نجات کی رات

محمد فہیم
متعلم: دارالعلوم دیوبند
یوں تو اللّٰہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتیں اور رحمتیں ہیں جیساکہ اللّٰہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں” وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَئْ “ (کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے).
اسی کی تفسیر کرتا ہوا فارسی کا ایک شعر ہے،
” رحمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہا نمی جوید“
”رحمت خداوندی پس بہانہ تلاش کرتی ہے۔ اس کو بہا (عوض) کی ضرورت نہیں“
اور اللَٰہ کے رحم و کرم کا تو ہم ہر لمحہ مشاہدہ کرتے ہیں ، کہ ہم نافرمانیاں کرتے رہتے ہیں، مگر عطائیں کم نہیں ہوتی، یہی نہیں بلکہ کوئی کتنا بھی خطاکار کیوں نہ ہو اگر وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے صرف ندامت کا ایک قطرہ آنسو بہادے تو اسکے تمام گناہوں کو مٹادیاجاتا ہے. اور اسی پر بس نہیں بلکہ آغوش رحمت میں لے لیا جاتا ہے،
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللّٰہ تعالی ہم گناہگاروں پر اپنے فضل و عطاء کی بارش ہر ساعت اور ہر گھڑی کرتے ہیں . لیکن پھر بھی اللّٰہ تعالیٰ کچھ ایسے خاص اوقات سے اپنےگناہگار بندوں کو نوازتے رہتے ہیں، جسکا ہرآن اور ہر سیکنڈ ہم گناہ گاروں کےلئے کسی Golden Chance ( سنہرا موقع) سے کم نہیں.
ابھی ہمارے پاس انہی متبرک اوقات میں سے ایک رات جو رحمت خداوندی سے بھری ہوئی ہے عنقریب آنے کو ہے.
اللّٰہ ہمیں اس طرح مواقع عنایت کرکے گویا یوں کہہ رہے ہیں، کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہر و منزل ہی نہیں…..
اب ہم سوچیں کہ اتنے بڑے آفر کا فائدہ نہ اٹھانے والا کتنا بدنصیب ہوگا ، کہ اللّٰہ ہمیں اتنا اچھا موقع دے رہے ہیں، تاکہ
ہم اپنے رب کو راضی کریں،
ہم اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوجائیں،
جہنم سے چھٹکارہ حاصل کریں، اور جنت کو دائمی گھر بناسکیں _
اوراگر اتنے اچھے موقع کے باوجود ہم لہوو لعب میں ہی لگے رہے.
گناہوں کے دلدل میں یونہی دھنستے رہے.
اپنے مالک حقیقی کو ناراض کرتے رہے.
تو آخر ہمیں کون بچائے اگر ہم ہی ناچاہیں؟
” ع : رحمت حق کو نہ کر مایوس اپنے فعل سے “
آپ خود سوچئے کہ آپ اپنے ماتحت (نوکر) کو کچھ دیں جسکی اسکو بہت ضرورت بھی ہے لیکن وہ اسے لے نے سے عملاً انکار کردے، اور آپ اسے دینے کیلئے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں تو آپ کو کیسا لگے گا ؟ تو ذرا سوچئے کہ جب ہم اللّٰہ کے اس انعام کو لینے کے بجاۓ بدعات و خرافات ،لہو و لعب ،اور محض بکواسیات میں ہی لگے رہے تو خدا کتنا ناراض ہوگا ؟
{اللّٰہ ہمیں اسے صحیح طور پر اعمال صالحہ میں گزارنے کی توفیق دے…. آمین…. }
تو آئیے ہم اس نجات دینے والی رات کے بارے میں کچھ جانتے ہیں.

فضیلت شعبان المعظم و شب برات
شعبان کی وجہ تسمیہ:.
شعبان کے معنی’ پھیلنے‘ کے ہیں اس مہینہ میں چونکہ اللّٰہ کی رحمتیں اور بخشش عام ہوتی ہیں، اسلئے اسے ’شعبان‘ کہتے ہیں.
* شعبان کی عظمت:.
شعبان المعظم کے بارے میں رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- ” شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَ رَمَضَانُ شَہْرُ اللّٰہ“
” شعبان میرا اور رمضان اللّٰہ کا مہینہ ہے“
حضور اکرم -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- نے اس حدیث میں شعبان کو اپنا مہینہ ،اور رمضان کو اللّٰہ کا مہینہ فرمایا. یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ محمد عربی -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- جیسا (اللّٰہ کے بعد )کوئی ہے ہی نہیں. اخر بندہ ناتواں انکے بارے میں کیا لب کشائی کی جسارت کرے ، بس مختصر الفاظ میں اتنا کہہ سکتا ہوں،
” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر “
’’کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعد سب سے بزرگ و برتر شخصیت حضور اکرم-صلی اللّٰہ علیہ وسلم- کی ہی ہے ۔‘‘
جب کوئی چیز افضل ہو تو اسکی طرف منسوب چیز بھی افضل ہو جاتی ہے. لہٰذا حضور اکرم –صلی اللّٰہ علیہ وسلم — کے افضل الانبیاء اور خیر البشر ہو نے سے شعبان کی فضیلت و عظمت بھی ثابت ہوگئی. یوں تو اسکی فضیلت کے لئے یہ حدیث ہی کافی تھی لیکن اس ماہ میں شب برات کے ہونے سے اس میں اور چار چاند لگ گئے…
* شب برات:. پورے سال میں اللّٰہ نے دو بہت ہی برکت والی رات رکھی ہے شب قدر اور شب براءت ،
حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا: ”مَامِنْ لَیْلَۃِ بَعْدَ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اَفْضَلُ مِنْ لَیْلَۃِ نِصْفِ شَعْبَانَ“
”لیلۃالقدر کے بعد سب سے افضل رات نصف شعبان کی رات( شب براءت) ہے“
* وجہ تسمیہ:. ہمارے یہاں اسے شب برات کہتے ہیں برات کے لغوی معنی بری ہونے،چھٹکارا اور نجات پانے، کے ہیں ، حدیث میں بھی آتا ہے. حضرت ابوموسیٰ اشعری -رض- سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ- صلی اللّٰہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا :” انَّ اللَٰہ لَیَطَّلِعُ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہِ اِلَّا لِمُشْرِكِ اَوْ مُشَاحِنِ “
” بےشک اللّٰہ شعبان کی پندرہویں شب نظر رحمت فرماکر تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سواء مشرک اور کینہ پرور کے“
( مشکوٰۃ ص115 ،ابن ماجہ ص 101 ،شعب الایمان للبیہقی )
کیونکہ اس رات اللَٰہ مغفرت اور بخشش عامہ کا اعلان کرتے ہیں. اسلئے ہر کوئی اس بحر مغفرت میں اپنے گناہوں سے توبہ کر کے جہنم سے نجات پاسکتا ہے.(شاید اسی وجہ سے اسے شب برات کہتے ہیں)
* شب برات کے اور نام:. اس مبارک رات کے کئی نام کتابوں میں موجود ہیں .
1] لیلۃ المبارکہ:برکتوں والی رات
2] لیلۃ الرحمۃ:اللّٰہ کے رحمت خاص والی رات
3] لیلۃ الصَّك: دستاویز والی رات
4] لیلۃ البراءۃ : دوزخ سے براءت(چھٹکارے) کی رات_
* اللّٰہ تعالی کا آسمانی دنیا پر نزول اجلالی اور رحمۃ عامہ:.
اللّٰہ کی رحمت عامہ کے متعلق رسول اللّٰہ کا فرمان : ”قَالَ النبی اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَآءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِغَنَمِ کَلْبٍ“۔(رواہ الترمذی وابن ماجہ وقال الترمذی سمعت محمدا یعنی البخاری یضعف ہذا الحدیث)
( بے شک اللہ جل جلالہ ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کی رات دنیاوی آسمان کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں، اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں )
یوں تو اللّٰہ ہر رات کے آخری پہر آسمانی دنیا پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں .اور اس رات کی خاصیت یہ ہے کہ مغرب کے بعد سے ہی آسمانی دنیا پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں.
آسمانی دنیا پر آنے کا مطلب:. خصوصی توجہ کرنا اور اللّٰہ کا اپنی رحمت خاص کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہوناہے.
* اس رات ہونے والے امور :
”قَالَ فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلَّ مُوْلُوْدِ بَنِیْ اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہٖ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تُنْزَلُ اَرْزَاقُھُمْ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر)
” رسول اللّٰہ —صلی اللّٰہ علیہ وسلم—نے ارشاد فرمایا : اس رات میں ہر ایسے بچہ کا نام لکھ دیا جاتا ہے جوآنے والے سال میں پیدا ہونے والا ہے اور ہر اس شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے جو آنے والے سال میں مرنے والا ہے (اللہ کو تو سب پتہ ہے البتہ انتظام میں لگنے والے فرشتوں کو اس رات میں ان لوگوں کی فہرست دے دی جاتی ہے) اور اس رات میں نیک اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں (یعنی درجہ قبولیت میں لے لیے جاتے ہیں) اور اس رات میں لوگوں کے رزق اتارے جاتے ہیں“
(مشکوٰۃ ص 115 بحوالہ دعواۃ الکبیر)
* وہ لوگ جو اس متبرک رات میں بھی رحمت خداوندی سے محروم رہتے ہیں .
حَدِیْثُ عَائِشَۃَؓ مَرْفُوْعًا ھٰذِہِ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلّٰہِ فِیْھَا عُتَقَائُ مِنَ النَّارِ بَعْدَ دِشْعُوْرِ غَنَمِ کَلْبٍ لَایَنْظُرُ اللّٰہَ فِیْھَا اِلٰی مُشْرِکٍ وَلَا اِلٰی مُشَاحِنٍ وَلَااِلٰی قَاطِعِ رَحْمٍ وَلَا اِلٰی مُسْبَلٍ وَلَا اِلٰی عَاقٍ لِوَالِدَیْہِ وَلَا اِلٰی مُدْمِنِ خَمْرٍ وَعِنْدَ اَحْمَدَ مِنْ رِوَایَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَفَیَغْفِرُ لِعَبَادِہٖ اِلَّا اثْنَیْنِ مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ۔(الترغیب الترہیب )”ترجمہ : حضرت عائشہ —رض— سے مروی ہے. کہ اس پندرہویں شعبان کی رات کو اللّٰہ بنو کلب کى بکریوں کے بال کے برابر لوگوں کو جہنم سے أزاد کرتے ہیں مگر اللّٰہ نظر رحمت نہیں کرتا اس رات میں مشرک، کینہ رکھنے والے ، رشتہ ناطہ توڑنے والے، اور شراب پینے والے کی طرف،
حضرت عبداللّٰہ بن عمر —رض— کی روایت میں ہے کہ اللّٰہ سب کی مغفرت کرتے ہیں سواء کینہ پرور اور کسی کو قتل کرنے والے کے ۔“
اس عنوان کی اور حدیثوں پر نظر کرنے کے بعد ان لوگوں کی اجمالی فہرست کچھ اسطرح ہے:—
1)اللّٰہ کیساتھ کسی کو شریک کرنے والا ،
2)کینہ رکھنے والا ،
3)کسی انسان کو ناحق قتل کرنے والا ،
4)زنا کرنے والا (مرد ہو یا عورت)
5)قاطع رحم یعنی رشتے ناطے توڑ نے والا،
6)مسبل تہبند پاجامہ وغیرہ کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ،
7)والدین کی نافرمانی کرنے والا ،
8)شراب پینے والا. وغیرہ وغیرہ ….
(شب برات کی فضیلت اور اسکے بارے میں اور بھی بہت احادیث ائی ہیں جن میں سے کچھ کو ہی ذکر کیا گیا ہے)
آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم ان میں سے کسی برے عمل کیساتھ ملوث تو نہیں ؟ اگر مبتلا ہیں تو چاہئے کہ ان برے اعمال سے جلد از جلد توبہ کر کے اپنے رب کو راضی کریں، اور اس رات کو غنیمت سمجھ کرزیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں …..

Comments are closed.