بددعا

سمیع اللہ ملک
کہاں ہیں وہ سیاسی پنڈت،عا لمی مخبر،بین البراعظمی تجزیہ نگاراورمقا می دانشورجووحشت ناک موسموں کی داستانیں بیان کرنے میں یدطولی رکھتے اورروزانہ اپنے خوفناک پروپیگنڈے سے لبریززبان سے شعلے اگلتے رہتے تھے۔صرف چندسال قبل دنیاکے کسی بڑے اخباریارسالے کواٹھالیں،کسی عالمی حالات حاضرہ کے ماہرکامضمون پڑھ لیں یاپھر کسی ملکی تجزیہ نگارکی گفتگوملاحظہ کریں،یہ سب ایک آنے وا لے خوف اورگھروں پردستک دینے والی آفت کی نشاندہی کرتے نہیں تھکتے تھے۔نیٹوافواج کاپاکستان میں گھسنے کا پروگرام،مشرقی سرحدپرہندوستان کی گولہ باری،بلوچستان میں دونوں اطراف سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مداخلت،کراچی کوجناح پورکانام دیکرنیاہانگ کانگ بنانے کا خواب،فاٹااورملحقہ علاقوں کوعملانوگوایریااورسوات اورمالاکنڈپرقبضے کے بعداسلام آبادپریلغارکاخواب اورباقی ملک کیکئی حصوں میں دہشتگردی اورخودکش حملوں کاعذاب،این آراوکے نام پرنام نہادسیاسی سیٹ اپ اورپھرملکی دولت کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ نے مملکت خدادادکی چولیں تک ہلاکررکھ دیں تھیں۔وہ جوکل تک اس مملکت خدادادپا کستان کے مطلق العنان حکمرانوں کوامریکاکاساتھ دینے پرشاباش دیاکرتے تھے ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں کوسراہاکرتے تھے،آج ان کی زبانیں نہ صرف گنگ ہو گئیں بلکہ افغان امن معاہدہ میں ہمارے کردارکے محتاج بن گئے اورضربِ عضب کے بعدردالفسادنے توکایاہی پلٹ دی ہے۔
یہ سیاسی پشین گوئیاں کوئی آج شروع نہیں ہوئیں۔مغرب کودیکھا جائے تومدتوں بڑے بڑے انسٹیوٹ اورتھنک ٹینک حکومتی پیسوں اورخصوصی مالی امدادسے میرے ملک کے مستقبل کے بار ے میں اپنی ترجیحات بناتے رہے،منصوبہ بندیاں کرتے رہے اورموٹی موٹی رپورٹیں مرتب کر تے رہے۔کوئی2020،کوئی2015اورکوئی2010تک اس نازک اندام مملکت کامستقبل دیکھتارہاتو کسی نے خوبصورت نقشوں میں رنگ بھرکراس ملک کاجغرافیہ مرتب کیا۔اسے نقشے پراپنی مرضی سے ایسے تقسیم کیاجیسے سا لگرہ کاکیک کاٹا جاتا ہے۔ اپنے منصوبہ کواپنی خواہشوں اوراپنے خوابوں کوعمل کی صورت دینے کاوقت آیاتوجوان منصوبوں اورسکرپٹ میں مرکزی کردارتھے انہوں نے ریہرسل کے طورپراپنی اپنی لائنیں دہراناشروع کردیں۔کسی نے جغرا فیہ تبدیل ہونے کی دہمکی دی،تو کسی نے اس دہمکی پراپنی جوابی تقریرمیں کھل کرداددی لیکن وہ جنہیں آنے والے دنوں کی سنگینی کااندازہ تھا ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کی راتیں اضطراب اوردن بے چینی سے گزررہے تھے، جوتنہائیوں میں اپنے رب کے حضورسربسجوداپنے شہداکے خون کاواسطہ دیکر ملک کی سلامتی کیلئے گڑگڑارہے تھے،وہ اب بھی اپنے رب سے مناجات میں مصروف ہیں!
لیکن وہ کہ جن کے بارے میں میرے رسول مخبرصادقﷺنے کہاتھاکہمومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہاہوتاہیا نہوں نے سالوں پہلے اس سا نحے سے آگاہ کردیاتھالیکن انہیں ایک بات کایقین تھاکہ سب کچھ ہماری بہتری کیلئے ہونے والاہیلیکن زندگی سے محبت اورموت کاخوف رکھنے وا لے مجھ پرٹوٹ پڑے جب میں نے اس مردِ درویش کی بات کھول دی لیکن کیاکوئی سیدالانبیاﷺکی اس حد یث کوجھٹلا سکتاہے۔آپﷺنے فرمایاایساہوگا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئے اکٹھی ہوجائیں گی اور ایک دوسرے کوایسے بلائیں گی جیسا بھوکے ایک دوسرے کوکھانے پربلا تے ہیں”۔ ایک شخص نے عرض کیاکہ یہ اس لئے ہوگا کہ ہم تعدادمیں کم ہوں گے اوردشمن زیادہ؟ فرمایانہیں ،مسلمان تواس وقت بہت ہوں گے مگرایسے ہوجا ئیں گے جیسے دریاکے بہا پرپڑاہواکوڑاکرکٹ،دریاجدھربہتاہے ادھرہی بہہ جا ئے،تمہا رے دشمنوں کے دلوں سے تمہا ری ہیبت نکل جائے گی اورتم’’وہن‘‘کاشکارہوجاؤگے۔کسی نے پوچھا کہ وہن کیاہوتاہے؟ آپﷺنے فرمایاکہ ’’دنیاکاعشق اورراہ حق میں موت سے بھا گنا ‘‘۔
میرے رسول مخبرصادقﷺکی صداقت پرایمان کی حدتک یقین کرنے والے جا نتے ہیں کہ ہم اس بیماری کاشکارہیں۔وہ خوف جس سے ہم نائن الیون کے موقع پراپنی غیرت، حمیت،وقاراورعزت وناموس بیچ کرنکلے تھے کہ ہمارا تورا بورانہ بن جائے،ہم نے ان کی خوشنودی کیلئے کتنے بے گناہوں کاخون بہایا،ہمیں شایدیادتک نہ ہو؟لیکن وہ تواس وقت بھی بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرچڑھ دوڑنے کاارادہ رکھتے تھے،اپنے مضمونوں میں،اپنی رپورٹوں اورتبصروں میں ہمارامقدمہ کھول کھول کربیان کرتے پھرتے تھے کہ اسی سر زمیں سے75ہزارپروازیں ہوئیں اورافغانستان کے بے گناہ اورمظلوموں کے جسموں کے پرخچے اڑادیئے گئے۔چھ سوسے زیادہ’’خطرناک ‘‘افراد پکڑکردشمنوں کے حوالے کئے گئے لیکن اس ساری مہلت میں جومیرے ملک پر گزری اس کی داستان کوئی بیان نہیں کرتا؟
واناوزیرستان سے لیکرسوات تک اورکراچی سے لے کربلوچستان تک گرتی تڑپتی لاشوں کاکوئی تذکرہ نہیں کرتا؟لاکھوں بے گناہ بے گھرقبائلیوں کاکوئی ذکرکسی انسانی حقوق کی رپورٹ میں موجودنہیں۔وہ جواپنی جان سے گئے،بے گھرہوئے، دربدر ہوئے،وہ جن کے گھربموں کی زدمیں رہے،جن کے پیارے لاپتہ ہوگئے،وہ ڈومہ ڈولہ کے مدرسہ میں قرآن پڑھنے والے معصوم اوربیشتریتیم بچے جن کاتورابورابنادیاگیا،ان کیلئے کسی مغربی انسا نی حقوق کی تنظیموں کے ماتھے پرشکن تک نہیں آئی،ان کیلئے امریکی افواج بھی آجاتیں تواس سے زیادہ کیابراکرتیں لیکن اب توان ظالموں کی مہلت ختم ہواچا ہتی ہے جوان چندبرسوں سے اس بات پرخوش تھے کہ ہماری دانشمندی نے ہما رے مال اسباب،شان و شوکت اورعیش وعشرت کوبچالیالیکن ضربِ عضب کے بعداب مو ت کاخوف اورزندگی سے محبت انہیں چین سے جینے نہیں دے رہی لیکن صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ انہیں علم ہے کہ اس قوم کے دل سے مو ت کاخوف نکالنااورراہ حق میں جان دینے کی محبت ہی ان کاعلاج ہے۔
آج سے چند سال پہلے کوئی کہتا کہ ہم کمزورہیں،امریکاطاقتورہے تومیں یقین کرلیتالیکن میرے اللہ پریقین اورموت سے محبت کی ایک داستان اس وقت رقم ہوئی جس نے سیاسی اورجنگی پنڈتوں کے تمام اندازے ملیا میٹ کردیئے جب قصرسفیدکے فرعون نے اپنے تمام ظالمانہ ہتھیاراستعمال کرنے کے بعدافغانستان سے بوریابسترلپیٹنے کاعندیہ دیا۔ نیٹوکی مکمل حمائت ومددکے باوجودذلت آمیز شکست مقدربن گئی۔رسوائیاں سمیٹنے کے سواکچھ ہاتھ نہ آیااوراب دوہامعاہدہ کامقصد بھی یہی تھا کہ کس طرح اس کمبل سے جان چھڑائی جائے۔
کیسے مان لیاجائے کہ خودقصرسفیدکافرعون کشمیرمیں ثالثی کی بات کرے اوراس کے بعدسفاک ہندوغیرقانونی طورپرکشمیر کی حیثیت بدل کرلاک ڈائون کااعلان کردے جوآٹھ مہینے سے جاری ہے۔بالآخردہلی کاایک سینئرصحافی اروندمشراچیخ اٹھاکہ یہ ساری دناکالاک ڈائون تونفیسہ نامی کشمیری بچی کی وہ بددعاہے جس اس نے تمام صحافیوں کے سامنے دہرائی تھی ۔ میرے کانوں میں نفیسہ کے وہ شبد(الفاظ)آج بھی گونج رہے ہیں:اے اللہ جوہم پرگزررہی ہے کسی پرنہ گزرے بس مولاتوکچھ ایسا،اتناکردیناکہ پوری دنیا کچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہونے پرمجبورہوجائے،سب کچھ بندہوجائے،رک جائے!شایددنیاکویہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں!اروندبھائی آپ دیکھنا میری دعابہت جلد قبول ہوگی۔
دراصل صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ اس قوم سے موت کاخوف اترنے کے دن آرہے ہیں اورجنہیں زندگی سے محبت ہے ان کا انجام بھی قریب۔جب ایساوقت اورایسی کیفیت کسی قوم پراترتی ہے تووہ بڑی سے بڑی عالمی طاغوتی طاقتوں کاقبرستان بن جاتی ہے۔میرے رسول اکرم محمدﷺکواسی لئے تو اس خطے سے ٹھنڈی ہواآیاکرتی تھی۔
سجنو!میرے اللہ کی طاقتوں کاکوئی شریک نہیں۔ایک یقین کی توبات ہے جوبھی بڑھ کراس یقین کی لاٹھی کوپکڑلے اسی کیلئے عصائے کلیمی ہے۔
خلقِ خداہے اورتقاضائے مصلحت
سب جانتے ہیں اورکسی کوخبرنہیں
Comments are closed.