قلم کی طاقت اور اس کی تاثیر !

 

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

 

 

قلم کی طاقت، یعنی تحریر کی قوت تقریر سے بھی زیادہ ہے،نیز اس کا نفع بھی عام اور دیر پا ہے۔کیونکہ تقریر و خطاب یہ فضاء بسیط میں معلق ہوجاتا ہے،لیکن تحریر تادیرمحفوظ رہتی ہے،اس لئے اس کا نفع تحریر کے باقی رہنے تک باقی رہتی ہے۔جس کو یہ طاقت اور ملکہ حاصل ہوجائے، وہ بڑا خوش نصیب اور سعادت مند انسان ہے ، شرط یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ نفع رسانی کا کام کرے،اپنی تحریری صلاحیت سے امت کو بھرپور نفع پہنچائے ۔اور حالات کے رخ کو صحیح سمت موڑنے کی کوشش کرے ۔ لیکن بہت سے لوگ قلم کا غلط استعمال کرتے ہیں، اپنی تحریروں کو بثمن بخس دراھم معدودة یعنی کوڑی کے بھاؤ میں بیچ دیتے ہیں اور اس کے بدلہ کچھ دنیاوی منافع حاصل کرتے ہیں، باطل کو مواد فراہم کرتے ہیں، ان کی تائید کرتے ہیں، ان کی فکر کے مطابق قلم استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ مجرم اور خدا کی نظر میں مبغوض ہیں۔

قلم ایک امانت ہے، اس کا استعمال صحیح اور مناسب چیزوں کے لیے ہونا چاہیے اور کبھی اس کا سودا نہیں کرنا چاہیے، بقول شخصے قلم فروشی عصمت فروشی سے کسی طرح کم نہیں۔۔۔۔۔

ذیل میں قلم کی اہمیت اور تحریر کی تاثیر پر ایک مضمون حاضر خدمت ہے، جو دراصل میری زیر طبع کتاب،،متاع دین و دانش،، کا پیش لفظ ہے۔ بعض اسباب و وجوہات کی بنا پر صاحب پیش لفظ کا نام ذکر نہیں کر رہے ہیں، قارئین سے درخواست ہے کہ اس تحریر کو توجہ سے پڑھیں۔

م ق ن

 

پیش لفظ از کتاب متاعِ دین و دانش

 

قلم کی طاقت اور اس کی تاثیر کا دنیا نے اعتراف کیا ہے، اس کے ذریعے انسانوں نے تخت و تاج کو پلٹا ہے، قیادت و زعامت سنبھالا ہے،حکومت و اقتدار اور سلطنت و ریاست کو حاصل کیا ہے، مخالف طاقتوں کو زیر و زبر کیا ہے، غلامی کو آزادی میں بدلا ہے، مظلوموں اور فریاد رسوں کو حقوق و انصاف دلایا ہے، بے راہ اور گمراہ کو راہ حق کی راہ نمائی کی ہے اور شرور و فتن کے ماحول کو خیر و نیکی کے ماحول میں بدلا ہے۔

یقینا قلم علم و آگہی کا ذریعہ اور وسیلہ ہے، اس کی شہادت خود قرآن پاک نے دی ہے، بلکہ رب کائنات نے قلم کی قسم کھا کر اس کی عظمت و اہمیت کو لازوال کردیا ہے۔،، ن و القلم وما یسطرون ،،

اہل عرب کہتے ہیں کہ ،،عقول الرجال فی اطراف اقلامھا،، یعنی نوک قلم ہی لوگوں کی عقلوں کا پتہ دیتی ہے۔ اور یہ کہ۔،،فی القلم حکمتان، بلاغة المنطق، و جلالة الصمت ،،

یعنی قلم کی دو حکیمانہ شانیں ہیں، ایک تعبیر کی بلاغت، دوسری طرف خاموشی کا وقار۔ چنانچہ بظاہر خاموش رہ کر ہی قلم بلاغت کے موتی بکھیرتا اور فصاحت کے جادو جگاتا ہے،۔

قلم کا استعمال آسمان پر بھی ہوتا ہے اور زمین میں بھی، بلکہ زمین میں جوکچھ ہوتا ہے اس کی منصوبہ بندی بھی آسمان میں ہی ہوتی ہے۔

انسان کی ہدایت کو کاغذ و قلم سے جوڑنے کے لیے، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم،، کا حکم ہوا، یعنی پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔

اس امت کے لیے تعلیم بالقلم اللہ کی جانب سے ایک عظیم نعمت اور احسان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تھی، جس کو محفوظ رکھنا مشکل تھا، اس لیے وہ تعلیم دیرپا نہیں رہ پاتی، بہت جلد منحرف ہوجاتی، یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے قلم اور تحریر کا طریقہ سکھایا۔ ایک صاحب قلم کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اعتدال، توازن، وسطیت اور عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑے، افراط و تفریط کی راہ اختیار نہ کرے،کسی قوم اور جماعت سے دشمنی ان کو انصاف اور راہ اعتدال سے نہ ہٹنے دے، ہر حال میں عدل و انصاف سے کام لے۔

تعمیری ادب میں قلم کی شان اور بان اور نکھر جاتی ہے اور قلم کے نقوش میں اگر خون جگر بھی شامل ہو تو وہ دو آتشہ بن جاتے ہیں، جو لوگ ادب برائے زندگی کے حامل اور قائل ہوتے ہیں، تعمیری اور فکری ادب کے لیے کام کرتے ہیں، ان کی تحریروں میں تاثیر کشش اور نافعیت زیادہ پائی جاتی ہے۔

لیکن افسوس کہ دنیا کے ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں میں کم لوگ ہیں، جو قلم کی حقیقت اور عظمت کا صحیح ادراک کرسکے ، ورنہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو زبان و قلم دونوں کے صحیح استعمال سے محروم رہے ، وہ ادیب کہلانے کے باوجود علم و ادب کی بیخ کنی کرتے رہے اور قلم رکھتے ہوئے بھی قلم کی حرمت کو انہوں نے پامال کیا ، بلکہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام پر اباحیت کو فروغ دیا، معاشرے کو خراب کیا، اخلاقی انارکی کو ہوا دی، اور اپنے قلم کی ریزش کا انبار نسل انسانی کے ایمان و عقیدے کو خراب کرنے، اخلاقی قدروں کو تاراج کرنے، ہوا و ہوس کو فروغ دینے اور سماج و سوسائٹی میں برائی اور اخلاقی گراوٹ کا ناسور پھیلانے کے لیے چھوڑ گئے، بعض نے خاموشی کے ساتھ ترقی اور اباحیت پسند ادب و شاعری کے عنوان سے پڑھے جانے والے لٹریچر کو مسموم کیا۔

لیکن ایسے ادیبوں شاعروں اور قلم کاروں کی فہرست بھی کم طویل نہیں جنہوں نے قدرت کے عطا کردہ بیان و تعبیر کی صلاحیت کی قدر کی اور قلم و قرطاس کے استعمال کا حق ادا کیا، دنیا و آخرت میں سرخ ہوئے، نیک نامی اور شہرت بھی ملی ، دین کی ترجمانی کی اور ملت کی آبیاری کی۔۔

زبان و ادب کے شہسوار اور مشہور صاحب قرطاس و قلم علامہ شورش کاشمیری مرحوم نے قلم کی اسی طاقت اور تاثیر کو کچھ یوں اپنی شاعری میں بیان کیا ہے :

 

صفحئہ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم

ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم

 

آنکھ کی جھپکی میں ہوجاتا ہے تیغ بے پناہ

آن واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم

 

آندھیوں کا سیل بن کر عرصئہ پیکار میں

زلزلوں کے روپ میں محلوں کو ڈھاتا ہے قلم

 

دوستوں کے حق پشتیبان خود اپنے زور پر

دشمنوں پر دشنئہ و خنجر چلاتا ہے قلم

 

بندگانِ علم و فن کی خلوتوں کا آشنا

ان کے فکر و فہم کی باتیں سناتا ہے قلم

 

یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں

گم شدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم

 

محفلوں میں عشق اس کے بانکپن کا خوشہ چیں

 

محملوں میں حسن سے آنکھیں لڑاتا ہے قلم

 

شاعروں کے والہانہ زمزموں کی آبرو

دانش و حکمت کی راہوں کو سجاتا ہے قلم

 

اہلِ دل، اہلِ سخن، اہلِ نظر، اہلِ وفا

ان کے خد و خال کا نقشہ جماتا ہے قلم

 

برق بن کر ٹوٹتتا ہے خرمن اغیار پر

دوستوں کے نام کا ڈنکا بجاتا ہے قلم

 

ہم نے اس کی معرفت دیکھا ہے عرش و فرش کو

آسمانوں کو زمینوں سے ملاتا ہے قلم

 

زندئہ جاوید ہوجاتے ہیں اس سے معرکے

حشر کے آثار قوموں میں اٹھاتا ہے قلم

 

کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین، زمن

دبدبہ فرما رواوں پر بٹھاتا ہے قلم

 

حافظ و خیام و سعدی غالب و اقبال و میر

ماضی مرحوم میں ان سے ملاتا ہے قلم

 

شہسواروں کے جلو میں، ہفتمیں افلاک پر

سربکف اسلاف کے پرچم 🏳 اڑاتا ہے قلم

 

کیسی کیسی منزلوں میں رہنما اس کے نقوش

کیسے کیسے معرکوں میں دندناتا ہے قلم

 

شاعری میں اس سے قائم ہے خم گیسو کی آب

نثر میں اعجاز کے تیور دکھاتا ہے قلم

 

قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں

تب کہیں شورش مرے قابو میں آتا ہے قلم

(شورش کاشمیری مرحوم)

اس وقت نوجوان نسل اور سکنڈ کلاس طبقہ میں، خصوصا ابناء ندوہ میں جو لوگ اپنی قلمی کاوشوں اور تحریروں سے دین کی آبیاری کر رہے ہیں، قوم و ملت کو فیض پہنچا رہے ہیں،اس میں ایک نمایاں نام عزیز القدر(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)کا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ تحریری و تقریری دونوں صلاحیتوں سے نوازا ہے، وہ روزانہ لکھتے ہیں اور ہر موضوع پر لکھتے ہیں، سوشل میڈیا پر بلا ناغہ پانچ سال سے ،آج کا پیغام،، کالم لکھ رہے ہیں، حیرت ہے کہ شاید ہی کبھی ناغہ ہوتا ہو، ان کی تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ سلف اور سواد امت کے موقف سے کبھی ہٹتے نہیں اور عصری اسلوب میں لوگوں کی ذہنی سطح کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات موثر انداز میں پیش کرتے ہیں،۔ اب تک نصف درجن سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور سیکڑوں مضامین و مقالات اخبار و رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔

زیر نظر کتاب ،،متاعِ دین و دانش،، کسی خاص عنوان اور موضوع پر مرقوم نہیں ہے، بلکہ یومیہ تحریر آج کا پیغام میں سے سو دنوں کی تحریر ہے، جو مخلتف موضوعات پر، اور حالات و تناظر، واقعات، مشاہدات اور تجربات کے تناظر میں تحریر شدہ علمی فکری اور دینی دستاویز ہے۔

نوٹ/ یہ کتاب سال گزشتہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے چھپ نہیں سکی، لیکن اب ان شاءاللہ جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے ۔

Comments are closed.