مہنتوں کی باز پرس جاری رہے گی ۔ع*
ٹوٹ تو سکتے ہیں لیکن ہم لچک سکتے نہیں ۔
ضرورت ہے کہ آج کے قلم کار صحافت کو ایک امانت سمجھیں اور اس میں خیانت دجل اور مکر و فریب اور بے اعتدالی سے بچیں اور شورش کاشمیری کے ان الفاظ کو گوش گزار کرلیں ۔ قلم و قرطاس یہ کتنی بڑی امانت اور ذمہ داری ہے اس کو سمجھنے کے لیے آئیے ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کریں ۔
قارئین باتمکین !
یہ حقیقت ہے کہ انسانی ذھن و فکر کی تشکیل و تعمیر میں تعلیم و تربیت کو بڑا دخل ہے اور فکر و نظر اور ذھن و دماغ کی تشکیل پر ہی انسان ۔۔۔۔ جس کے مجموعہ سے سوسائٹی بنتی ہے ۔۔۔۔۔ کے اعمال کی صلاح و فساد کا انحصار ہے ۔ گویا انسان کے بننے بگڑنے یا بالفاظ دیگر معاشرہ یا دنیا کے بننے بگڑنے کا مدار و انحصار تعلیم و تربیت ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی تعلیم و تربیت کا ایک اہم ترین ذریعہ ۰۰ صحافت۰۰ ہے ،جس کی اساس اس قلم کے استعمال کا فن ہے جس کی اہمیت کو علم نواز اور علم پرور دین اسلام نے ابتدا ہی سے انسانوں پر آشکارہ کیا۔ چنانچہ جب فترہ (حضرت عیسی علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے درمیان کا وقفہ) کے بعد یعنی ایک طویل مدت کے بعد زمین و آسمان کا تعلق اور ربط قائم ہوا اور باد بہاری کا پہلا جھونکا آیا تو اس میں علم و قلم کا سب سے پہلے تذکرہ آیا اور قلم کو علم کا ذریعہ بتایا ۔ اس پہلی وحی اور پیغام میں ارشاد ہوا :
اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم
قلم کا ذکر موضع مدح میں فرمایا کہ ۔۔ ۔ ۔۔ انسان کو اللہ تعالی نے قلم کے استعمال سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانہ پر علم کی اشاعت و ترویج ترقی اور نسلا بعد نسل اس کی بقا و تحفظ کا ذریعہ بنا۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو قلم و قرطاس اور کتابت کے فن کا یہ علم نہ دیتا تو انسان کا علم اور اس کی صلاحیت و لیاقت اور قابلیت ٹھٹھر اور سکڑ کر رہ جاتی اور اس کو نشو و نما پانے ،پھیلنے اور ایک نسل کے علوم ۔ اس کی تاریخ اور تہذیب و روایات دوسری نسل تک پہنچنے اور آگے مزید ترقی کرنے کا موقع ہی نہ ملتا ۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ قلم کی قوت بہت بڑی قوت ہے ۔ اس قوت اور طاقت نے قوموں میں انقلاب برپا کیا ان کے ذھن و فکر میں تبدیلی پیدا کی،قلم علم کی دولت کے اظہار کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہے اپنی دعوت کو عام کرنے اور اپنی فکر کو دوسروں تک منتقل کرنے اور اپنے علم و معلومات کو دوسروں تک پہنچانے میں قلم سب سے اہم رول ادا کرتا ہے ۔
قلم اور تحریر کے ذریعہ جو خدمت کی جاتی ہے اس کو صحافت کا نام دیا جاتا اور اس خدمت کو انجام دینے والے کو آج کی اصطلاح میں صحافی کہا جاتا ہے ۔
قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر کرتے ہیں تو صحافت اور ذرائع ابلاغ کے سلسلہ میں بہت مفید و موثر اور رہنما اصول ملتے ہیں ۔
انسان کی ہدایت کو کاغذ و قلم سے جوڑنے کے لئے جیسا کہ اوپر بتایا گیا سب سے پہلے اللہ تعالی کی طرف سے اقراء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم کا حکم ہوا یعنی پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ۔
اللہ تعالٰی نے قلم اور اس سے لکھے حروف کی قسم کھا کر فرمایا ن و القلم وما یسطرون ۔
اس امت کے لئے تعلیم بالقم اللہ تعالی کی جانب سے ایک عظیم نعمت اور احسان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تھی جس کو محفوظ رکھنا مشکل تھا اس لئے وہ تعلیم دیرپا نہیں رہ پاتی بہت جلد منحرف ہو جاتی یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا ۔ اللہ تعالٰی نے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے قلم اور تحریر کا طریقہ سکھایا ۔
صحافت اور ابلاغ کے کچھ آداب و اصول ہیں جس کی طرف شریعت نے رہنمائی کی ہے اس لئے جن کو اللہ تعالی نے قلم کی طاقت اور لکھنے کا ہنر اور سلیقہ و طریقہ دیا ہے وہ اس کو من جانب اللہ ایک نعمت اور امانت سمجھیں اور پوری امانت و دیانت کا مظاہرہ کریں ۔ اس سلسلے چند آداب و اصول ہیں جن کو ذکر کیا جاتا ہے ۔
صحافت میں ابلاغ کا کافی دخل ہے اس لئے ایک مبلغ اور صحافی کو نرم مثبت اور موثر اسلوب کو اپنانا چاہیے ۔
صحافت کو خیر اور نفع کا ذریعہ بنانا چاہیے اس سے انسانیت اور مانوتا کی خدمت میں مدد لینی چاہیے ۔نیکی کا حکم اور برائیوں سے روکنا ایک صحافی اور قلم کار کا ہدف اور نشانہ ہونا چاہیے ۔
صحافی اور ذرائع ابلاغ میں مشغول لوگوں کو بغیر شرعی مجبوری کے لوگوں کے راز کو نہ ٹٹولنا چاہیے ۔ ایک صحافی کے سامنے سورہ حجرات کی آیت نمبر ۱۳ پیش نظر رہنی چاہیے جس میں بیان ہوا ہے اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور کسی کی ٹوہ میں نہ پڑو اور دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئ یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائ کا گوشت کھائے ۔
ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر تحقیق کہ کوئ خبر نہ پھیلائے کیوں اس سے سماج میں انتشار اور فتنہ پھیلتا ہے، اور ماحول پراگندہ اور بے سکون ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے اس سے روکا ہے اے ایمان والو! اگر کوئ فاسق تمہارے پاس کوئ خبر لےکر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاو ۔
ظلم اور کرپشن اور بے انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ایک صحافی اور قلم کار کی ذمہ داری ہے ۔ اس کو اسلام نے ضروری قرار دیا ہے سورہ شعراء میں ہے تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں پر مارتے پھرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جو خود نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اللہ کو بہت یاد کیا ۔
صاحب قلم و قرطاس کے لئے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں پر زبانی یا تحرری کسی شکل میں جھوٹ باندھے انما یفتری الکذب الذین لا یومنون الخ جھوٹ تو وہ لوگ بناتے ہیں جن کو اللہ کی باتوں پر یقین نہیں اور وہی لوگ جھوٹے ہیں (سورہ نحل ۱۰۵)
کسی کی دل آزاری تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ یہ سخت گناہ کی بات ہے ۔
ایک صحافی اور قلم کار کو اپنی تحریروں میں اعتدال اور عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کسی قوم اور جماعت سے دشمنی ان کو انصاف اور راہ اعتدال سے ہٹنے نہ دے حال میں عدل و انصاف سے کام لے ۔
مولانا علی میاں ندوی رح صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں :
صحافت دو دھاری تلوار ہے اس کو تخریب کاری میں لایا جائے تو ملک پستی کی طرف چلا جاتا ہے اور اگر اس کو صرف اور صرف تعمیری کام میں لائے تو ملک ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے ۔ اگر صحافی قرآن مجید کے اصول و ضوابط کے مطابق عمل کریں اور پھر تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر ملک و قوم کی خدمت میں اس کو استعمال کرے تو آج بھی صحافت کی مسخ شدہ شکل بحال ہوسکتی ہے بس ضرورت ہے کہ قرآن پاک کے مذکورہ بالا ضوابط پر عمل کرنے کی ۔

Comments are closed.