میڈیاہاؤس کاقیام: ضرورت اورچندبنیادی باتیں!

 

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

آج رائے عامہ کوہمواراوراپنے موافق کرنے کاسب سے بڑااورمؤثرذریعہ میڈیاہے، یہ نفسیاتی اوراعصابی جنگ اورتہذیبی یلغارکابھی بہترین ہتھیارہے،یہی وجہ ہے کہ دنیاکی سب سے شاطرقوم’’یہود‘‘نے سب سے زیادہ اپناسرمایہ اسی پرلگارکھاہے، دنیاکی جوبڑی بڑی نیوزایجنسیاںہیں، ان میںسے اکثرانھیںکی ملکیت ہیں، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ وہ جب ، جیسااورجوچاہتے ہیں، آپ کے نہاں خانہ ٔ دل وذہن میںپیوست کردیتے ہیںاوراس طرح کرتے ہیںکہ آپ ان کے خلاف کایقین ہی نہیںکرتے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان ایجنسیوںکے علاوہ خبروںکے سورسیز تک یاتوہماری رسائی نہیںہوپاتی یاہمیںوہاںتک پہنچنے سے پہلے روک دیاجاتاہے۔
یہ یہودیوںکاکوئی خواب نہیں؛ بل کہ منصوبہ تھا، جوسالوںپہلے انھوںنے تیارکیاتھا؛ چنانچہ ۱۸۹۷ء میںسوئزرلینڈکے شہربازل(Basel)میںتین سویہودی دانشوروں، مفکروںاورفلسفیوںنے ہرٹزل کی قیادت میںجمع ہوکرپوری دنیاپرحکمرانی کامنصوبہ تیارکیاتھا، یہ انیس(۱۹)پروٹوکولز کی صورت میںپوری دنیاکے سامنے آبھی چکاہے، جس میں میڈیاکوبنیادی اہمیت دی گئی تھی، اس کے بارہویںدستاویزمیںمیڈیا کی غیرمعمولی اہمیت اوراس کی تاثیروافادیت کاتذکرہ یوںکیاگیاہے: ’’اگرہم یہودی پوری دنیاپرغلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائرپرقبضہ کومرکزی اوربنیادی اہمیت دیتے ہیںتوذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرااہم درجہ رکھتاہے، ہم میڈیاکے سرکش گھوڑے پرسوارہوکراس کی باگ کواپنے قبضے میںرکھیںگے، ہم اپنے دشمنوںکے قبضے میںکوئی ایسامؤثراورطاقت وراخبارنہیںرہنے دیںگے کہ وہ اپنی رائے کومؤثرڈھنگ سے ظاہرکرسکیںاورنہ ہی ہم ان کواس قابل رکھیںگے کہ ہماری نگاہوںسے گزرے بغیرکوئی خبرسماج تک پہنچ سکے‘‘(سیکولرمیڈیاکاشرانگیزکردار، ص۷۱)۔
یہودیوںکی اس منصوبہ بندی پرایک صدی کاعرصہ بھی نہیںبیتاتھاکہ وہ کامیابی سے ہم کنارہوگئے؛لیکن ظاہرہے کہ وہ اپنے اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے برابرکام کرتے رہے، محنت کرتے رہے، مارتے بھی رہے اورمرتے بھی رہے؛ لیکن اپنے منصوبے کوبندنہیںکیا، جس کانتیجہ آج ہماری آنکھوںکے سامنے ہے، خودہمارے ملک کے اردواخبارات کو ہی لے لیجئے، اس کے اندرچھپنے والی خبریںبالخصوص مشرق وسطیٰ اوردیگراسلامی ممالک کے تعلق سے کونسی ہوتی ہیں؟وہی ، جویہودی نژادمیڈیاہم تک پہنچاناچاہتی ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک کی میڈیاکابھی وہی حال ہوچکاہے، جویہودی میڈیاکاہے؛ بل کہ اگریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ اس سے دوقدم آگے ہے؛ کیوںکہ ان کی پالیسی اب تبدیل ہوگئی ہے، وہ دونوں طرح کی خبریںدکھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ اوربات ہے کہ اپنے مفادکوہی پیش نظررکھتے ہیں ؛ تاکہ دونوںہاتھ میںلڈورہے اوروقت ضرورت اس میںکچھ مرچ لگادیاجائے ؛ لیکن ہمارے یہاںکی میڈیابس یک طرف خبروںکوہی نشرکرتی ہے، پھراس میںبھی پیسوںکی چمک نے اوراندھاکردیاہے اوراس کی وجہ سے اپنافرض بالکل بھول چکی ہے، اب پیسے لے کرصرف وہ خبریںہی دکھاتی ہیں، جواعلی قیادت چاہتی ہے۔
ایسی صورت حال میںہرصاحب بصیرت کے دل کی بات یہ ہے کہ ہمارااپناایک میڈیاہاؤس ہوناچاہئے، یہ وقت کی اہم ضرورت ہے،عالمی پیمانہ پرنہ سہی، کم از کم ملکی پیمانہ پرضرورہو، جوہماری بات لوگوںتک اورحکومتوںتک پہنچاسکے، لوگوںتک خبروںکی ترسیل من وعن کرسکے، جس میںدودھ کودودھ اورپانی کوپانی ہی بتایاجائے، اس سلسلہ میںراقم کے نزدیک چندباتیںقابل غورہیں:
۱- میڈیاہاؤس سننے میںبڑاخوش نمالفظ ہے؛ لیکن اس کے قائم کرنے کے لئے کافی مصارف درکارہیں، اس کے بغیریہ ناممکن ہے، اب سوال یہ ہے کہ ان مصارف کاحصول کیسے اورکہاںسے ہو؟ اس سلسلہ میںراقم کے ذہن میںکئی باتیںآرہی ہیں:
(الف) اس کی ایک شورائی مجلس ہو، جس میںمعتدل مزاج لوگ شامل ہوں، جوقوم کے یقیناً ہمدردہوں اوران دلوںمیںخوف خدابھی ہو،عصری تعلیم یافتہ بھی ہوںاوردینی تعلیم یافتہ بھی، نیزاس فن کے ماہرین کااس میںہونا ضروری ہے،پھریہ لوگ اہل ثرت سے اسی طرح رقوم دینے کے لئے کہیں، جس طرح مساجداورمدارس کی تعمیراورقومی وبین الاقوامی جلسے جلوس کے لئے وہ دیتے ہیں، اس طرح بہ آسانی میڈیاہاؤس قائم ہوسکتاہے، ایسی صورت میںمیڈیاہاؤس کی آمدنی پہلے مرحلہ میںاس ہاؤس کو بہتربنانے کے لئے خرچ کیاجائے، پھراس کے دائرۂ کارکووسعت دینے میںصرف کیاجائے۔
(ب) اگریہ نہ ہوسکے تواہل ثروت میںسے چندافرادباقاعدہ تجارتی غرض سے اس میںرقم لگائیں، اس کاایک فائدہ تویہ ہوگاکہ میڈیاہاؤس بہ آسانی قائم ہوجائے گا، دوسرافائدہ یہ ہوگاکہ رقم لگانے والوںکی تجارت بھی ہوجائے گی، تنہاایک فردبھی لگاسکتاہے؛ لیکن اس میںڈکٹیٹرشپ آسکتی ہے ، پھرتوپالیسی کے خلاف ہوناممکن ہے، جب کہ چندافراد رہنے میںاس کااندیشہ نہیںکے برابرہے، پھراس کی آمدنی یہ لوگ آپس میںتقسیم کرلیں —- رقوم کے حصول کے لئے یہ دونوںطریقے بہت مناسب ہیںاورآخرالذکر توراقم کے نزدیک پہلے سے کچھ زیادہ مناسب ہے۔
(ج) ایسابھی ہوسکتاہے کہ دیگرنیوزچینلوںکی طرح کسی کاتجارتی غرض سے پرسنل چینل ہو؛ لیکن وہ قوم کے مفادکوہرحال میںسامنے رکھنے والاہو۔
۲- میڈیاہاؤس کے قیام کے بعداس کے لئے درکارافرادکی ضرورت ہوگی، افراد کے انتخاب میںاس بات کاخیال رکھیںکہ وہ سب کے سب مسلم ہی نہ ہوں؛ بل کہ معتدل مزاج مسلم اورغیرمسلم افرادکامجموعہ ہوں، اس سلسلہ میںبالخصوص ان افرادپرنظرہونی چاہئے، جومسلمان کسی دوسرے چینل میںکام کاتجربہ رکھتے ہوں، پھران غیرمسلم افراد پر، جنھیںگودی میڈیانے راست گوئی کے جرم میںاپنے یہاںسے نکال دیاہو، ان کے ساتھ ساتھ ان کابھی انتخاب کیاجاسکتاہے، جوسچ کوسوشل میڈیاز(یوٹیوب چینل، فیس بک پیچ وغیر) کے خودکے چینلوںسے ثابت کرنے کے لئے کوشاںرہتے ہیں، اس میںنوجوان لڑکے اورلڑکیوںکی ایک بڑی تعدادمل جائے گی، ان کوایک پلیٹ فارم مل جائے گااورمیڈیاہاؤس کواپنے لئے تجربہ کارورکرس۔
۳- اس کی ایک مشاورتی کمیٹی ہو، جس میںزمانہ شناس علماء،قوم کے ہمدردسیاست داں، قوم کے خیرخواہ وکلاء، قوم کے غم گساراہل ثروت ، میڈیاسے تعلق رکھنے والے لوگ وغیرہ ملک کے کونے کونے اوربیرون ملک قیام پذیرافرادمیںسے منتخب کئے جائیں، اس انتخاب میںعلاقائی ،نسلی، لسانی، تہذیبی وغیرہ عصبیتوںکاعمل دخل بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے۔
۴- میڈیاکومیڈیاہی رہنے دیاجائے، اس میںوہی چیزیںشائع ونشر کی جائیں، جن کاتعلق خبروںاوراشتہارات وغیرہ سے ہو، اس پرسیاست اورمذہب کی اجارہ داری قائم نہ کی جائے۔
۵- چینل کانام بہت سوچ سمجھ کرایسارکھا جاناچاہئے، جوبالکل عام ہو، تمام ادیان کے لوگوںکواپنی جانب متوجہ کرسکے۔
۶- میڈیاہاؤس کااصل آفس ملک کی راجدھانی دہلی میںہواورملک کے تمام صوبوںمیںاس کے برانچز ہوں۔
۷- اس کے تحت اردو کے علاوہ دوسری قومی زبانوں(مثلاً: ہندی، انگریزی بالخصوص اورتمام علاقی زبانوںمیںبالعموم)میںاخبارات بھی نکالے جائیں کہ ان زبانوں میںشایدہی ہماراکوئی اخبارمل سکے۔
یہ چند بنیادی باتیںذہن میںآرہی تھیں، اس میںاوربہت ساری ہوسکتی ہیں، بالخصوص جواس میدان سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس اوربھی مفیدمشورے مل جائیںگے ، بس ضرورت ہے کام کرنے کی، اب انتظارکاوقت ختم ہوچکاہے، زیادہ انتظارہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا، اہل ثروت سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دیں، اس سلسلہ میںبس ذہن میںیہ بات رکھیںکہ اپنے سرمایہ کوجب ہم کسی کمپنی وغیرہ میںلگاسکتے ہیںتواسی میں کیوںنہ لگائیں؟ تجارت کی تجارت اورخدمت کی خدمت، اس پر اللہ تعالیٰ دوہر اجربھی دے گا، (ان شاء اللہ)، ایک توتجارت کااجر، کہ روزی کے لئے حلال طریقہ اختیارکیا، دوسراقومی ہی نہیں؛ بل کہ اسلام کی خدمت کااجر؛ البتہ اس سلسلہ میںیہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ منافع کی امیدضرورہو؛ لیکن اس میںعجلت پسندی سے کام نہ لیاجائے، توہے کوئی اس قومی واسلامی خدمت کے لئے آگے بڑھنے والا؟؟

Comments are closed.