اسرائیل-ایران جنگ اور غزہ میں قتل عام

از: خورشید عالم داؤد قاسمی
ایران پر قابض اسرائیل کا حملہ:
قابض اسرائیل نے تیرہ جون 2025 کو جوہری پروگرام کو وسعت دینے کا بہانہ بناکر،ایران کی پر براہِ راست "آپریشن رائزنگ لائن” کے نام سے حملہ شروع کیا۔ اس سے قبل اسرائیلی حملے زیادہ تر مزاحمتی تحریکوں: حزب اللہ، حماس، انصار اللہ وغیرہ تک محدود رہتی تھیں؛لیکن اس مرتبہ اس نے ایک منظم اور عسکری لحاظ سے مضبوط ریاست کو نشانہ بنایا۔ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال میں، یہ ایک سنگین پیش رفت ہے۔ اس حملے میں ایران کے متعدد اہم جوہری سائنسدان، اعلیٰ فوجی افسران اور تحقیقی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک اسپتال بھی ان حملوں کی زد میں آیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی فوج بین الاقوامی قوانین نظرانداز کر رہی ہے جیسا کہ اس نے غزہ میں کیا۔
اسرائیلی حملے میں ایران کا نقصان:
تیرہ جون 2025 کو سے ہونے والے اسرائیلی حملے میں ایران کو غیر معمولی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا؛ جب کہ اسرائیلی حملہ تا ہنوز جاری ہے۔ اب تک اس حملے میں ایران کے پانچ سو پچاسی شہری اور درجنوں ایسی اہم شخصیات جاں بحق ہوئیں، جن کا تعلق دفاع، انٹیلی جنس اور جوہری پروگرام سے تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلیٰ جنرلز، انٹیلی جنس افسران اور قدس فورس سے وابستہ افسران شامل ہیں۔ جوہری سائنسدانوں میں پروفیسر فریدون عباسی، محمد مہدی طہر انچی اور احمد رضا ذوالفقاری سمیت کئی دیگر ماہرین کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کی متعدد اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں پارسین اور خوجیر جیسے میزائل و دفاعی ٹیکنالوجی کے مراکز، شاہروڈ اسپیس سینٹر، آبادان کی آئل ریفائنری، امام خمینی پیٹروکیمیکل پلانٹ اور تہران، ایلام و خوزستان میں موجود فضائی دفاعی نظام شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے ان حملوں کے ذریعے ایران کی فوجی صلاحیت، جوہری پروگرام، سائنسی تحقیق اور اقتصادی ڈھانچے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو بھی کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کیا ہے۔
ایران کا مؤثر جواب:
قابض اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے کےبعد، عالمی سطح پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایران اس جارحیت کا بھرپور جواب دے گا اور وہی ہوا۔ ایران نے اٹھارہ گھنٹے بعد، "آپریشن وعدۂ صادق” کے نام سے، طاقتور میزائلوں سے حملہ کرکے، اسرائیل کی دارالحکومت تل ابیب اور بندرگاہی شہر حیفہ کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ ایرانی حملوں کے نتیجے میں حیفہ میں کئی اہم تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا؛ جب کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے دفاتر پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔ تل ابیب میں واقع مرکزی بن گورین طیران گاہ، مکمل طور پر معطل ہو گیا ہے۔ پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ بین الاقوامی فضائی کمپنیوں نے اپنے طیارے دیگر محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنا شروع کر دیے۔ ایران کا یہ جواب اسرائیل کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ کسی بھی جارحیت کا ردعمل بھرپور انداز میں دیا جائے گا۔
عسکری و سائنسی مراکز پر حملے:
ایرانی جوابی کارروائی کے دوران تل ابیب میں واقع اسرائیلی فوج کا مرکزی دفتر، یعنی آئی ڈی ایف ہیڈکوارٹر، قریبی اہداف میں شامل رہا۔ اسی طرح ریحووٹ میں واقع سائنسی تحقیق کا ایک اہم ادارہ، جس میں جدید لیبارٹریاں اور تحقیقاتی سہولیات قائم ہیں، بھی میزائل حملوں سے متاثر ہوا۔ شمالی شہر حیفہ میں واقع تیل کی ریفائنری اور پاور پلانٹ پر بھی ایرانی میزائلوں نے کاری ضرب لگائی، جس کے نتیجے میں وہاں بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ، موساد کے ایک دفتر کے قریب واقع فونین کمانڈ سینٹر کے نزدیک ایک میزائل گرنے سے شدید دھماکہ ہوا۔ ایران کی جانب سے 19/جون کو اسرائیل کے جنوبی شہر: بئر سبع پر داغے گئے بیلسٹک میزائل "سوروکا میڈیکل سینٹر” پر گرے۔اس اسپتال میں غزہ میں زخمی ہونے والے درجنوں قابض اسرائیلی فوجی زیر علاج تھے۔ میزائل حملے کے نتیجے میں اسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسپتال کی عمارت کے کئی حصے مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ مریضوں اور طبی عملوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔سوروکا میڈیکل سینٹر جنوبی اسرائیل کا سب سے بڑا اسپتال سمجھا جاتا ہے۔
اسپتالوں پر حملے اور اسرائیلی منافقت:
سوروکا میڈیکل سینٹر پر ایرانی میزائل سجیل سے حملےکے بعد، قابض ریاست کے وزراء وحکام چیخنے لگے۔ انھیں عالمی جنگی قوانین یاد آنے لگے۔ اس حملے کو انھوں نے جنگی جرم شمار کیا۔ اسرائیل کے وزیر برائے ثقافت و کھیل، میکائیل زوہر نے کہا: "زمین پر سب سے حقیر لوگ وہ ہیں جو اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں۔” یہ جملہ پڑھ کر دل فوراً اس کی تائید کرنے لگا؛ لیکن دماغ احتجاج کرتا رہا اور یہ سوال پوچھتا رہا کہ: "پھر وہ کون لوگ تھے جو غزہ میں درجنوں اسپتالوں کو نشانہ بنا رہے تھے؟ کیا وہ بھی جنگی مجرم اور حقیر ترین لوگ ہیں؟”
جدید دور میں اسپتالوں پر حملے:
یہ کوئی پرانی بات نہیں؛ بلکہ آج کے جدید دور میں بھی قابض اسرائیل درجنوں اسپتالوں پر حملہ کرچکا ہے۔ گوگل کی معمولی تلاش سے واضح ہو جائے گا کہ اسرائیل نے غزہ کے خلاف حالیہ دہشت گردانہ حملے میں، درجنوں اسپتالوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں الشفاء میڈیکل کمپلیکس، ناصر میڈیکل کمپلیکس، القدس اسپتال، انڈونیشیا اسپتال، ترک اسپتال، بیت حانون اسپتال، الاہلی عرب اسپتال، یورپین غزہ اسپتال اور دیگر بہت سے طبی مراکز شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق، 33 اسپتال جنگ کے دوران براہِ راست حملوں کا شکار ہوئے ہیں؛ جب کہ 122 صحت کے مراکز اور 180 ایمبولینسز بھی متاثر ہو چکی ہیں۔ یہ وہ مراکز تھے جہاں زخمیوں کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی؛مگر اسرائیلی بمباری نے نہ مریضوں کو بخشا اور نہ ہی ڈاکٹروں کو محفوظ رہنے دیا۔
مسٹر میکائیل زوہر کا بیان بظاہر درست معلوم ہوتا ہے؛ مگر حقیقت میں یہ منافقت کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل خود غزہ کی پٹی میں درجنوں اسپتالوں پر بمباری کر چکا ہے، جسے پچھلے پیراگراف میں ذکر کیا گیا۔ جب یہی معیار اسرائیل کے اپنے رویے پر لاگو کیا جائے؛ تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کا بیان محض دوغلا پن ہے۔ یہ تضاد واضح طور پر اسرائیلی قیادت کی منافقت، بے حسی اور ظلم کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر اسپتالوں پر حملہ بدترین جرم ہے؛ تو اسرائیل نے یہ جرم متعدد بار کیا ہے اور اب بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوں اسرائیلی وزیر کا یہ بیان دراصل اپنے ہی ملک پر صادق آتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کا سیاسی و عسکری نظام اخلاقی اقدار سے عاری اور سب کے سب مجرم ہیں۔ اسرائیلی قائدین، وزراء اور افواج دنیا کے حقیر ترین لوگ ہیں۔
غزہ میں قتلِ عام جاری:
22 جون 2025 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی افواج نے ایک ہی دن میں کم از کم اکتالیس نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کے قریب دو فلسطینی شہری ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق،جہاں امدادتقسیم کی جا رہی تھی، ان مقامات پر اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملے کے ذریعے14/جون 2025 کو 45 لوگوں کے شہادت کی خبر ہے۔ رائٹرز نے اس خبر میں، غزہ کی وزارت صحت کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا ہے، جس کے مطابق، جب سے جی ایچ ایف نے امدادکی تقسیم شروع کی ہے، اس وقت سے اب تک تقریبا 274 لوگ امداد تقسیم کی جانے والی جگہوں پر شہید کیے گئے ہیں؛ جب کہ دو ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 12/ جون کو دیر البلاح میں فراسنیسی تنظیم "ڈاکٹرز ودآؤٹ بوڈرس” پر اسرائیل فوج نے میزائل سے حملہ کیا۔ اس حملے میں آٹھ افراد شہید ہوئے۔ اسرائیلی دہشت گردانہ حملے میں، اکتوبر 2023 سے اب تک تقریبا پچپن ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
حالات بتا رہے ہیں کہ اسرائیل صرف ایران کے ساتھ محاذ آرائی تک محدود نہیں؛ بلکہ غزہ میں بھی اپنی جارحانہ پالیسیوں پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جہاں کہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تقسیم کی جا رہی ہو، اسرائیلی فوج وہاں کسی بہانے سے نہتے شہریوں کو نشانہ بناتی ہے اور ان پر حملہ کرتی ہے۔ آئے دن ایسی دل دہلا دینے والی خبریں موصول ہو رہی ہیں جن میں امدادی قافلوں، ایمبولینسوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، اسرائیلی افواج نے جنگی جرائم کو معمول بنا لیا ہے۔ غزہ میں حالات دن بہ دن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اسپتالوں کی کمی، طبی سہولیات کی عدم فراہمی اور خوراک و پانی کی قلت نے انسانی بحران کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ ہر گزرتا دن درجنوں بے گناہ جانوں کے ضیاع کا پیغام بنتا جارہا ہے۔
عالمی برادری کی مجرمانہ چشم پوشی:
اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں، اسکولوں، رہائشی عمارتوں، مساجد اور پناہ گاہوں پر حملے اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی؛ یہ سب کچھ دنیا کے سامنے کھلے عام ہو رہا ہے۔ یہ طاقت کا ناجائز اور غلط استعمال ہے۔ اس کے باوجود مغربی دنیا، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں محض زبانی مذمت اور علامتی بیانات تک محدود ہیں۔ ان کی خاموشی اور چشم پوشی نہ صرف مجرمانہ غفلت ہے؛ بلکہ بعض اوقات اسرائیل کو مزید مہلت اور کارروائیوں کا جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔
وہی عالمی ادارے اور حکومتیں، جو یوکرین پر روسی حملے کو عالمی جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری ردِعمل ظاہر کرتی ہیں، وہ فلسطینی عوام کی نسل کشی پر چپ سادھے بیٹھی ہیں۔ یہ دوہرا معیار صرف انصاف کے عالمی نظام پر سوال نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مظلوم اقوام کے اعتماد کو بھی چکناچور کر دیتا ہے۔ اس رویے سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے نعروں کا اطلاق صرف مخصوص مفادات اور جغرافیائی حدود تک محدود ہے؛ جب کہ فلسطین جیسے مظلوم خطے کے لیے ان اصولوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اگر عالمی برادری واقعی انسانی حقوق، انصاف اور قانون کی بالادستی کی علمبردار ہے؛ تو اس کی غیر جانبدارانہ اور عملی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔ بصورت دیگر، تاریخ اس خاموش تماشائی رویے کو ایک بڑے اخلاقی سانحے کے طور پر یاد رکھے گی۔
مشترکہ طور پر سیاسی اور سفارتی حکمتِ عملی کی ضرورت:
یہ جنگ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان تصادم نہیں؛ بلکہ حق و باطل اور عدل و ظلم کے مابین ایک گہرا اور فیصلہ کن معرکہ محسوس ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی سیاست، اس کی عسکری جارحیت اور اس کے عالمی حمایتی آج کے دور کے جدید استعماری مظہر کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں مسلم دنیا کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر،ایک مشترکہ سیاسی اور سفارتی حکمتِ عملی اپنائے؛ تاکہ اس چیلنج کا مؤثر اور ٹھوس جواب دیا جا سکے۔ بین الاقوامی فوج داری عدالت اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف منظم انداز میں مقدمات دائر کیے جائیں۔ ساتھ ہی عالمی میڈیا پر منظم اور مدلل انداز میں اسرائیلی مظالم، نسل کشی اور دوہرے معیار کو بے نقاب کرنے کی مہم چلائی جائے۔ مسلم دنیا کے دانشور، محققین اور طلبہ تحقیق پر مبنی مقالات، کتب اور رپورٹس تیار کریں؛ تاکہ تاریخی طور پر اسرائیلی بربریت کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا جا سکے۔ مزید برآں، اسرائیلی مصنوعات اور اداروں کے بائیکاٹ کی تحریکیں منظم انداز میں شروع کی جائیں؛ تاکہ اسرائیل پر اقتصادی دباؤ بڑھایا جا سکے اور اسے اپنی جارحیت سے باز رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ ایک ہمہ گیر، مستقل اور متحد حکمتِ عملی ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اسرائیل نسل کشی کی علامت:
اسرائیلی ریاست اور اس کی قیادت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ظلم، جھوٹ، منافقت، قتلِ انسانیت اور منظم نسل کشی کی علامت بن چکی ہے۔ غزہ میں جاری بربریت اور بے گناہوں کا قتل عام اس کے چہرے سے ہر قسم کے جمہوری و اخلاقی نقاب کو ہٹا چکا ہے۔ ایران کے حالیہ حملوں نے اس کی عسکری برتری کے خود ساختہ تاثر کو چکناچور کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا نہ صرف ممکن ہے ؛بلکہ مؤثر بھی ہو سکتا ہے۔ امتِ مسلمہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو اور عالمی ضمیر بھی محض زبانی ہمدردی سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھائے۔ اسرائیل کو اس کےجنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کا قانونی، اخلاقی اور عملی جواب دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگر آج اس ظلم کا جواب نہیں دیا گیا؛ تو کل ظلم کی یہ آگ مزید سرحدیں پار کر کے پوری انسانیت کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ظلم کو روکنا صرف فلسطین کا نہیں، پوری انسانیت کا مقدمہ ہے اور اس مقدمے میں خاموشی، مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ ••••
Comments are closed.