Baseerat Online News Portal

دعوت و تبلیغ سے نظریات مضاعف (multiply) ہوکر بڑھتے اور پھیلتے ہیں۔ مفتی محمد اشرف قاسمی (مہدپور ضلع اجین ایم پی)

اسلام  مکمل نظام حیات کا نام ہے۔اور ایک نظریہ بھی ہے ۔جس میں حشر ونشر ، اعمال کے مطابق جزاوسزا کے ناقابل انکار تصورات کے ساتھ ہی  اخلاق،امن، انصاف، مساوات،  سب کے لئے مواقع، تقسیم دولت کا منصفانہ نظام، انسانی معاشرہ کی خیر و بھلائی کے لئے جملہ قوانین  مدون ومرتب شکل میں موجود ہیں۔

اسلام کو ماننے والے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اگر واقفیت ہیں تو مکمل اسلام کو پوری انسانی برادری تک پہونچائیں۔

اور اگرکسی کو دین اسلام کی پوری واقفیت نہیں ہے تو جتنی واقفیت ہے اتنی ہی دوسروں تک پہونچائے۔ وہ اگر دین کی صرف ایک بات جانتا ہے تو وہ ایک بات ہی پہو نچا نے کی اپنی ذمہ داری ادا کرے۔
گر مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داری ادا کریں تو اسلام کی شیوع کو کوئی روک نہیں سکتا ہے؛ کیوں کہ یہ ایک  صحیح، سچے اور قوی ترین نظریے کی اشاعت ہے۔ اور نظریہ کی اشاعت میں اصول یہ ہے کہ اگر اس کی دعوت وتبلیغ کی جائے تو وہ مضاعف (multiply)؛ بلکہ Geometric progression کی رفتار میں پھیلتا ہے۔لیکن افسوس کہ مسلمان کچھ صدیوں سے اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں مجرمانہ حدتک کوتاہی وغفلت میں مبتلا ہیں۔
آج دنیا میں اسلام کے مقابل دوسرے باطل نظریات کا بول بالا ہے۔ جسے دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ باطل نظریا ت کی اشاعت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ارباب حکومت کا تعاون شامل ہے۔ اس لئے باطل نظریات اتنی تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہے ہیں ۔اور چونکہ اسلام حکومتوں کی سر پرستی سے محروم ہے اس لئے سمٹ رہا ہے۔یاد رکھیں کہ یہ خیال غلط ہے۔
جب کسی نظریہ کو اس سے زیادہ طاقت ور نظریہ کے ذریعہ نہیں روکا جائے گا تو وہ نظریہ فطری طور پر مضاعف ہوکر پھیلے گا۔اسلام مخالف نظریات کی اشاعت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اشاعت میں لوگ لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں غفلت برتی جارہی ہے۔اسلام کی تبلیغ میں غفلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلاسفرس اس کی تصویب کرکے اپنی تحریروں اور بیانات سے اس کی تائید کرتے رہیں گے۔اور ایک نہ ایک دن دنیا اسلام کی قائل ہو جائے گی؛ لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو نظریات اسلام کو ختم کرنے کے لئے  اسلام کی مخالفت میں گڑھے گئے ہوں اس نظریہ کے فلاسفرس کیوں اسلام کی اصابت ومتانت کا اقرار کریں گے؟ اور کیوں ایسی غلطی کریں گے کہ ان کے اسلام مخالف نظریہ کو نقصان پہونچے۔؟
ہم بطور  مثال ذیل میں اسلام مخالف ایک نظریہ نابرابری کا پیش کر رہے ہیں۔ آپ غور کریں کہ وہ نظریہ کتنی تیزی سے پھیلا اور  دیکھتے ہی دیکھتے کیسے دشوار گزار مرحلوں کو طے کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں اس نے اپنی فتح کا پرچم لہرا دیا۔
پانچ چھ ہزار سال قبل ہمارے ملک میں انصاف ومساوات پر مبنی دراوڑوں کی پرامن حکومت تھی۔ رشیا کے علاقوں سے ایک قوم نے دراوڑوں پر حملہ کیا اور ان سب کو غلام بنالیا۔جانوروں سے بدتر زندگی جینے پر ان کو مجبور کیا۔ انہیں تعلیم، حکومت، باعزت زندگی گذارنے سے کلی طور پر محروم کردیا۔
ان کی عورتوں کو ویشیاکی حیثیت سے رکھا گیا اوران کی تو ہین وتذلیل کے لئےجگہ جگہ ان کے ننگے مجسموں کو نصب کیا۔
کچھ سالوں کے بعد اس ظلم کے خلاف ایک طاقت ور نظریہ لے کر مہاتما گوتم بدھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنے نظریہ کی اشاعت کے لئے سنسکرت کے بجائے عوامی زبان کو استعمال کرنے کی تاکید کی۔

اس نظریہ کو فروغ ملا اور mass moment کھڑا ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں پورے بھارت میں انصاف ومساوات پر مبنی حکومت قائم ہوئی؛ لیکن مہاتما گوتم بدھ کے بعد گھاس کھانے والےنابرابر ی پر مبنی اپنی عظمت رفتہ کی باز یافت کے لئے انتھک کوششوں کے بعد اپنے نظریہ چھواچھات کی اشاعت میں کامیاب ہوئے اور بدھوں کی عظیم حکومت کو یہی نہیں کہ بھارت سے اکھاڑ پھینکا؛ بلکہ تاریخ کے صفحات سے  بھی اس کے نشانات کو کھرچ ڈالا، ہزاروں سال کے بعد اب چھن چھن کر بدھوں کی تباہی کی کہانی سامنے آرہی ہے۔اس میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ اس موقع پر پورے بھارت میں بڑے بڑے تقریبا 85؍ ہزار بدھ آشرموں کو منہدم کردیا گیاہے۔اوربھارت سے بدھوں کا صفایا کردیا گیا۔
اور پھر دراوڑ دوبارہ ذلیل کرکے غلام بنا لیے گئے۔ یہ سلسلہ کچھ صدیوں تک چلتا رہا ۔پھر اس ظالمانہ نظریہ پر مبنی نظام کے خلاف مہاتما مہاویر جین انصاف و مساوات کانظریہ لے کر اٹھے ۔ظالموں کی نگری میں ان کے نظریہ کو فروغ ملا اور پھر بظاہر ناقابل تسخیر ظالم حکومت کا تختہ پلٹ ہوکر انصاف ومساوات پر مبنی حکومت قائم ہوئی؛ لیکن جنہوں نے بغیر محنت کے زندگی گذارنے کا تصور خاندانی ورثہ میں پایا تھا، ان عیش پرستوں کو اپنے آبا و اجداد کے مسند اور جاہ سے دوری کیسے گوارہ ہوسکتی تھی۔ اپنی مفت خوری کی مسند پر پھر قبضہ کرنے کے لئے انہوں نے توہمات پر مبنی نظریات کی تبلیغ شروع کردی۔ اور ان کے لغو نظریات اپنی سبک رفتاری سے آگے بڑتے گئے یہاں تک کہ وہ اپنے گمراہ کن نظریات کی بدولت مہاویر جین کی انصاف پر مبنی حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
مہاویر جین کے بعد بھی توہم ونابرابری پر مبنی نظریہ اور اس  نظریہ کی وساطت سے اقتدار حاصل کرنے والی جماعت کے خلاف بے شمار تحریکیں اٹھیں، کامیاب ہوئیں اور پھر ناکامی سے بھی دوچار ہوئیں۔
آخرکار مسلمان صوفیا، تُجّار اور کچھ حکمراں اسلامی نظریہ کے ساتھ بھارت میں پہونچے۔اسلامی نظریہ چوں کہ منطقی، حقیقی اور مکمل طور پر  فطرت کا ترجمان تھا؛ اس لئے اس نظریہ نے نابرابری پر مبنی نظریہ کے خلاف قائم تمام تحریکوں کو ایندھن فراہم کیا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ملک میں اسلامی یامسلم حکومت قائم ہوگئی؛ لیکن مسلمانوں کی طرف سے اسلام (نظریہ اسلام) کی اشاعت وتبلیغ کا باقاعدہ کوئ منظم منصوبہ نہیں تھا۔اس لئے ملک کے کچھ حصوں میں نابرابری اور توہم پرستی کا نظریہ کام کررتھا۔ اس کے خلاف حضرت گرونانک نے طاقت ور تحریک شروع کی اور کچھ علاقوں میں حضرت گرونانک کو کامیابی بھی ملی۔

(اختصار کے ساتھ کچھ تفصیل جاننے کے لئے ایم اے چودھری کی لکھی کتاب آتنک واد کی جڑ؛ منوواد! کا مطالعہ کافی مفید رہے گا۔ ٹیلی گرام اور نیٹ پر یہ کتاب دستیاب ہے۔)

دراوڑوں کوشکست دے کر نابرابری اور توہم پرستی کا نظریہ جس جماعت نے گھڑا تھا۔اسے یقین ہوگیا کہ تمام نظریات کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اسلام کا مقابلہ نا ممکن ہے؛ اس لئے اس جماعت نے 1893ء میں پونہ میں ایک میٹننگ بلا کر اپنے نظریہ کے ہمرشتہ ایک دوسرا نظریہ مسلم دشمنی کا گھڑا۔
اور اپنے اس نظریہ کہ اشاعت درواڑوں یعنی ہزاروں سال کی مظلوم اُن قوموں کے درمیاں کی؛ جن کو اس نظریہ ساز جماعت نے اپنا پشتینی غلام بنا کر مظالم کے لئے تختہ مشق بنایا ہوا تھا۔
اور ان کمزور ومظلوم طبقات میں ایسے وقت میں اپنے نظریہ  مسلم دشمنی کی اشاعت شروع کی؛ جب ان میں تعلیمی بیداری کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہورہا تھا کہ دراوڑوں کو غلام بناکر ذلیل واچھوت بنانے والے یہی لوگ ہیں۔اور غلامی سے آزادی اور عزت و مساوات اور مواقع مہیا کرنے میں مسلمان اسلامی تعلیمات کی وجہ سے ہمارے معاون ومددگار اور دست وبازو ہیں۔

اس کے باوجود جب ان کمزوروں میں مسلم دشمنی  کی آگ لگائی گئی تو چند ہی سالوں میں تقریبا تمام دراوڑ ( SC, ST, OBCs) مسلمانوں کے خلاف پیدل سپاہی بن کر کھڑے ہوگئے۔

اور اپنے پیروں میں پڑی غلامی کی زنجیر کاٹنے والے اپنے محسن مسلمانوں کی گردنیں کاٹ کر اپنی غلامی کی زنجیروں کو کسنے میں مصروف ہوگئے۔ع
اپنے ہی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا

اس گمراہ کن نظریہ کو عملی طور اپنے انجام کو پہونچانے کے لئے1921ء میں تنظیم بندی کر کے آئندہ سو سال کے بعد 2021ء کو بطور فائنل ڈیڈ لائن مقرر کیا۔
اپنے گمراہ کن نظریات کی اشاعت کے ذریعہ باہری حملہ آور نابرابری کے علم بردار جب کہ اپنے مقرر میعاد کو پہو نچنے ہی والے ہیں۔اسی اثنا کچھ لوگ نے دراوڑوں میں اسلامی مساوات، انصاف ،امن، اسلام کا تعارف،اور دراوڑوں کے اصل حریف کو مشخص (Diagnose) کر کے مسلم دشنمنی نظریہ کو مسترد (Counter) کرتے ہوئے یک طرفہ مسلم کشی کے لئے تیار کھڑے SC  ST OBCs کے جارحانہ اقدام و تیور کو بڑی حد تک روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہاں یہ بھی بتادوں کہ کیڈر بیس پر مبنی ظالموں کے منظم منصوبے کو روکنے میں بنیادی طور پر ایک ہی آدمی کی اکیڈمک کوششیں ہیں؛ اس آدمی کا نام ہے خلیل الرحمن سجاد نعمانی۔ بتانا یہ ہے کہ نظریہ ملٹی پلائی  ہوکر بڑھتا ہے ایک سے دو اور دو سے کروڑ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ سجاد نعمانی ایک نام اور پھر ان کے کام سے سمجھاجاسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں جب کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کا کمزور طبقہ فاقہ کشی کی موت مرنے کے لئے مجبور ہے، ہزاروں اور لاکھوں لوگ سیکڑوں کلو میٹر دور واقع  اپنے آبائی گھروں کے لئے پیدل نکل پڑے ہیں۔ جس میں ایک طرف حکام کے منصوبوں کی ناکامی طشت از بام ہورہی تھی۔ وہیں دوسری طرف مسلم دشمنی نظریہ کے تحت  مسلمانوں کی طرف منسوب کی گئی ساری اخلاقی برائیاں بھی دُھلی جارہی تھیں؛ کیوں کہ پورے ملک میں مسلمان کسی مذہبی تفریق کے بغیر مجبوروں، مسافروں اور بھوکوں وپیاسوں کے لئے کھانے پینے کا اتنظام کرنے میں مصروف تھے۔یہی نہیں بلکہ بعض مقامات پر مسلمانوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر غیر مسلموں کی میتوں کی تدفین بھی کی ہے، جن کے ویڈیوز نے اسلام اور مسلمانوں کی حسین، صاف، ستھری شبیہ پورے ملک کے سامنے پیش کردی ہے۔اس طرح مسلم مخالف نظریہ فیل ہونے لگا۔اور مسلمان نظریاتی تصادم میں فاتحانہ انداز میں آگے بڑھنے لگے۔
لیکن اسی درمیان مسلم مخالفت میں ایک دوسرا کھیل کھیلا گیا۔وہ تھا مرکز نظام الدین۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان حتی کہ دُعاۃ اور بہت سے علما بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکےکہ:
یہ کھیل ہماری اخلاقی فتح اور ارکان حکومت کی نااہلی کو چھپاکر اسلام کی اشاعت کا راستہ روکنے کے لئے کھیلا گیا ہے۔

اور شعوری غیر شعوری طور پر مسلمانوں کی اکثریت نظام الدین کے دفاع میں شوسل میڈیا پر پوسٹین سینڈ کرنے لگی۔
راقم الحروف نے اس موقع پر دینی جذبہ رکھنے والے تقریبا 30 لوگوں سے پوچھا کہ آج آپ نے نظام الدین سے متعلق کتنے گروپوں پر کتنی بار خبریں فاورڈ کی ہیں۔تو سب کا مشترکہ جواب تھا کہ انہوں نے چالیس ہچاس بار سینڈ کیا۔اور انگنت گروپوں پر سینڈ کیا ہے۔
پھر میں نے ہوچھا پیدل بھاگتی حاملہ خاتون اور بچے، راستوں پر بھوک سے پریشان مزدور، گھروں میں بھوک سے روتے بلکتے افراد اور ان کی مدد کر نے والوں کی کتنی خبریں اور وڈیوز آگے سینڈ کیں تو سب کا جواب تھا ایک بھی نہیں۔

نابرابری وناانصافی پر مبنی نظام ونظریہ کی حامل جماعت یہی چاہتی تھی کہ مسلمانوں کی یہ خدمات اور صاحبان اقتدارکی نااہلی سے پورے ملک کی توجہ ہٹ جائے۔
جب کوئی شخص جو نظام الدین کو براہ راست قانونی تعاون نہیں دے سکتا ہے اور وہ نظام الدین کے دفاع میں کوئی پوسٹ سینڈ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر ملک کے لاکھوں بھوکوں، مزدوروں، راستوں میں دم توڑتے حاجتمندوں پر نہیں ہے۔ اور وہ دوسروں کی نظروں کو بھی ان فاقہ کشوں سے پھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسی طرح اس کی نظر ان مسلمانوں پر نہیں ہے۔ اور وہ ان جاں باز مسلمانوں کی محنتوں وقربانیوں سے ملک وعالم کی توجہ ہٹانے میں مدد گار بنتا ہے۔جو اپنی جان ومال کی بازی لگا کر گھر گھر اور پر خطر راستوں پر کھانے پینے کے سامان لے کر جاتے آتے ہیں۔
اس موقع پر مسلمان جیتے ہوئے میدان کو صرف اس لئے ہار گئے کہ نظریات کی اشاعت میں حریف کے طریقہ کار اور منصوبے سے ناواقف ہونے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر حریف کے مدد گار بن گئے۔
ضرورت یہ تھی کہ ہم فاقہ کشوں، مزدوروں کی پریشانیوں کو برابر دکھاتے رہتے اور ان کا تعاون وخدمات کرنے والوں کو بھی ملک کے سامنے پیش کرتے رہتے۔اسلام بھوکوں، ننگوں،  پڑوسیوں،حاجتمند مسافروں، مزدوروں، بچوں، عورتوں کے لیے جو ہدایات دیتا ہے۔ انہیں کثرت سے ہمیں شوسل میڈیا پر پیش کر کے بے سہاروں کا سہارا بننا چاہیے اور غیر اعلانیہ طریقے سے ہی سہی نابرابری و ناانصافی کی حامل جماعت کے چہرے پر کالک پوتنے کی کوشش کرنے چاہیے۔

مسلمانو! سب سے زیادہ طاقتور اور منطقی نظریہ  اسلام ہے۔ اس کی اشاعت ہماری دینی ذمہ داری ہے۔اگر اس کی اشاعت اور اس کی دعوت وتبلیغ میں کوتاہی کی جائے گی تو جس طرح اس ملک  میں بے شمار نظریات کی حامل قوموں کو نظریہ نابرابری  نے تباہ کردیا۔ ہمیں بھی اس کی تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اور اگر ہم اپنے مذہب کی دعوت وتبلیغ کرتے رہیں گے تو کوئی طاقت ہمارے فتوحات کو نہیں روک سکتی ہے۔کیوں کہ دعوت وتبلیغ سے نظریات ایک ایک کرکے نہیں پھیلتے ہیں؛ بلکہ مضاعف multiply  ہو کر بلکہGeometric progression کی شکل میں تیزی سے پھلتے اور بڑھتے ہیں۔

دین کی اشاعت وتبلیغ میں ہمیں اپنے کو کمزور اور بے سہارا بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم اسلام کی دعوت وتبلیغ کریں گے تواللہ تعالی دوسری قوموں سے ہمارا مددگار کھڑا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ

کتبہ : محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہر مہدپور،ضلع اجین(ایم پی)

2020/04/11ء
[email protected]

Comments are closed.