تسلیمہ نسرین کا نظریہء الحاد اور کورونا وائرس

یاور رحمٰن

بھدی سی ایک لا یعنی کتاب کی بدنام زمانہ مصنفہ تسلیمہ نسرین نے کورونا وائرس کی خوفناک وبا کے نتیجے میں عبادات سے متعلق صورت حال پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مسجدوں، مندروں، گردواروں اور گرجا گھروں میں انسانوں کا داخلہ رک جانے کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کا خدا پر ایمان ختم ہو چکا ہے۔ اور دنیا خدا کو چھوڑ کر اب سائنس سے امیدیں لگاۓ بیٹھی ہے۔ فتنے کی اس بیٹی نے ایک مضمون بھی لکھا ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ "مکہ سے ویٹیکن تک Covid-19 نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان پر مصیبت کی اس گھڑ ی میں خدا میدان چھوڑ دیتا ہے۔” (معاذا اللہ‎)

میرے ایک محترم رشتےدار قاضی محمد نجم الہدی صاحب (سمستی پور بہار) نے مجھ سے تسلیمہ کی اس تحریر کے جواب کی خواہش کی ہے۔ اب اس حکم سے فرار بھی ممکن نہیں تھا۔ دوسری بات ذہن میں یہ بھی تھی کہ اس قسم کے ہذیان کا ضروری نہیں کہ جواب دیا جاۓ۔ ایسے فاتر العقل لوگوں کو نظر انداز کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے مگر سوشل میڈیا کے جادوئی دور میں جواب ضروری ہو جاتا ہے کہ اس طرح کا وائرس تو وہاٹس اپپ اور فیس بک کے ذریعے نہ جانے کتنے ہزار ذہنوں کو اپنا شکار کر دے گا۔ اس لئے اس کا ‘ویکسین’ بھی وائرل ہونا ضروری ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔

لیکن مسلہ یہ بھی ہے کہ مجھ سا کم علم انسان بھلا کتنا کامیاب ویکسین بنا سکتا ہے؟ لہذا میں نے سوچا کہ مضمون میں اٹھاۓ گئے سوالوں کاایک ایک کر کے اجمالی جواب دینے کی کوشش کروں تاکہ کسی حد تک اس بد عقل اور فتنہ جو عورت کا زہر زائل ہو سکے۔ عرض کرتا چلوں کہ تسلیمہ کے الحاد کے رد میں یہاں قرآن کی درجنوں آیات نقل کی جا سکتی ہیں مگر چور کے آگے تالے کا ذکر کیا کرنا؟ خدا کے منکر کو خدا کی کتاب سے جواب دینا بے نتیجہ عمل ہے۔ ویسے بھی اس عورت کے چھوڑے ہوئے ‘وائرس’ میں بظاھر کوئی دم نظر نہیں آتا ۔ مگر کچھ ایسے نوجوان بھی مجھے ملے ہیں جو واقعی اسلام کے بارے میں بڑے خطرناک کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ تسلیمہ جیسے شکاریوں کا آسانی سے شکار بن سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جلتا ہوا موضوع ہے جسے حساس اہل علم و قلم کی سخت ضرورت ہے جو انہیں یہ سمجھا سکیں کہ کائنات اس وقت تسخیر و اکتشاف کی نت نئی راہوں پر دوڑ رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انفارمیشن کے سیل آب کو علم و شعور کا مضبوط ہمسفر بنا دیا ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ ایسے میں ایک زندہ اور متحرک خدا کے بارے میں کسی شک کی گنجائش بھی کہاں بچتی ہے ؟ وہ دن چلے گئے جب آنکھیں گاؤں کی سرحدوں تک پہنچتے پہنچتے جواب دے دیتی تھیں۔ اس وقت تو یہ کائنات بس اقبال کے اس شعر کی گویا visual explaination بنی ہوئی ہے۔

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُن فیکون’

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

"ہم اُنہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے۔ کیا تمہارے رَبّ کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ ہے؟” (سورہٴ فصلت 53)

کورونا وائرس کے خوفناک شور میں الحاد کی Brand ambassador بن کر اچانک نمودار ہونے والی تسلیمہ نے چارلس ڈارون کے اسی نظریہءارتقا کا سہارا لیا ہے جسے جدید سائنسی تحقیقات نے ڈارون کے پہلو میں برسوں پہلے دفن کر دیا ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ ڈارون نے خود کبھی یہ نہیں کہا کہ تخلیق کا جو نظریہ وہ پیش کر رہا ہے وہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اور نہ ہی ان سائنسدانوں نے اپنے اس قیاس کو حقیقت اور واقعہ قرار دیا ہے جو ڈارون کے نظریے کے قائل ہیں۔ ڈارون کا یہ نظریہ ارتقا "ہوگا” سے شروع ہوا تھا اور قیامت تک "ہوگا” ہی رہے گا کیونکہ تحقیق و تجسس کا انسانی سفر آج ڈارون کے دور کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے اور قرآن کا بتایا ہوا نقطۂ آغاز ( Beginning Point) بے شمار دماغوں کو روشن کر رہا ہے۔

گزشتہ دو عشروں کی ریسرچ نے پچھلے تمام مفروضات کی ہوا نکال دی ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں تمام ڈاروینی قیاسات کو ڈھاتے ہوئے جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا ہوا ایک منظم نظام تسلیم کر لیا ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ کسی بھی نوع (Specie) میں تبدیلیاں مخصوص جینیاتی حدود ( Genetic Boundries) سے باہر نہیں جاتیں۔ انسانی آنکھ سے لیکر پرندوں کے پروں تک کسی بھی جاندار کے جسم کا ہر حصہ اتنی sophisticated technology سے بنا ہوتا ہے کہ اس کا تقابل کسی بھی جدید مشینری سے کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کچھ محض اک اتفاق سے بغیر کسی منصوبے کے تحت غیر منظّم انداز میں وجود میں آ گیا۔ ان ہی تمام جدید تحقیقات کے نتیجے میں اب مغربی سائنسدانوں میں Intelligent Design کا نظریہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اور یہاں "لجا” کی یہ لیکھکا لکھ رہی ہے کہ "160 سال گزر جانے کے باوجود آج تک خدا کا وجود ثابت نہیں ہو سکا”۔

تسلیمہ اپنے الحاد کے پرچار کے لئے جس covid-19 کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو رتھ کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے، اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ تادم تحریر Covid-19 سے عالمی سطح پر مرنے والوں کی کل تعداد 83,148 ہے۔ جبکہ اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی آفیشل گنتی 1,446,557 بتائی جا رہی ہے۔ ان میں 281,396 ایسے خوش نصیبوں کا بھی ریکارڈ ملتا ہے جنہیں covid-19 کا علاج نکلنے سے پہلے ہی اللہ‎ نے صحتیاب کر دیا۔

تاریخ کے اوراق ہمیں 20 سے زائد ایسے خوفناک pandemics کے روح فرسا واقعات سناتے ہیں جنہوں نے کروڑوں انسانوں کو نگل لیا۔ مثال کے طور پر Black Death نام کے ایک تباہ کن وبائی مرض نے 14 ویں صدی کے وسط میں (1347ء – 1350ء) یورپ کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور یورپ کی دو تہائی آبادی کو لقمہ اجل بنا لیا۔ لگ بھگ اسی زمانے میں ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے متعدد علاقوں میں بھی متعدی امراض پھوٹے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یورپ میں پھیلنے والا سیاہ طاعون Black Death ہی اس کی وجہ بنا تھا جس نے مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین کو ملا کر تقریباً 7 کروڑ 50 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح 1614 میں ایک وبا اسی چین کے شمال میں پہنچی، جس نے تقریباً چالیس فیصد آبادی کو ہلاک کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبا نے وہ حال کر دیا کہ بھوک مٹانے کے لئے انسانوں نے وبا سے مرنے والے انسانوں کی لاشوں کو کھانا شروع کر دیا تھا۔

1957 تا 58 چین ہی سے ایک فلو اٹھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کا وائرس بطخوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اس وبا سے 20 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے، جن میں صرف امریکہ میں 70 ہزار ہلاکتیں شامل ہیں۔ایرانی طاعون سے 20 لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ،ویسے تو طاعون کی بیماری وقتاً فوفتاً سر اٹھاتی رہی ہے، لیکن 1772 میں ایران میں ایک ہیبت ناک وبا پھوٹ پڑی۔ اس زمانے میں اس موذی مرض کا کوئی علاج نہیں تھا جس کی وجہ سے اس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ کوکولزتلی سے 20 لاکھ سے 25 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں ۔
انتونین کی وبا سے 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک ہلاکتیں ہوئیں۔ اسی طرح جسٹینن طاعون سے ڈھائی کروڑ ہلاکتیں ہوئیں .541 تا 542 میں آنے والی یہ وبا طاعون کی پہلی بڑی مثال ہے۔ اس وبا نے دو سال کے اندر اندر بازنطینی سلطنت اور اس سے ملحقہ ساسانی سلطنتوں کو سیلاب کی طرح لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبا کا اثر اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایڈز/ایچ آئی وی سے اب تک تین کروڑ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ہسپانوی فلو سے دس کروڑ ہلاکتیں ہوئیں۔

وباؤں کی تاریخ پر اچٹتی سی نگاہ ڈالنے کا مقصد صرف اتنا بتانا ہے کہ ان تمام وباؤں میں حالات کی تمام تر سختی کے باوجود نہ انسانوں نے خدا سے ناطہ توڑا اور نہ خدا نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس نے دنیا صرف بنائی نہیں ہے بلکہ اسے چلا بھی رہا ہے۔ خلق بھی اسی کا ہے اور امر بھی اسی کا۔ دنیا کا سفر وہ جب تک چاہے گا جاری رکھےگا۔ جب چاہے گا ختم کر دے گا۔ انسانوں پر وہ اچھے دن بھی لاتا ہے اور برے دن بھی۔ اسے انسانوں کی ضرورت نہیں، بلکہ انسانوں کو اس کی ضرورت ہے۔ اور انسان اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا۔ تبھی تو وہ اسے پانے کے لئے گمراہ ہو کر در در بھٹکتا رہتا ہے۔ دنیا میں مذاہب کی بھرمار اور ‘religious supermacy’ کے تمام جھگڑے خدا کے مضبوط تصورات کی بین دلیل ہے۔ تسلیمہ بھلے اسے "مذہبی پاگل پن” کہتی رہے، لیکن یہ وہ ضرورت ہے جس کے بغیر انسان ادھورا اور ناقص ہے۔

اب تسلیمہ کی تشفی کے لئے مان لیجئے کہ اگر اس نئی وبا covid-19 سے پریشا ن ہوکر دنیا کے تمام مسلمان کورونا وائرس کے خوف سے اجتماعی طور پر خدا کے ہونے کا انکار کرتے ہوئے تمام اسلامی عبادات اور حرمین شریفین سمیت تمام اسلامی شعائر سے ہاتھ اٹھا لیتے اور دنیا کی دیگر قومیں بھی ایسا ہی کرتیں۔ خدا کے بارے میں گرجوں ، گردواروں اور مندروں سے بھی یہی آواز بلند ہو جاتی کہ ہم خدا سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ہم نے تسلیم کر لیا کہ خدا ہے ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو یہ ہمیں اس مصیبت سے نکالنے میں ایک پل کی بھی تاخیر نہیں کرتا! اگرعالم واقعہ میں ایسا کچھ ہے تو خدا پر سائنس کی برتری سمجھ میں آ جاتی۔

پھر یوں ہوتا کہ سائنس بھی Personal protection equipmentst) کٹ سے بے نیاز ہوکر چشم زدن میں اس وائرس کو شکشت دیکر ہزارہا انسانوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے سے بچا لیتی اور دنیا اسی طرح آرام سے چل رہی ہوتی جیسے وہ پہلے چل رہی تھی ، تب بھی تسلیمہ کی دہریت کی لاج رہ جاتی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ، بلکہ الٹا یہ ہوا کہ زمین کے خود ساختہ خداؤں کی پوری پول کھل کے رہ گئی ہے۔ پتا چلا کہ ایک وائرس نے سائنس کی تمام ترقیات کو بریک لگا کر بس حضرت انسان کو کسی طرح اپنی جان بچا لینے پر لگا دیا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ معیشت پستی میں گر رہی ہے، معاشرت جان کی پوٹلی اٹھاۓ بھاگ رہی ہے اور سیاست دم دباۓ ایوانوں میں چپ چاپ پڑی ہے۔

وہ لوگ جو اس زمینی کائنات کے خود ساختہ خدا بنے بیٹھے تھے اپنے ہی جیسے مضبوط انسانوں کی ایک چھینک اور کھانسی کے خوف سے اپنے بلوں میں سمٹ گئے۔ یہ کیسا وقت آگیا کہ ایک وائرس کے خوف سے دنیا ‘تیاگ’ کر گھروں میں قید ہو جانا ‘بزدلی’ کے بجاۓ عقل و حکمت سمجھا جانے لگا۔ عوامی مقبولیتوں کے پہاڑ بڑے بڑے آئیڈیل اور آئیکن اپنی ‘اوقعات’ میں آ گئے۔ زمین کا کلیجہ چیرتی جدید ریلیں تھم گئیں، سڑکوں پر دندناتی بسیں اور کاریں رک گئیں۔ اور فضاۓ بسیط میں چنگھاڑتے آہنی عقاب پست ہوکر منجمد ہو گئے۔ بڑے بڑے کارخانے ٹھپ پڑ گئے ، چمکتے دمکتے بازار ویران ہو گئے، روشنیوں سے نہاتے شا پنگ مالز تنہا رہ گئے، بازار عیش و طرب کے رنگین ٹھکانے بے نور ہو گئے، نائٹ کلبوں اور جوا خانوں کا بدمزہ شور ہوا ہو گیا، دنیا کے ہر حسن کو اپنی بہیمیت سے پراگندہ کرنے والے ہوس پرست اہل زر آج اپنے ٹھکانوں میں دبکے ہوئے ہر اس حسن کے ساۓ سے بھی گریزاں ہیں جسے چھو نے کے لئے وہ منہ مانگی قیمتیں لٹاتے تھے۔

دنیا کے سپر پاورز کی بری، بحری اور فضائی طاقتیں گم سم ہیں۔ سب ٹھاٹھ پڑا ہے اور لاد چلا ہے بنجارہ ۔ چھوٹے اور غریب ممالک پر اپنی چودھراہٹ تھوپنے والی نیو کلیر طاقتیں "صُمّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لا يَعْقِلُونَ” کا استعارہ بن گئی ہیں۔

تسلیمہ کی آنکھوں میں بے حیائی اور دہریت کا کاجل بھرا ہے ، اس لئے جب ارض و سماوات کا خدا آج سب سے زیادہ یاد کیا جا رہا ہے، اسے الٹا ہی نظر آرہا ہے۔ ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگنے والے وائرس کے خوف سے social distancing کے لئے مسجدوں ، مندروں اور معبدوں کا سناٹا تو اسے دکھائی دے گیا مگر دعا ے نجات کے لئے اللہ‎ ، گاڈ اور ایشور کی طرف اٹھی ہوئی کروڑوں بے چین اور مضطرب و لاچار نگاہیں اسے نظر نہیں آتیں!

"لجا” کی بے شرم مصنفہ کو تو اتنا بھی شعور نہیں کہ وہ عبادت گاہوں کے مقصد وجود کو سمجھ سکے! حالانکہ نہ عیسائیت یہ سمجھتی ہے کہ "گاڈ” چرچ میں بیٹھا ہے، نہ یہودی یہ مانتے ہیں کہ خدا انکے عبادت خانے (synagogue) میں مجسم براجمان ہے اور نہ ہندو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ "بھگوان” انکے مندروں میں مقید ہے۔ الگ الگ حوالوں سے یہ سب جس ایک آسمانی خدا کو مانتے ہیں، اسے اپنی اپنی مذہبی زبانوں میں پکار رہے ہیں۔ چرچ کے پادری بھی دعا بلب ہیں، مندروں کے مہنت بھی پرارتھناؤں میں غرق ہیں اور گردواروں میں بھی ‘نانک کے خدا’ کو پکارا جا رہا ہے۔ مگر بنگال کی اس بے ایمان ‘ڈائن’ کو اپنی دہریت کے اعلان کے لئے یہی وقت ایک بہترین موقع نظر آنے لگا! جب انسان اپنی پوری زندگی میں پہلی بار خدا کو پلٹ پلٹ کر مدد کے لئے دیکھ رہا ہے، ‘تسلیمہ’ پکارے جانے والی یہ عورت کفر و الحاد کی تاریخ رقم کر رہی ہے۔

اس وقت تو دنیا کی با لکل وہی کیفیت ہے جو فتح مکہ کے موقع پر ان منکرین اسلام کی ہوئی تھی جو فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے ایک کشتی پر منجھدار میں پھنس کر فطرتاً اسی ایک خدا کو بے ساختہ پکارنے لگے تھے جس کے دین کی طرف محمد الرسول اللہ‎ نے پکارا تھا اور وہ لڑ مر کر ہارنے کے بعد شہر بدر ہو رہے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں عکرمہ بن ابو جہل نے اس فطری حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو مکہ لوٹ کر رسول کے قدموں میں ڈال دیا تھا۔ یہ فطرت کی وہی پکار تھی جسے آج بھی دبایا تو جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے کچھ یوں بیان کیا ہے، "وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ۔” اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ‎ نے۔ کہو، الحمد لللہ ! مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (سورہٴ لقمان 25)

تسلیمہ کا جہل سمجھتا ہے کہ مسلمان خدا سے دور ہو گیا ہے، اس نے دیکھا کہاں ہے کہ محلے کی مسجدیں الحمد لللہ گھروں میں شفٹ ہو گئی ہیں۔ وہ گھر جو باجماعت نمازوں کے تصور سے بھی ناآشنا تھے، وہاں خاندان کا سربراہ امامت نماز کر رہا ہے۔ صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ‎ کا چلن پھر سے عام ہو رہا ہے۔ خدا کو راضی کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور دنیا کے مادی وسائل کی حقیقت ایک ساتھ سمجھ میں آجانے کے بعد روح مسلمانی گویا آج ‘غسل صحت’ کر رہی ہے۔ مگر تسلیمہ کی آنکھ کو یہ سہانا منظر کہاں سے دکھے گا جبکہ اس نے خود کو گمرہی کے بدبودار اندھیرے میں خود ہی گرا لیا ہے!

تسلیمہ اس سائنس کو خدا کے مقابلے کھڑا کرنے کی احمقانہ جسارت کر رہی ہے جو آج تک ایک کسان کی تھالی کا کھانا بھی produce نہیں کر پائی۔ ویسے بھی بیچاری تسلیمہ ٹیلیویژن،ریڈیو،ٹیلی فون، موبائل فون، ہوائی جہاز، نیوکلیر بم اور اس قسم کی دوسری ایجادات کو سائنس سمجھتی ہوگی۔ بیچاری کو اب اتنا شعور کہاں ہوگا کہ یہ سائنس نہیں ہیں،بلکہ سائنس کے حاصل شدہ نتائج ہیں۔ آزادی نسواں کی اس کم عقل لیکھک کو بھلا سائنس کی یہ تعریف کہاں معلوم ہوگی کہ سائنس محض ایک منظم طریقۂ کار کے تحت کسی بات کو جاننے یا اسکا علم حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے۔سائنس میں تجربے یا مشاہدے سے حاصل شدہ معلومات کو عقلی و منطقی دلائل سے پرکھا اور جمع کیا جاتا ہے۔سائنسی علم کی تردید یا تصدیق کیلئے تجربہ ہی واحد کسوٹی ہے۔ایک سائنسی تجربے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اصول و نتائج دونوں ہی بعد میں دوسرے دہرا سکتے ہوں یا انکی تصدیق کرسکتے ہوں۔ یعنی کہ وہ قابل اعادہ (replicable) ہوں۔ اب دہریت کی اس نئی نویلی ‘منکوحہ’ نے علم، عالِم، معلوم، اور عالم کی تعریفات پڑھ لی ہوتیں تو رب العالمین کے مقابلے سائنس کو لانے کی حماقت انگیز جسارت کبھی نہ کرتی۔ پھر یہ بھی سمجھ میں آجاتا کہ سائنٹسٹس وہ عظیم لوگ ہیں جو خود کبھی خدا کے مقابلے میں نہیں آئے۔ بلکہ وہ ہر دور میں سائنس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور جب بھی انسانیت کو کسی ایجاد کی ضرورت پڑی، انہوں نے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی بہترین کوشش کی۔ لہذا آج بھی دنیا کے موجودہ سائنسدان اس نئے نویلے کورونا وائرس کے خلاف ایک عدد ویکسین نکال لینے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ خدا سے متصادم ہرگز نہیں ہیں بلکہ مخلوق خدا کے کام آ کر اپنی عظمتوں کا ثبوت دے رہے ہیں، سواۓ ان شریر نفوس کے جو سیاسی طاقتوں کا آلۂ کار بن گئے اور جن کی تجربہ گاہوں میں انسانوں کو چاٹ جانے والے ایسے مہلک جراثیم با الارداہ پیدا کیے جاتے ہیں جو بر و بحر میں فساد برپا کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس اس زہر بنگال پر جس نے مصیبت کی اس سخت گھڑی میں خدا کی طرف پلٹنے کے بجاۓ خداۓ الْحَیُّ الْقَیُّومُ کو معاذ اللہ‎ ‘فرار’ گھوشت کر کے سائنس کی برتری کا اعلان ٹویٹر پر فرما دیا۔

اب جبکہ دختر جہل تسلیمہ نے خدا پر سائنس کی "برتری” تسلیم کر ہی لی ہے تو اسے جو کام سب سے پہلے کرنا چاہیے وہ یہ کہ اپنی والدیت (Parents) کے خانے سے اپنے والدین کے نام ہٹا کر وہاں نیچر (Nature) لکھ دینا چاہیے۔ کیونکہ کائنات کی تخلیق کرنے والے خدا کے انکار کے بعد اپنے لئے کسی ایک باپ کے اثبات کی معقولیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک ایماندار کراۓ دار کی طرح وہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، خدا کا یہ مکان بھی خالی کر کے کسی اور دنیا میں بس سکتی ہے تو جا کے بس جاۓ ۔ یا پھر دنیا کی کسی سب سے بڑی اسٹیٹ آف دی آرٹ سائنسی لیب میں ہی جا کر پناہ لے لے اگر وہ واقعی خدا کے عمل دخل سے بچا ہوا ہو!!!

Comments are closed.