جمعہ نامہ :کورونا اور نماز

ڈاکٹر سلیم خان
ترک صلوٰۃ کی بابت حدیث ہے ’’ جس نے قصداً نماز چھوڑی اس نے فعلِ کفر کیا‘‘گویایہ مومن اور کافر میں فرق کرنے والی عبادت ہے اس کے باوجودنماز کے حوالے سے مسلمانوں کی کئی قسمیں ہیں۔ اول تو تہجد گزار بندے جو اس حدیث پاک ؐ پر عمل کرتے ہیں کہ’’ میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘۔ دوسری قسم پنچگانہ باجماعت نماز یوں کی ہے ۔ کورونا اور لاک ڈاون کے سبب یہ لوگ سب سے زیادہ الجھن کا شکار ہیں کیونکہ وہ دن میں پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے تھے ۔ وہ اس حدیث پر یقین رکھتےہیں کہ ’’ جو شخص صبح کے وقت مسجد جائے یا شام کے وقت، وہ جب بھی مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے‘‘ ۔ ویسے جمعہ کے جمعہ حاضری دینے والے بھی اپنی زندگی میں فی الحال ایک بہت بڑا خلاءمحسوس کرتے ہیں ۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ روزِ قیامت سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا لیکن بقول غالب اس کیفیت مبتلاء ہیں ؎
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی
اس میں شک نہیں کہ کورونا کے لاک ڈاون نے اہل ایمان کو عارضی طور پر مسجد کے اندرنمازِ باجماعت کی سعادت سے محروم کردیا ہے اور کچھ لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ مسجدوں کے دوبارہ کھل جانے کے بعد مصلیان کرام دوبارہ مسجد کی طرف پلٹیں گے بھی کہ نہیں ؟کسی شےسے محرومی سے انسانی مزاج میں اس کی اہمیت بڑھادیتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ پابندی کے خاتمے پر مسجد کے اندر نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے۔ اس محرومی کا ایک پہلو یہ ہےکہ عام لوگوں کے لیے وقت پر نماز کی ادائیگی میں جو بے شمار رکاوٹیں حائل ہواکرتی تھیں وہ فی الحال ختم ہوگئی ہیں ۔ پہلی رکاوٹ تو سفرہوا کرتا تھا۔ بڑے شہروں میں شام کو گھر لوٹتے ہوئےعصریا مغرب خطرے میں پڑجاتی تھی ۔ کئی دفاتر میں نماز کی جگہ نہیں ہوتی اس لیے ظہر کی ادائیگی میں مشکلات پیش آتی تھیں ۔ آج کل بندی کے سبب نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ پنج وقتہ نماز اپنے وقت پر ادا ہوسکتی ہیں۔ لیکن کیایہ ہوتا ہے؟
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب اسے ایک سہولت حاصل ہوتی ہے تو وہ دوسری مصیبت اپنے اوپر مسلط کرلیتا ہے۔ آج کل گھر میں بیٹھنے والوں کے پاس فرصت ہی فرصت ہے اس کے باوجود وقت کی قلت ہے ۔ اس کی کچھ خارجی اور کچھ داخلی وجوہات ہیں ۔ دن کی مصروفیت کے وقت اللہ تعالیٰ نے صرف دوپہر کو کھانے کے وقفہ میں نماز ظہر کا حکم دیا ۔ فجر علی الصبح ہوجاتی ہے اور دیگر تینوں نمازیں شام میں فرصت کے وقت ہوتی ہیں لیکن اکثر عصر کے وقت ہمارا پسندیہ ہ میچ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور ہم اس میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ مغرب کی اذان ہوش میں لاتی ہے۔ مغرب کے وقت خبروں کے چینل پر چھڑی مہابھارت پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔عشاء کی نماز تفریحی سیریلس کی نذر ہوجاتی ہے اور ہم نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سوشیل میڈیا کا تو کوئی وقت ہی نہیں ہے ۔ دن بھر خبریں اور ویڈیوز کا تانتہ لگا رہتا ہے۔ ایک کھولو تو اس کے بطن سے دوسرانکلتا رہتا ہے اور ہماری ساری فرصت کو ڈکارتا چلا جاتا ہے۔ یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے الاماشاء اللہ۔
ہمارا نظام الاوقات یعنی سونے اور جاگنے وقت بھی نماز کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ لوگ یہ سوچتے ہیں چونکہ اگلے دن کام پر جانا نہیں ہے اس لیے جلدی کیوں سوئیں؟ اب دیر سے سونے والوں کے لیے نمازِ فجر کے لیے جلدی اٹھنا ایک مسئلہ ہے؟ سعودی عرب میں چونکہ اذان کے بعد کام کاج ٹھپ ہوجاتا ہے اس لیے جو وہاں رہ کر بھی نمازی نہیں بن سکا وہ کبھی نماز کا پابند نہیں بن سکتا ۔ کورونا کے زمانے میں بھی اپنے آپ کو نماز کا پابند نہیں بناسکا وہ پھر کبھی ایسا نہیں کرسکتا ۔کورونا کی آفت نےلوگوں کو گھر میں بند کرکے کو بہت ساری فحاشی و بدکاری سے روک رکھا ہے لیکن جب یہ وباء چلی جائے گی تو پھربرائیوں کے وہسارے دروازے کھل جائیں گے لیکن جو اس دوران نماز کے پابند بن گیااس کو نمازہمیشہ بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی رہے گی۔

Comments are closed.