Baseerat Online News Portal

یار! میں بہت مصروف ہوں

از: مفتی صدیق احمد

جوگواڑ؛نوساری؛گجرات؛انڈیا
موبائل نمبر:8000109710
کچھ اس طرح کاواقعہ اُ س وقت پیش آیاجب نادردسویں کلاس میں پڑھ رہاتھا؛گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر اسکول تھا،سخت سردی میں موٹاساکمبل اوڑھے ٹھٹھرتے ہوئے اسکول کی اور(جانب) نکل پڑا،جب کلاس میں پہنچاتو دیکھاکہ سوائے سہیل اورفرحان کے کوئی بھی موجود نہیں ہے؛
نادرکہتاہے کہ:ہم نے سوچا کچھ دیر انتظار کرتے ہیں ماسٹر صاحب آجائیں گے؛لیکن آدھا گھنٹہ گزر چکاتھا،کوئی بھی نہیں آیا، ٹھنڈ اور زیادہ بڑھ چکی تھی ،اب ہم ایسی سخت سردی سہہ کر گھر جاتے ہیں تو بیمار۔ہونے کا خدشہ ہے
؛سہیل اورفرحان نے کہا یار نادر! یہیں بیٹھ ،بہت دن ہوچکے ہیں ،ہم ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت نہیں کر سکے ،آج ذرا گپ شپ لگاتے ہیں؛تاکہ وقت بھی کٹے اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھ بھی لیں۔
نادر کہنے لگا۔۔ چل سہیل تو شروع کر،سہیل کہتا ہے نہیں یار توہی آٖغاز کردے۔ نادر، فرحان سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ فرحان کچھ سنائے؛
کوئی بھی پہل نہیں کرنا چاہ رہا تھا بالآخرباقیوں کی مسلسل اصرار پر نادر اپنی داستان شروع کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ؛لیکن پھر یکایک خیال آیا کہ کیا سناؤں؟ چنانچہ نادر نے کہا یار! میری داستان اخیر میں سننا ؛کیونکہ وہ بہت ہی رقت انگیز ہے؛ دوستوں نے کہا تب تو، توہی پہلے سنانا؛اس کے بعد ہم سنائیں گے؛نادر بہت منت وسماجت کے بعد تیار ہوگیا۔
نادر نے کہا:یار! کیابتاؤں؟میں تو بہت پریشان ہوچکاہوں،اکیلااکیلا رہ کر یکسانیت کا شکار ہوجاتاہوں،اسکول میں ہی مجھے تم لوگوں کے ساتھ رہنا اچھالگتاہے،دوستوں نے کہا یار!تواکیلے کیسے ؟تیرے گھروالے بھی تو ہیں تیرے ساتھ؛
ہاں گھر والے ہیں تو،پر کوئی مجھے وقت نہیں دیتا،تمام اپنے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں؛پاپا پورادن آ فس میں رہتے ہیں،جب گھر پہ آتے ہیں تو موبائل میں واٹساپ، فیسبک،اورنیوزدیکھنے میں مشغول رہتے ہیں،امی بھی گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہے ،خالی وقت میں وہ بھی موبائل لیکر بیٹھ جاتی ہے؛مجبورًا میں بھی موبائل لیکر یوں ہی وقت گزاری کرتاہوں،کچھ دیر مطالعہ بھی کرلیتاہوں،اسی طرح میراپورادن گزر جاتاہے،اپنوں میں رہ کر بھی مجھے لگتاہے کہ میں کسی کے یہاں مہمان بن کر آیاہوں،یا میں کسی ویران گھر میں قیام پذیر ہوں ،جہاں میرے علاوہ کوئی نہیں؛میں کئی دنوں سے مسلسل امی اورپاپاسے کہہ رہاہوں کہ: مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے،ان کا ایک ہی جواب سننے کو مل رہاہے،بیٹا!ابھی میں بہت مصروف ہوں،بعد میں آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے؛حالانکہ جب میں چھوٹا تھاتو امی پاپا کے ساتھ بیٹھتا،کھیلتا،بات چیت کرتاتھا؛کچھ بڑا ہواتب بھی امی پاپا اسکول تک چھوڑنے آتے تھے؛کبھی میں غصہ ہوجاتا،یا کچھ ضد کرتا تو وہ میری خواہش پوری کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے تھے؛جب کہ اُسوقت ہم میڈل کلاس تھے ؛ لیکن اب مال ودولت کے باوجود میں محبت،سکون،اپنائیت،اور قلبی خوشی سے محروم ہوں؛دل میں طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں،کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا،ایک مرتبہ تو دل میں یہ بھی آیا کہ گھر سے دور کہیں اور جاکر رہوں،تاکہ مجھے دیکھ دیکھ کر ذھنی تناؤ نہ ہو؛لیکن اچانک خیال آیاکہ کچھ بھی ہو ،ماں باپ ہی ہے،میری وجہ سے پریشان ہوں گے،آخر ان کا لڑکا ہوں،انکا خون میری رگوں میں دوڑتاہے،ان کوبہت صدمہ ہوگا؛یہ سب سوچ کررُک جاتا ہے؛نادرکی آنکھیں اشکبارہوجاتی ہیں ،اور کچھ دیر کے لیے اس پر سکتہ طاری رہتی ہے ،خاموش ہونے پر دوستوں نے پوچھانادر کیاہوا؟نادرنے کسی طرح اپنے اوپر قابو پاکر کہا:چھوڑیار، میرااس دنیا میں اب کوئی نہیں ہے،کیاکروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟ دوستوں نے اس کے آنسوپونچھے اور کہافکر مت کر یار، ہم ہیں نا؛ہم اس کا حل تلاش کریں گے،ایسا تو اکیلا تھوڑی ہے،اکثر گھروں کی یہی کہانی ہے؛ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے؛لیکن اب ہم اسکو دل پر نہیں لیتے۔
یکے بعد دیگرے ہر ایک نے اپنی اپنی رُوداد سنانی شروع کی ،تاکہ نادر کو یقین ہو ،تسلی ہو،اور پھر سب ساتھ مل کرحل نکالنے کے لیے کسی معقول نتیجے پر پہنچ سکیں۔
چنانچہ سہیل کہنے لگا:جب میں بچپن میں روتا تھا تو میرے والدین مجھے موبائل دے کر میرادل بہلاتے تھے،کبھی کارٹون اور کبھی کوئی ویڈیو سے بہلاتے ،میں چُپ ہوجاتا،تھوڑابڑاہوا
تومیں موبائل کارسیا بن گیا،ضد کرکے والدین سے موبائل منگوا لیا،اب خالی اوقات میں گیم کھیلتا یا ویڈیو دیکھتا،کوئی کہانی دیکھتا،کبھی کوئی اچھا سیریل دیکھنے میں لگارہتاتھا،ابھی اس طرح دو تین سال ہی گزرے تھے کہ میں بھی تنگ آگیا،اب میں نے کھانا پینا چھوڑدیا،میں نے کہا جب تک مجھے انٹرنیٹ والا موبائل نہیں ملے گا نہ میں اسکول جاؤں گا اورنہ ہی کھاناکھاؤں گا؛والدین نے مجبورہوکر مجھے انٹرنیٹ والاموبائل دلادیا،اب توپورادن میں فیسبک،واٹساپ،انسٹاگرام،وغیرہ پر مصروف رہنے لگا،یوٹیوب پرجو جی میں آتا سرچ کرکے دیکھتا رہتا ؛حتی کہ میراپورادن اسکول اورموبائل میں گزرتاہے،ادھر میرے والدین بھی آ فس میں ،یا موبائل اور خبریں دیکھنے میں مشغول رہتے ،غرض گھر میں ہر فرد کے پاس اپنا اپنا موبائل تھا،سب اپنی اپنی دنیا میں مست ومگن تھے ،میں موبائل اوراسکول میں اب بھی اپنا پوراوقت گزاردیتاہوں؛پہلے مجھے تھوڑابہت تنہائی کا احساس ہوتاتھا؛لیکن جب سے انٹرنیٹ والا موبائل لیاہے،سوشل میڈیاپربہت سارے دوست ہیں،اسی میں وقت گزرجاتاہے؛اور اپنی موج مستی میں رہتاہوں؛ فکر تردد ختم کرو اور موج مستی کرو،خوب لطف اٹھایا کرو ، اپنے وقت پر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
فرحان کہنے لگا:نادر! سہیل صحیح کہہ رہاہے،بلا وجہ تم پریشان ہورہے ہو؛میں تو اسکول سے آکر پورادن پبجی کھیلتاہوں،پیسے کماتاہوں،ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتاہوں،لوگ فولو کرتے ہیں، لائک کرتے ہیں،دیر رات تک اپنے دوستوں کے ساتھ ٹیلے پر بیٹھ کر بات چیت کرتاہوں؛پاپا امی بھی اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں،وہ بھی پوری رات دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزارتے ہیں؛ابھی انگلش اسپوکن کورس شروع کردیا کیاہوں،تھوڑا وقت اس میں گزرجاتاہے؛مجھے بچپن سے ہی کچھ بڑاکام کرنے کاشوق ہے،میرادماغ بہت تیز ہے؛لیکن کیاکروں؟امی پاپاسے تبادلہ خیال کا موقع ہی نہیں ملتا۔ کہ کچھ آگے کا سوچ پاؤں،میں نے اسکے لیے ایک سال تک کوشش کی ؛لیکن مجھے کامیابی نہیں مل سکی ،اس لیے اب جو چیزیں موبائل سے میں کر سکتا تھا،وہی کر رہاہوں ؛اس کا افسوس بہت ہے کہ کاش کوئی راہ ملتی تو آج میں بہت آگے بڑھ چکا ہوتا،میں نے اپنے قریبی رشتہ داروں سے کئی بار اس کا اظہار کیا،ہر ایک نے اسے سراہا،اور اہم مشورے دیے؛لیکن جب تک امی پاپا کے سامنے پوری بات کُھل کر سامنے نہ آجائے ،وہ کیسے اجازت دیں گے؟اب تو بس سوچا ہے کہ یہ سال پورا ہونے کے بعدگھر سے دور دوسرے اسکول میں داخلہ لے لوں،وہیں کوئی کورس شروع کرلوں؛جس سے میں آگے بڑھ سکوں اورترقی کرلوں۔
نادر! ایک بات بتا ،یہ سب والدین سے پوچھنے کی کیا ضرورت؟اس کے بارے میں تو ماسٹر زید زیادہ جانتے ہوں گے؛نادر نے کہا:یار!وہ تو ہم پوچھ لیں گے ؛لیکن اگر آج ہم ماں باپ سے پوچھ پوچھ کرمعاشرے کی تمام چیزیں نہیں جانیں گے،رہن سہن ،اخلاق واطوار نہیں سیکھیں گے تو کل دنیا ہم پر ہنسے گی،ماں باپ کی بدنامی ہوگی ،ہم لوگوں کی نظروں میں گر جائیں گے؛اور میں نے صحابہ کرامؓ کے واقعات ،بزرگوں کی سوانح عمریاں ،اوراکابرین وبزرگانِ دین کے واقعات کوپڑھاہے،سب کے ماں باپ نے بچپن سے ہی ان پر محنت کی تھی انکی اچھی تربیت کی تھی،دنیا وآخرت کی تمام چیزیں اُ نھیں سکھائی تھی،انکے اس درجے تک پہنچنے اورغیر معمولی کارنامے انجام دینے میں والدین کا بڑاکردار رہا ہے ،آج ہم نے صحیح تربیت نہیں پائی توکل ہم اپنے مستقبل کوکیسے روشن دیکھ پائیں گے؟اوراپنے بچوں کی تربیت کیسے کرسکیں گے؟یار!ہم تو پورا دن اپنے ماں باپ کے پاس ہی رہتے ہیں،وہ ہمارے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں،ہمیں دیگر لوگوں کی نسبت وہ زیادہ پہچانتے ہیں،وہ کبھی ہمارے لیے کچھ بُرا سوچ ہی نہیں سکتے،جوکچھ بھی سوچیں گے وہ ہماری اچھائی کے لیے ہی ہوگا،اس لیے ان سے پوچھ پوچھ کرچلنا چاہئے۔
دوستوں نے کہا:یار!تو صحیح کہہ رہاہے؛اس کو توہم نے بہت ہلکا لیا ہے لیکن یہ تو بڑامشکل اوردشوار معاملہ ہے؛چلو!ہم ساتھ مل کر کچھ سوچتے ہیں ؛شاید کوئی حل نکل آئے؛کچھ دیر تک سب سوچتے رہے۔سوچتے رہے
لیکن کوئی حل نظر نہیں آیا،فرحان نے کہایار!ایک کام کرتے ہیں؛ماسٹر زید بہت اچھے ہیں،اچھی اچھی باتیں بھی بتاتے ہیں،ہمارے ساتھ گُھل مل کر رہتے ہیں؛کیوں نہ ہم ان کے پاس جاکر پورا قصہ سنائیں،وہ ضرور کچھ مدد کریں گے؛دوستوں نےتائید کی ،اور ان سے ملنے کے لیے اتوار کادن طے کر لیا، مجلس ختم ہوگئی ، چھٹی کاوقت بھی ہوچکاتھا، تینوں دوست اُداس،اُترے منہ، غم زدہ چہرے لیے اپنے اپنے گھر لوٹے، اتوارکے دن کا شدت سے انتظار تھا؛اورآج تومنگل کادن تھا،والدین نے جب کھاتے وقت بدلا ہواچہرہ دیکھاتوپوچھا،بیٹا!کیاپریشانی ہے؟کیوں اُداس ہو؟کسی نے کچھ کہاہے؟ نادر کچھ کہہ نہیں پارہاتھا،اور نہ ہی سہیل اورفرحان اپنے والدین سے کچھ کہہ پارہے تھے؛والدین نے پوچھنے کی ہرممکن کوشش کی؛ لیکن ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا،والدین بہت فکرمند تھے کہ اچانک اتنی تبدیلی کیسے آگئی؟
آئے دن وہ اس پریشانی اورغم میں پگھلے جارہے تھے؛نادر کے پاپا نے ماسٹر زید کوفون کیا،انکو پوری صورتحال سے آگاہ کیا،اور وجہ دریافت کی تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا؛ہفتہ کوماسٹر زید نے دیکھا کہ یہ تو واقعی بہت اداس ہے؛ پوچھا،بیٹے نادر!تم کوکیاہوگیاہے؟ بہت اُداس رہتے ہو،کوئی مسئلہ ہے توبتاؤ،کون پریشان کررہاہے؟کونسی فکر تمھیں کھائے جارہی ہے؟نادر نے کہا :سر!ایسی کوئی بات نہیں ہے،میں ٹھیک ہوں، زندگی میں تھوڑی بہت پریشانی توآتی رہتی ہے، ماسٹرزید نے کہا:بتاؤگے بھی ، ایسی کونسی بات ہے جو تم مجھ سے بھی چھپارہے ہو؟نادر نے جواب دیا:میں کل آپکے گھر آؤں گا، وہاں بتاؤں گا، ماسٹرزید نے کہا:بیٹے ضرور آنا؛ سبق کا وقت شروع ہوگیا، ماسٹر زید لیکچر دے کر چلے گئے، اب چھٹی کاوقت ہوچکاتھا، سارے بچے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔
نادر کہتاہے کہ ہم تینوں مشورہ کر رہے تھے کہ کل کس طرح جائیں گے؟گھر والوں سے کیسے چھٹی لیں گے؟ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ یکا یک فرحان کے دماغ میں ایک خیال کوندا کہ :ماسٹر زید کو ہی بول دیتے ہیں اور اپنے اپنے پاپا کا نمبر دیتے ہیں کہ جب وہ فارغ ہوں گے تو فون کردیں گے،اور ہم کو چھٹی بھی مل جائے گی۔
ہاں یار ایسا ہی کرتے ہیں؛تینوں دوست ماسٹر زید کے پاس گئے،اوران سے درخواست کی کہ آپ کل ہمارے پاپاکو فون کردیجیے گا،ورنہ وہ ہمیں چھٹی نہیں دیں گے؛ماسٹر زید نے کہا:بیٹے تم بے فکر رہو ،میں فون کرکے ان کو راضی کرلوں گا ،تم برقت گھر آجانا؛ہم نے ماسٹر زید کاشکریہ اداکیا،اور ہم خوشی خوشی گھر کی طرف چل پڑے۔
جب نادر کے گھر والوں نے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے تووہ حیرت زدہ ہوگے؛آخر اتناخوش کیوں ہے؟گھر سے اُتراہواچہرہ لے کر گیاتھا،لگتاہے ماسٹر زید کی نصیحت کام آئی ،والدین بہت خوش تھے؛ماسٹر زید کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیا؛اور اب روزمرہ کی طرح زندگی گزارنے لگے؛اِدھر جیسے جیسے وقت قریب ہورہاتھادل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی،دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے،اور ایک ایک منٹ ایک سال کی طرح گزر رہاتھا،ایسا لگ رہا تھا کہ وقت تھم گیاہے،چاند رُک گیا ہے،تاریکی بالکل چھٹنے کانام ہی نہیں لے رہی ہے،رات بھی باربار اُٹھ کر وقت دیکھتا رہا ،پھر سوجاتا کہ اب صبح ہوگی ،اب صبح ہوگی،غرض پوری رات اضطراب وبے چینی کی کیفیت رہی ؛حتی کہ صبح نمو دار ہوئی ،اب کچھ آرام سا محسوس ہوا؛ایک طویل مدت کے بعد آخروہ دن آہی گیا،جسکااسے شدت سے انتظار تھا،اورجس پر اس کے مستقبل کی بنیاد ٹکی ہوئی تھی،اس کی اُمیدیں اس سے وابستہ تھیں۔
چنانچہ غسل کرکے نئے کپڑے پہن کر تیارہوا،اور اب ماسٹر زید کے فون کا انتظار کرنے لگا؛ اس نے سہیل کو فون کیا،علیک سلیک کے بعد خیریت معلوم کی ،اور اسکول سے واپسی کے بعد گھر پر پیش آیاہواواقعہ سنایا،وہ بہت خوش ہوا،اور اس نے بھی اپنا واقعہ سنایا۔
سہیل کہنے لگا:جب میں گھر پہنچا تو میرے بھائی بہن میرے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ کر بہت مستی کرنے لگے،والدین کو بھی بتایا،والدہ نے کہا چلو اسکی خوشی میں اسکا مَن پسند کھانا بناتی ہوں،پھر ہم سب نے ایک ساتھ مل کر خوب لذت لے کر کھایا،پیا،اور پھر ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے؛حتی کہ رات ہوگئی ،سب اپنے اپنے بستروں پر چلے گئے ،میں بھی اپنے کمرے میں چلاگیا؛لیکن پوری رات میں بھی کروٹ بدلتا رہا،نیند ہی نہیں آرہی تھی ،ایک طرف خوشی تھی کہ آج ہم سب نے ایک ساتھ مل کر کھایا،بات چیت کی ،مستی ہوئی،دوسری طرف ماسٹر زید کے پاس جانے کی خوشی تھی ،شدت سے انتظار تھا،صبح ہوتے ہی میں اُٹھ گیا،میں نے غسل کیا،کپڑے بدلے،گھر پر مجھے صبح سویرے بیدار دیکھ کر سب حیران رہ گئے؛کہ آخر اتنا جلدی بلا اُٹھائے کیسے اُٹھ گیا،آج تو اسکول کی بھی چھٹی ہے،اتوار کے دن تو یہ دس بجے تک سوتاتھا،آج کس خوشی میں یہ اتنا جلدی اُٹھ گیاہے؟لگتاہے کہیں جانے کامنصوبہ ہے؛بس ابھی ناشتہ کرکے بیٹھا ہوں اور میں بھی ماسٹر زید کے فون کا انتظار کر رہاہوں۔
فرحان بھی لائن پر ہی تھا،نادر نے فرحان سے پوچھا،اپنا بتا،یار!میراکیاہوگا؟خوشی خوشی گھر گیاتھا،لیکن نہ ہی کسی کو اس کا کچھ احساس ہوا،اور نہ ہی کسی نے کچھ پوچھا،بس میں اپنے آپ میں ہی مست ہوں،پاپا دیر سے گھر آتے ہیں،اور سویرے چلے جاتے ہیں،امی گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہے،شام کو تھک جاتی ہے،میں اپنے بیڈ روم میں چلا گیا،بس میرادل اس طرف ہی اٹکاہواتھاکہ کل کیاہوگا؟کیاماسٹر زید کچھ حل نکال پائیں گے ؟پھر بھی مجھے کچھ مایوسی تھی،کچھ امید بھی تھی،اسی فکر میں میں نے پوری رات گزاردی ،صبح اُٹھ کر میں نے غسل کیا،کپڑے بدل کر اپنے بیڈ روم میں ہی بیٹھاناشتہ کاانتظار کر رہاتھا،میری والدہ مجھے دیکھ کر تھوڑی حیران سی ہوئی ،اور کہا بیٹے ابھی تو سات ہی بجے ہیں ،سوجاؤ،میں نے کہا نہیں امی مجھے نیند نہیں آرہی ہے،امی نے کہا ناشتہ بناکر لاتی ہوں،ناشتہ کرلو،ابھی میں ناشتہ کرکے اُٹھاہی تھاکہ سہیل نے مجھے بھی تمھارے فون آنے کے بعد ساتھ میں جوائن کرلیا،اب میں بھی پاپاکے فون کا انتظار کر رہاہوں کہ کب ماسٹر زید کے فون کرنے بعد پاپا امی کو فون کرکے بولیں گے اور میں تم لوگوں کے ساتھ ماسٹر صاحب کے پاس جاپاؤں گا۔
چل فون رکھتے ہیں؛جس کے پاس پہلے فون آئے وہ سب کو فون کرکے بتادے؛تاکہ ہم تیار رہیں،اور بروقت پہنچ سکیں؛سہیل نے کہا :ٹھیک ہے؛صبح کے ساڑھے سات بج چکے تھے،ہر کوئی تیار بیٹھا تھاکہ اب جائیں گے ، تب جائیں گے؛اِسوقت انتظار رات کے مقابلے میں کہیں زیادہ دشوار ہورہاتھا؛لیکن ہم صبر کا دامن تھامے،اپنے دل کو تسلی دے رہے تھے؛کہ اب فون آجائے گا۔
ایک گھنٹے بعد تقریبا ساڑھے آٹھ بجے نادر کہتاہے کہ:میرے والد صاحب کے فون کی گھنٹی بجی،میں نے سوچا کہ ماسٹر زید صاحب ہونگے؛لیکن جب والد صاحب نے فون اُٹھایا اور بات کی تو پتہ چلاکہ وہ تو انکا بہت پُرانادوست ہے،ابھی انکا فون کٹا نہیں تھاکہ ماموجان کا فون آگیا،پھر مجھے مایوسی ہوئی ،ہر آنے والے فون کو میں ماسٹر زید کافون سمجھ کر غور سے سنتا ؛لیکن ہر مرتبہ میں مایوس ہوکر لوٹتا؛ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد میں نااُمید ہوگیا،اور میں نے سوچ لیاتھاکہ شاید ماسٹر زید بھول گئے،اسلیے وہ فون نہیں کر رہے ہیں؛ابھی یہ خیال ذہن میں آ یا ہی تھاکہ اچانک فون کی گھنٹی بجی،اور والد صاحب نے بات کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ بیٹے تم تیار ہوجاؤ، ماسٹر زید تمھیں اپنے گھر بُلا رہے ہیں؛میں بہت خوش ہوا،میں نے اللہ کا شکر ادا کیا،اور تیار ہونے کے بعددوستوں کو فون کیا،وہ بھی تیار ہوچکے تھے،انکے گھر بھی فون آچکاتھا،سہیل نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والاتھاکہ تمھارا فون آگیا،چلو بس اڈے پر ملتے ہیں؛میں نے دوستوں کو الوداع کہا۔
گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر بس اڈہ تھا،میں آٹو رکشہ سے وہاں کے لیے نکل پڑا؛بس اڈہ پہنچ کر میں نے سہیل کو فون کیا،وہ بس اڈہ پر میرا انتظار کر رہاتھا،میں نے پوچھا کونسی جگہ پر ہو؟اسنے کہا میں پلیٹ فارم نمبر ٣ پر ہوں،کاؤنٹر کے پاس ،میں وہاں پہنچا،فرحان بھی اس کے ساتھ تھا،اب ہم ٤٠٥ نمبر بس کا انتظار کرنے لگے جو ماسٹر زید کے گھر کی طرف جاتی تھی؛کیونکہ ماسٹر زید کا گھر وہاں سے آدھا گھنٹہ کی دوری پر تھا،ابھی ہم بات چیت کر ہی رہے تھے کہ ٤٠٥ نمبر کی بس آگئی اور ہم اس پر بیٹھ گئے ؛نادر کہنے لگا:میں ٹکٹ لے لوں گا،تم لوگ مت لینا،سہیل نے کہا:نہیں یار!مجھے ٹکٹ لینے دے،واپسی میں تو لے لینا؛اور آٹو سے ساتھ میں جائیں گے ،اس کا خرچ فرحان دیدے گا؛سب اس پر متفق ہوگئے؛ٹکٹ والا آیا،سہیل نے ٹکٹ لے لیا؛اب ہم آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ یار بات کیسے شروع کریںگے؟کون پہلے بات کرے گا؟سب نے نادر کا نام پیش کیا،سہیل نے کہا یار! توہی شروع کر ،تیری کہانی بہت مؤثر ثابت ہوگی،ماسٹر زید ضرور کچھ نہ کچھ حل نکالنے پر مجبور ہوں گے،نادر بہت زیادہ اصرار کے بعد تیار ہوگیا؛مستی مذاق اور بات چیت کرتے کرتے وقت کا پتہ بھی نہیں چلا اور ہم ماسٹر زید کے گھر پہنچ گئے۔
بس سے اتر کر نادر نے ماسٹر زید کے گھر پر دستک دی،اتفاق سے دروازہ کھولنے والے ماسٹر زید ہی تھے،بڑے پُر جوش انداز میں خوش آمدید کہا،اور اپنے کمرے میں جاکر ہم سب کو بٹھایا؛ماسٹر زید بڑے اچھے اخلاق اور عمدہ صفات کے حامل تھے؛اورہنس مکھ تھے،بچوں پر شفقت بھی کرتے،انکے پڑھانے کاانداز بھی بڑا ہی زبردست تھا،اسکول کے تمام بچوں میں اُنکا سبق مقبول تھا،اور انداز تدریس بھی انوکھاتھا؛جسکی وجہ سے ہمیشہ انکے آ س پاس طلبہ کی بھیڑ رہتی تھی،وہ بھی ہر ایک سے بے تکلف دوستانہ انداز میں بات چیت کرتے تھے،جب گھر گیا انکے استقبال کے طریقے اور مشفقانہ انداز کو دیکھاتو میں انکا اور زیادہ معتقد ہوگیا؛ماسٹر زید نے ناشتہ لگایا،کہا : تم تھک گئے ہوں گے،آؤ! ناشتہ کرلیتے ہیں ،پھر بیٹھ کر بات چیت کریں گے؛ناشتے میں مختلف قسم کے پھل،میوہ جات،اور بھونے ہوئے گوشت،اور لذیذ مشروبات بھی تھے؛ہم نے جی بھر کے کھایا،پھر خالص دودھ کی چائی لائی گئی ،ہم وہ پی کر ایک ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے؛اب ماسٹر زیدنے کہا:اب بتاؤ بیٹے تم کیوں پریشان ہو؟کیابات ہے جو تم مجھے گھر آکر بتانے کا کہہ رہے تھے؟
نادر نے اپنا پوراقصہ سنایا؛سہیل اور فرحان نے بھی اپنی آپ بیتی سنائی؛ماسٹر زید نے سب کی باتوں کو غور سے سنا، پھر کہا :بس اتنی سی بات ہے؟ ہاں سر! کوئی بات نہیں ایک دن میں حل ہوجائے گا، تم لوگ بالکل بے فکر رہو، میں اسکو ایک دن میں حل کردوں گا؛بیٹے تم سب کی سوچ بہت اچھی ہے؛ ان شاء اللہ تم تینوں اپنے اپنے وقت پر بڑا کارنامہ انجام دوگے؛ کل میں تمھارے والدین کودعوت دیتاہوں؛اسی بہانے میں باتوں باتوں میں ان سے پوری بات کہہ دوں گا؛ ایسا لگ رہاتھا گویا ماسٹر زید کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہو،ماسٹر زید کی بات سن کر ہماری جان میں جان آئی ؛ہمارے چہرے کِھلکِھلا اُٹھے ؛ گویا ہم نے کوئ بڑی نعمت حاصل کرلی ہے؛ خیالات کی دنیا کی ہم سیر کرنے لگے، اپنے مستقبل کا سوچنے لگے کہ اب ہمیں کوئی کمی نہیں ہوگی، اپنائیت، چین وسکون، اور دلی خوشی بھی ملے گی؛ ابھی ہم بات چیت کرہی رہے تھے کہ اچانک ملک میں کسی وباء کی وجہ سے لوک ڈاؤن ہوگیا، اب ہمارے لیے گھر جانا بھی دشوار ہوگیا؛ہم وقتی طور پر بہت پریشان ہوئے؛لیکن گھر والوں کاباربار فون آرہاتھا،وہ مُصر تھے کہ کسی طرح آج رات ہم واپس گھر چلے جائیں؛لیکن سواریاں سب بند تھی،چاروں طرف پولیس کاپہرہ تھا،کسی بھی صورت میں ہمارے لیے گھر پہنچنا دشوارتھا،اِدھر ہم سب کے گھر سے فون پر فون آتے جارہے تھے؛ہم مطمئن تھے کہ گھر والے کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالیں گے۔
بالآخرماسٹر زید نے اس موقع کو غنیمت جانااور اسکا فائدہ اُٹھانے کے لیے ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے یہاں کے سرکاری کارندے سے اجازت لیکر اپنی گاڑی لے آئیے ؛ہمارے یہاں آئندہ کل دوپہر کی دعوت رہے گی شام تک واپس ہوجائیے گا؛ ماسڑزید کی بات ہمارے والدین کے دماغ میں اُتر گئی، اور وہ راضی ہوگئے؛ اِدھر ماسٹر زید نے بڑی دعوت کی تیاری شروع کردی ، ہم نے دوپہر کا کھاناکھایا،وہ بھی مختلف انواع واقسام کے کھانوں پر مشتمل تھا، ہم کھاپی کر سیراب ہوگئے۔
ماسٹر زید نے کہا :ارے واہ!! کیابات ہے دیکھو ! اللہ تعالی کی طرف سے کس طرح نظام بنا، تمھارا کام اب کل پورا ہوجائے گا؛ ابھی تو ہم نے سوچاہی تھا ، کہ اللہ تبار ک وتعالی نے انتظام بھی کردیا؛بیٹے ! جب بھی ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں ، اس میں اللہ کی مدد ضرور ہوتی ہے۔
ادھر ہمارے والدین تیار ہوچکے تھے،رات و رات انھوں نے سرکاری کارندے سے لکھواکر اجازت نامہ لے لیا؛صبح سویرے ہی وہ ماسٹر زید کے گھر کے لیے نکل پڑے،ہمیں شدت سے اب انکا انتظار تھا،ہر آنے جانے والی گاڑی کو ہم چھت سے تکتے رہتے کہ کہیں یہ ہمارے والدین کی گاڑی تو نہیں؛بالآخر سفید رنگ کی چمچماتی ہوئی گاڑی ماسٹر زید کے گھر کی طرف آرہی تھی،جسے نادر نے دیکھ کر فورًا پہچان لیا،یہ تو میرے پاپا کی گاڑی ہے،ہم دوڑ کر ماسٹر زید کے پاس گئے ،انھوں نے ناشتہ تیار رکھاتھا،ادھر استقبال کے لیے ہم گیٹ پر گئے،دروازہ کھولا،ماسٹر زید سے علیک سلیک کے بعد ہم نے ناشتہ کے لیے کہا ،ناشتے کے لیے ہم سب ساتھ بیٹھ گئے؛اب راستہ کے احوال وغیرہ پوچھنے کے بعد باتوں ہی باتوں میں نادر کے والد کہنے لگے،کیا بات ہے؟نادر آپ کے یہاں توگھر سے بھی زیادہ خوش لگ رہاہے؛پتہ نہیں گھر پر کچھ بدلا بدلا سا رہتاہے؛ایسی کونسی چیز ہے جو ماسٹر زیدکے پاس مل رہی ہے اور ہم نہیں دے پارہے ہیں ؟ماسٹر زید کو تو اچھا موقعہ مل گیا،تیر خود بخود نشانہ پر لگ چکا تھا،بات کارُخ بھی اصل مقصد کی طرف آ گیاتھا، بس اب زبان کھولنے کی دیر تھی، ماسٹر زید نے کہا: محترم یہی بتانے کے لیے آپ کو یہاں بلایاتھا؛وہ کہنے لگے مطلب میں سمجھ نہیں پارہاہوں ؛کیا بات ہے؟ تھوڑی وضاحت کیجیے ماسٹر صاحب ! پہلے ناشتہ کرلیتے ہیں پھر آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے؛جی ٹھیک ہے،چائے ، ناشتے کے بعد ہم سب ایک ساتھ بیٹھ گئے؛ نادر کے والد ماسٹر زید کے ساتھ بیٹھے تھے، ماسٹر زید انکو دوسرے کمرے میں لیکر گئے،اوراُنھیں پوری صورتحال سے آگاہ کیا؛نادر کے پاپارونے لگے اور کہنے لگے یہ بات صحیح ہے؛دراصل جب میرا کاروبار چھوٹاتھا تو مہینہ پورا ہونے سے قبل ہی میں مقروض ہوجاتاتھا؛اسلئے میں نے رات دن محنت کرکے اپنا کاروبار بڑاکیا،اب میں اتنا مصروف ہوگیا کہ میرے پاس ان لوگوں کے لیے بھی وقت نہیں بچا جن کے لیے رات دن محنت کررہاہوں ؛میرے پاس ہر طرح کی مال ودولت ہے ؛لیکن سکون واطمینان نہیں ،ہمیشہ ذہنی تناؤ میں ہی وقت گزرتاہے؛حتی کہ بیوی کو بھی وقت نہیں دے پارہاہوں،میرے بوڑھے ماں باپ ہیں ،جو بس خاموش مجسمے کی طرح بیٹھے دیکھتے رہتے ہیں؛بیمار ہوتے ہیں تو میں ڈرائیور کو بول دیتاہوں وہ دواخانہ لے جاتے ہیں ،کبھی کبھی مجھے خود یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں اتنا پیسہ کماتاہوں ؛لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ،سکون نام کی چیز میری زندگی میں ہے ہی نہیں؛یہ کہہ کر رونے لگے ؛ماسٹر زید نے انکو تسلی دی ،کہا آپکا بیٹا بہت حساس اور ہوشیار ہے،جسکی وجہ سے آج آپ سکون محسوس کریں گے؛ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا ؛ نادر کے پاپا نے کہا ضرور بتائیے ماسٹر صاحب میں کئی سالوں سے پریشان ہوں ؛میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا ؛ماسٹر زید نے کہا بس یہی چیزہے جسکی وجہ سے آج آپکا بیٹا اور اسکے دوست میرے پاس آئے ہیں؛اچھا !اسکے بعد ماسٹر زید نادر کے پاپا کو لیکر مہمان خانے میں آگئے ،جہاں ہم تینوں دوست اور سب لوگ بیٹھے تھے؛اب ماسٹر زید نے سب کو مخاطب کرکے ایک مختصر سی نصیحت کی جو نہایت ہی جامع تھی ،اور دل کو چھولینے والی تھی ،جسے سن کر ہرکوئی روپڑا،ہر کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا،سب اپنی غلطیوں پر نادم وشرمندہ تھے۔
”انھوں نے کہا: دوستوں !آج کل ہر کس وناکس کی زبان پر یہی لفظ گردش کر رہاہے؛یار!میں بہت مصروف ہوں،میرے پاس وقت نہیں ہے،اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے کام میں مصروف ہے،خواہ وہ صحیح ہویاغلط،اچھاہو یابرا؛کیونکہ ہر ایک نے اپنے کچھ کام خاص کیے ہیں،جن کو کسی بھی حال میں وہ پوراکرتاہے؛لیکن افسوس ہے کہ اس جملے نے اب تک نہ جانے کتنے رشتوں میں دراڑپیداکردیا،میاں کو بیوی سے اور بچوں کو والدین سے جدا کردیا،اچھے اچھے تعلقات اس جملے کی وجہ سے سیکنڈوں میں ٹوٹ جاتے ہیں؛آخر اس جملے میں ا یساکیارکھاہے؟دراصل یہ جملہ لوگوں کی سمجھ کی مطابق انکی بے عزتی،اورانکو”تین میں نہ تیرہ” میں سمجھنے کے مترادف ہے؛کیونکہ جوچیز اہم ہوتی ہے لوگ اسکے لیے ضروروقت نکالتے ہیں،الایہ کہ بہت زیادہ مشغول آدمی ہوتووہ بسااوقات اہم چیزوں کوبھی مؤخر کردیتاہے،اورجووقت کاتقاضاہواسکومقدم رکھتاہے۔
عزیز ساتھیوں!اپنوں کے ساتھ بھی تھوڑا وقت گزارا کیجیے؛اس سے محبت بڑھتی ہے،ہر ایک کو انکے صحیح حقوق ملتے ہیں؛ماں باپ نے آپ کو کتنے عرصے تک اپنے پاس رکھا،پرورش کی ،آپکے لیے تمام خوشیاں قربان کی،ہر طرح کی طعن وتشنیع برداشت کی،مصائب و مشکلات سے نبرد آزماہوئے؛ لیکن آپکی کسی بھی جائز خواہش کو پوری کرنے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی،دن رات آپکے لیے محنتیں کرتے رہیں؛اور آج آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ خود کماسکیں،بڑا کاروبار کرسکیں؛سوچیے اگر ان تمام قربانیوں کو آپ نظر انداز کردیں ،اور تھوڑاسا وقت بھی اپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے نہ نکال سکیں؛ان سے خبر خیریت معلوم کرکے ان کی کچھ باتیں نہ سن سکیں،توآخر دنیابھر کی دولت کس کام کی؟آپکی پوری زندگی پر انکا احسان ہے،آپ انکی قدر کیجیے ؛ ماں باپ ایسی دولت ہے جو پوری دنیا کی تمام نعمتوں کو فروخت کرکے بھی حاصل نہیں کی جاسکتی؛آپ کی بیوی نے بھی محض آپکے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی،تمام خوشیاں قربان کردی،گھر بار مال دو لت بھائی بہن ،اعزہ واقارب سب کو چھوڑ کرآپکے قدموں میں آگئی،اور آج آپ سے ان تمام چیزوں کے بدلے صرف اتنا چاہتی ہے کہ آپ اسکو اپنی محبوب رکھیں،محبت کریں،اپنائیت کو باقی رکھیں،کسی بھی وقت اسکو اکیلا پن کا احساس نہ ہونے دیں؛اسکے دُکھ درد میں شریک رہیں؛لیکن اگر آپ اسکو ہر طرح کی دولت دیدیں،بڑا بنگلہ،بڑی گاڑی،آسائش وآرام کی تمام سہولیات مہیاکردیں ،پھر بھی اپنائیت،محبت،اور کچھ وقت اسکے لیے خاص نہ کرنے پر وہ زندگی بھر چین وسکون اور اطمینان سے نہیں رہ سکتی۔
دوستوں! اپنوں اور غیروں میں یہی تو فرق ہواکرتاہے؛اپنے اچھی باتیں بتلاتے ہیں،بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں،غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں؛آج کل پیسہ مال ودولت تو ہر کوئی کماتاہے،ہر کوئی ایک دوسرے کو مال و دولت گاہے بگاہے دیتے رہتے ہیں؛وقت ہی وہ قیمتی دولت ہے جو مشغولیت کے باوجود اپنااپنوں کو دیتاہے،میٹھی باتیں کرتاہے،جو زخم کا مرہم دل کا سکون بنتی ہے؛وقت تو ایک ربر کی طرح ہے،جتناکھینچیں گے اتنا بڑھے گا،یوں ہی چھوڑدیں گے تو وہ سمٹتا چلا جائے گا؛ یہ بھی یاد رکھیے! یہ محاورہ بہت مشہور ہے اور حقیقت بھی ہے”جیسا بوؤگے ویسا کاٹوگے”آج آپ اپنے بچوں کے ساتھ جیسا سلوک کریں گے ،کل آپکے بچے بھی آپکے ساتھ ویساہی سلوک کریں گے۔”
وہاں پر موجود سبھی لوگوں پر اس تقریر کا ایسا اثر ہو اکہ سب کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے؛پانچ منٹ تک پوری مجلس پر سنّاٹا طاری ہوگیا؛انھیں دیکھ کر میری آنکھیں نہ تھم سکی ؛بالآ خر پانچ منٹ کے بعد میں نے سب کو تسلی دی ،فکر نہ کیجیے ،اب بھی وقت ہے ، جوہواسو ہوا،اللہ معاف کردے گا،؛اب اگلی زندگی خوشی خوشی اپنوں کی اپنائیت کے ساتھ چین سکون واطمینان اور خوش دلی سے گزارے؛والدین نے ماسٹر زید کا شکریہ اداکیا،اور اپنے بچوں کو گلے لگاکر چوما؛اور پھرکہا کہ آج تو آپ نے ہماری آنکھیں کھول دیں ،اب ہماری زندگی میں حقیقی سکون آجائے گا؛ ماسٹر صاحب آپکو ہم منہ مانگا انعام دیں گے؛بتائےے کیا چاہیے؟ ماسٹر زید ایک امانت دار،نیک،اور خوددار ماسٹر تھے ،انھوں نے بر جستہ کہا کہ مجھے ڈھیر ساری دعاء دیجیے؛ بس۔
ہمارے والدین ان سے بےحد متأثر ہوئے ،اور خوب دعائیں دی،اب کھانے کا وقت ہوچکا تھا،دستر خوان پر رنگ برنگ کے کھانے ایک منظم ترتیب سے سجے ہوئے تھے؛ہاتھ دھو کر ہم سب بیٹھ گئے،اس وقت جو خوشی ہم سب کو محسوس ہوئی ،وہ پچھلی تمام خوشیوں سے کہیں زیادہ تھی ؛کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر ہم بیٹھے ،اب والدین گھرواپس ہونے کی اجازت لینے لگے؛ماسٹر زید نے کہا اسوقت حالات بھی ٹھیک نہیں ہے،ورنہ ہم آپ کو دو تین دن مزید روک لیتے ،خیرسلامتی کے ساتھ جائیے،عافیت کے ساتھ رہیے ،سدا خوش رہیے؛نادر اور اسکے دوستوں نے ماسٹر زید کا شکریہ ادا کیا ؛اور کہا سر! آپ کی کوشش نے ہمیں ایک خوشگوار زندگی دی؛ پھر ہم خداحافظ کہہ کر رخصت ہوگئے۔
اب شام کے وقت ہم گھر پہنچے ،ہر گھر کا معاملہ بدل چکا تھا،ہر گھر خوشی اور محبت کا گہوارا بن چکاتھا،ہر طرف خوشی ہی خوشی تھی؛سب سے پہلے والدصاحب نے جاکر دادا،دادی سے معافی مانگی ،معاف کیجیے گا اب تک میں آپ کا خیال نہیں رکھ سکا، آپکے لیے وقت فارغ نہیں کر سکا،اب آئندہ ایسا نہیں ہوگا ،اُن سے کچھ میٹھی باتیں کی؛ مارے خوشی کے انکے توآنسو نکل پڑے ؛انھوں نے خوب دعائیں دی؛ وہ کہنے لگے بیٹے ! اب تو ہمیں لگ رہاہے کہ ہم نے دوبارہ جوانی پالی ہے؛ انھوں نے پاپا کو گلے لگایا،پاپا نے کہا یہ سب میرے بیٹے کی محنت سے ہوا،انھوں نے اسکو بھی گلے لگا یا،چوما،اور خوب دعائیں دی؛امی سے جاکر بھی پاپا نے معافی مانگی،اور کہا معاف کرنا میں تمھیں وقت نہیں دے سکا،اب آئندہ ایسا نہیں ہوگا؛ بیوی نے کہا کوئی بات نہیں؛آپ خوش رہیں بس میں بھی خوش ہوں؛اور پھر پورا واقعہ سنایا،ماں نے مجھے گلے لگایا ،خوب دعائیں دی؛اب ہم سب ساتھ میں بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔
نادر کہتا ہے کہ:صبح اٹھ کر میں نے سہیل اور فرحان سے انکے گھر والوں کی صورتحال معلوم کی تقریبًا ہر گھر کی ایک جیسی کہانی تھی ؛ہم سب نے اللہ کا شکر اداکیا؛ اور ماسٹر زید کو فون کرکے انکا بھی شکریہ ادا کیا۔
جیسے ہی لوک ڈاؤن ختم ہوا،ماسٹر زید اور انکے اہل خانہ کو والدین نے گھر بلایا،بڑے پیمانے پر دعوت رکھی ،جس میں تینوں دوست بھی شریک ہوئے؛ایک قیمتی گاڑی ماسٹر صاحب کو انعام میں دی گئی؛ اور تینوں دوستوں کو بھی نادر کے پاپا نے دس دس ہزار روپیے بطور انعام دیے ؛ اب سب ساتھ رہ کر خوشی خوشی زندگی گزارنے لگے؛ بوڑھے دادا،دادی نے ماسٹر زید اور میرے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا خوب دعائیں دی؛ اور ماسٹر زیدخوشی خوشی اپنے اہل خانہ کو لیکر رخصت ہوئے۔
اب معمول کے مطابق ہم اسکول جانے لگے؛اسکول میں ہماری خوب تعریف ہوئی؛ ہماری مثال دی جانے لگی۔
پرنسپل صاحب نے ہماری حوصلہ افزائی اور طلبہ کی ترغیب کے لیے ایک پروگرام طے کیا؛جس میں ہماری تعریف کرکے اس طرح کرنے کی ترغیب دی گئی؛اورہم تینوں دوستوں کو ،ساتھ ہی ماسٹر زید صاحب کو بھی قیمتی انعامات سے نوازاگیا۔
۔۔۔۔۔۔
اِس کہانی کو باربار پڑھیے؛اس سے سبق حاصل کیجیے؛یہ کہانی آپ کو بہت کچھ سکھائے گی ؛ہر مرتبہ پڑھنے کے بعد اپنے اندردیکھیے؛اپنی زند گی میں غور کیجیے؛آخر کس پہلو میں آپ سے غفلت اور کوتا ہی ہورہی ہے؟کیاآپ بھی اپنوں کی اپنائیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں؟گھر کے ہر فرد کو تھوڑا تھوڑاوقت دے رہے ہیں؛بچوں کی تربیت کے لیے،بیوی اوربوڑھے ماں باپ کی خبر گیری کے لیے آپ کے پاس وقت ہے؟کیا آپ گھر کے ہر فرد کو اپنائیت،سکون،اطمینان،اور دلی خوشی کا تحفہ دے پارہے ہیں؟

Comments are closed.