کورونا؛حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
آخر کار وہی ہو گیا جس کا خدشہ تھا ، کورونا کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ۔ اور حقیقتاً زیادہ تر رپورٹس میں بھی مسلمان ہی متاثر پائے جارہے ہیں ۔ اور میڈیا بھی بہت چالاکی سے کوئی نہ کوئی اشارہ ایسا کررہا ہے کہ لوگ سمجھ جائیں کہ پازیٹیو آنے والا مسلمان ہی ہے۔ حالانکہ حکومت کی پالسی یہ ہے کہ کسی پازیٹیو کا نام عام نہ کیا جائے ، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نظام الدین سے واپس آنے والوں کو تو پوری طرح کھلے عام ظاہر کیا جارہا ہے ، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اور باقی لوگوں کو انکے گھر کے پتے سفر کی ہسٹڑی کے ذریعہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کا تو اتنا میڈیا ٹرائیل ہو چکا کہ ملک کے دور دراز کونوں تک کے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ مرکز یعنی کیا ،نظام الدین میں کیا ہے تبلیغ یعنی کیا اور کس طرح مسلمان گاؤں گاؤں پھرتے اور مسجدوں میں رہتے ہیں۔ مودی جی نے تالی اور تھالی بجوا کر لوگوں کومذہب کی جو افیون پلائی تھی اور دیے جلوا کر جس کے نشے کو دو آتشہ کیا تھا ، اب مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے پازیٹیو ہونے سے وہ پوری طرح مسلم مخالفت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔محلوں گلیوں نکڑوںدکانوں پر ہماری بے احتیاطی کی تصاویر ، لاک ڈاؤن کے دوران مٹر گشتی اور پھر پولس کے ذریعہ ذلیل کئے جانے کے ویڈیوز ، اوراپنے اپنے گھروں میں بیٹھے لاک ڈاؤن انجوائے کرنے والے ہمارے پڑھے لکھوں کے ذریعہ سوشل میڈیا میں عام مسلمانوں میں بے احتیاطی کو بڑھا وا دینے والے پیغامات اور ویڈیوز نے پہلے ہی ہندو اکثریت کو ہم سے بد ظن کر رکھا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں کے شر پسندوں نے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کے پیغامات سوشل میڈیا میں شیئر کرنے شروع کردئے تھے اب مرکز اور تبلیغی جماعت کے میڈیا ٹرائیل کی وجہ سے ہندو اکثریت نے اشتعال انگیزوں کے ذریعہ پھیلائے گئے مسلم بائیکاٹ کے ان پیغامات کو عملی طور پر برتنا شروع کردیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں تک سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ ہندو لوگ مسلم تاجروں کو نظر انداز کر رہے ہیں کہیں کہیں تو داخلے پر ہی پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ اتراکھنڈ ،ہریانہ ،دہلی، پنجاب ، ہماچل پردیش اور کرناٹک میں مسلم تاجروں اور بیو پاریوں سے بد سلوکی اور مارپیٹ تک کی خبریں ہیں ، یہ خبریں ان معاملات کی ہیں جو رپورٹ ہوئے جو رپورٹ نہیں ہوئے وہ کتنے اور کہاں کہاں ہیں خدا جانے۔ حالانکہ یہ حکومت کی پالسی نہیں ہے ، لیکن حکومت نے مرکز مرکز تبلیغی تبلیغی کورونا جہاداور کورونا دہشت گردی کا شور مچاکر لوگوں کو مسلم مخالفت میں اس مقام تک پہنچانے والی میڈیا کو لگام کسنے کا کوئی اقدام ابھی تک نہیں کیا ۔ کیا اس کیا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہورہا ہے اور اس پر خاموش رہ کر حکومت دراصل اس کی پذیرائی کر رہی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی کہ ایک تو جس کے ذریعہ کورونا کا الزام مسلمانوں پر ڈال کر ہمیں ہندو اکثریت سے مزید الگ کردیا جائے ،اور سی اے اے این پی آر اور این آرسی کے ذریعہ مسلمانوں کے اس خطرے سے نمٹنے میں ہندو ؤں کو مزید ہموار کیا جائے اور جو ہندو اس کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑے تھے انہیں بھی ہم سے بدظن کردیا جائے ۔ اور دوسرے یہ کہ ملک کی سوجھ بوجھ رکھنے والی ہندو آبادی کو بھی کورونا کے خلاف ہماری اصل ’پتلی حالت‘ کے متعلق سوچنے اور سوال کرنے سے باز رکھا جاسکے اور سازشی اس میں پوری طرح کامیاب نظر آرہے ہیں ۔لیکن حکومت میڈیا اور مسلم مخالف عناصر کو کوسنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس میں ہماری ذمہ داری کتنی ہے؟آخر ہم نے کیوں بہت آسانی سے حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس مہاماری میں بھی ہمارے نام پر اپنا سیاسی کھیل کھیل جائے ؟ تبلیغی جماعت اور مرکز کے معاملہ میں تو ساری ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن جماعت کے ساتھیوں کے خود ہوکرچیک اپ اور ٹیسٹ کے لئے سامنے نہ آنے سے اورمرکز کے ذمہ داران کا خود کو کارروائی کے لئے پیش نہ کرنے سے ہندوؤں کی نظر میں یہ سارا معاملہ بالکل ویسا ہی ہوگیا ہے میڈیا جیسا دکھارہا اور ذہن نشین کروا نے کی کوشش کر رہا ہے اور حکومت جیسا چاہتی ہے ۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگرابتدا میں ہی پولس اور میڈیا کو جواب دے کر سارا معاملہ دیش کے سامنے رکھ دیا جاتا ، میڈیا کے ناجائز پروپگنڈے کی بخیہ ادھیڑ دی جاتی ،حکومت کی لاپروائی کا کچا چٹھا کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا جاتا اورمرکز و تبلیغی جماعت کے خلاف پروپگنڈا کرنے جھوٹی خبریں چلانے کے لئے میڈیا کو عدالت میں کھینچا جاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے ۔ خیر، ابھی ہم کمیونٹی اسپریڈ کے درجہ تک نہیں پہنچے ،یعنی ابھی وہی لوگ پازیٹیو ہورہے ہیں جو کسی باہری ملک یا باہری ملک سے آئے ہوئے لوگوں کے قریبی تعلقات اور ان کے کانٹیکٹ میں آئے ہیں ، یعنی ابھی اس قسم کے کانٹیکٹ کے بغیر لوگ پازیٹیو نہیں ہو رہے ہیں سمجھئے یا تو وبا زدہ ممالک سے یہاں آئے اور ان کے کانٹیکٹ میں آنے والے لوگ ہی پازیٹیو ہو رہے ہیں ، ہمارے خیال سے ان میں مسلمانوں کے زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرکز سے آنے والوں اور تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں ہی کے زیادہ ٹسٹ کئے جارہے ہیںاور اسی کا شور بھی ہورہا ہے ،جومسلمان مرکز کنیکشن کے بغیر پازیٹیو ہورہے ہیں ان کی ہسٹری کھنگالنے کی کوئی خبر نہیں آرہی ۔ خیر ہمارا کہنا یہ ہے کہ ابھی جب مسلمان ہی زیادہ پازیٹیو ہورہے ہیں تو ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارا سماجی و معاشی بائیکاٹ اور مارپیٹ شروع ہوگئی ہے ۔ خدا نہ خواستہ سوبار خدا نہ خواستہ اگر ملک میں کمیونٹی اسپریڈ شروع ہوگیا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی بڑی تعداد میں پازیٹیو ہونے لگے تو ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کا ٹھیکرا پوری طرح ہم مسلمانوں کے سر ہی پھوڑ دیا جائے گا اور پھر اس وقت جو حالات ہوں گے ہم اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں ۔ کیا ہم میںسے کسی کو یقین ہے کہ مودی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی؟نہیں صاحب کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا بلکہ تالی تھالی بجا کراور دیے جلا کر نوے فیصد اکثریت نے بتادیا ہے کہ وہ مودی جی کے ساتھ ہے اور اسی سپورٹ کے چلتے اگر مودی سرکار ، سرکاری طور پر نہیں تو اس کے مسلم دشمن اشتعال انگیز اور زبان دراز ممبران اور وزراء سوشل میڈیا کے پروپگنڈے اور ہمارے غیر سرکاری بائیکاٹ کو پارلمنٹ تک لے جا سکتے ہیں۔ جس طرح مرکز اور حضرت جی مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم پر کیس کیا گیاہے اسی طرح سبھی معاملات میں چن چن کر ایسا کیا جاسکتا ہے جب کیجریوال سرکار ایسا کرسکتی ہے تو مودی سرکار کیوں نہیں؟اوراگر ایسا ہواتو ہم خود ہماری بے احتیاط اور لاپرو ا روش کے ذریعہ اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ اگر اب بھی ہم اپنا رویہ نہیں بدلتے ،اس وبا کو ہلکے میں لینا نہیں چھوڑتے، احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ، لاک ڈاؤن کا پالن نہیں کرتے ، اپنے کو کیا ہوسکتا ہو بھئی ۔۔مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوتا، ہم موت سے نہیں ڈرتے جیسی جھوٹی باتیں نہیں چھوڑتے تو این پی آر ، این آر سی جیسے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے لئے بھی ہمیں تیاری کر رکھنی چاہئے ۔
Comments are closed.