مسلم میڈیا ہاؤس کا خواب

معصوم مرادآبادی
جب بھی میڈیا میں مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے کا مسئلہ اٹھتا ہے تو اس کی بحث مسلمانوں کے اپنے میڈیا ہاؤس کی شدید ضرورت کے مطالبے پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس بار بھی جب تبلیغی جماعت کی آڑ میں گودی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا اور حسب عادت انھیں بدی کا محور قرار دینے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں تو ایک بار پھر لوگوں کو مسلم میڈیا ہاؤس کے خواب پریشاں نے بے چین کردیا ہے اور لوگ اپنی فہم ودانش کے مطابق اس موضوع پر ماتھا پچی کر رہے ہیں ۔ میں کچھ کم چالیس برس کے عرصے سے اردو صحافت کا ایک حصہ ہوں اور اس معاملے میں میرے کچھ تلخ تجربات ہیں، جنہیں آ پ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مگر شروعات ایک قصے سے کروں گا جو لگ بھگ 36 برس پرانا ہے اور اس وقت کا ہے جب میں صحافت کی دنیا میں نیا نیا آ یاتھا۔
ہوا یوں کہ سفر پاکستان کے دوران ایک دن کراچی میں” جنگ” اخبار کی عالیشان بلڈنگ میں کچھ سینئر صحافیوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اور موضوع ہندوپاک کے اخبارات تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں اردو کے انتہائی دیدہ زیب ملٹی کلر اور مواد کے اعتبار سے بامعنی اخبارات نکل رہے تھے جبکہ ہندوستان میں بلیک اینڈ وائٹ اخباروں کا دور تھا۔ دوران گفتگو جناب اخلاق احمد (ایڈیٹر اخبار جہاں) نے مجھ سے ایک عجیب و غریب سوال پوچھا۔۔ ” کیا ہندوستان میں اردو اخبارات کے قارئین جنسی طور پر کمزور ہوتے ہیں؟”
میں اس غیر متوقع سوال کا سبب جاننے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ اخلاق احمد صاحب نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ” دراصل معاملہ یہ ہے کہ میں ہندوستان سے شائع ہونے والے مختلف زبانوں کے اخبارات دیکھتا ہوں مگر جنسی دواخانوں کے جتنے اشتہارات مجھے اردو اخباروں میں نظر آتے ہیں،اتنے دیگر زبانوں کے اخبارات میں نظر نہیں آ تے۔”
یہ وہ زمانہ تھا جب تقریباً ہر اردو اخبار میں خاندانی شفاخانہ، سبلوک کلینک اور ہیرو فارمیسی کے اشتہارات بکثرت نظر آتے تھے۔ میں نے اخلاق بھائی کو جواب دیا کہ ہندوستان میں اردو اخبارات کے قارئین جنسی طور پر کمزور نہیں ہوتے بلکہ اردو اخبارات معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور یہ اشتہارات قارئین کی کمزوری دور کرنے سے زیادہ اخبارات کی کمر سیدھی رکھنے کے کام آ تے ہیں، جو انھیں آ سانی سے دستیاب ہوجاتے ہیں جبکہ کمرشل اشتہارات تک ان کی رسائی نہیں ہے۔
اگر آ پ غور سے دیکھیں تو آ ج بھی صورت حال ویسی ہی ہے کیونکہ آ ج بھی اردو اخبارات میں سب سے زیادہ یونانی دواخانوں کے ہی اشتہارات نظر آتے ہیں۔ ہاں ان کے نام بدل گئے ہیں لیکن کام لگ بھگ وہی ہے۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے تجارتی ادارے کبھی اردو اخبارات کا رخ نہیں کرتے۔ کم ازکم شمالی ہندوستان کی حالت تو یہی ہے۔ البتہ جنوبی ہند کے اردو اخبارات اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اب آ ئیے موجودہ مباحثہ کی طرف جس کا روئے سخن مسلمانوں کا قومی سطح کا انگریزی اخبار اور نیوز چینل ہے
جولوگ جذبات میں مسلم میڈیا ہاؤس کا خواب دیکھتے ہیں انھیں اردو اخبارات کی زبوں حالی پر بھی نظر ڈالنی چاہیے اور ان ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جو ملت کے سرمایہ داروں کی لاپروائی اور عدم تعاون کا نتیجہ ہیں۔ میڈیا ہاؤس تو بہت بڑی چیز ہے جن لوگوں نے ماضی میں انگریزی اخبار وجرائد شائع کئے ہیں انہیں جن تلخ تجربات سے گذرنا پڑا ہے، ان پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔
اس سلسلے کی پہلی کوشش ایک ملی جماعت نے کی تھی اور اس کام کے لئے خطیر چندہ بھی جمع کیا گیا تھا۔ ان کوششوں کا اختتام ایک انگریزی ویکلی میگزین پر ہوا اور اس کی کمان سیدحامد جیسے لوگوں نے سنبھالی۔ لیکن یہ میگزین پائیدار ثابت نہیں ہو سکا۔ اسی دوران مرحوم سید شہاب الدین نے ” مسلم انڈیا” کے نام سے ایک انتہائی کار آ مد دستاویزی ماہنامہ جاری کیا اور اس کی خاصی پذیرائی بھی ہوئی لیکن وہ بھی بند ہی ہوگیا۔ اس سلسلے کی آ خری اور سب سے کارگر کوشش ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کی اور انھوں نے ” ملی گزٹ” کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار نکالا اور وہ کئی برس تک شائع ہوا لیکن وہ بھی اپنے قارئین کی بے حسی اور سرمایہ داروں کی عدم دلچسپی کی نذر ہوکر بند ہو گیا۔
جب اخبارات وجرائد کے ساتھ ہمارا یہ رویہ ہے تو نیوز چینل کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے جو سینکڑوں کروڑ کا پروجیکٹ ہے۔ جس قوم کے سرمایہ دار اپنے بچوں کے شادی پر ایک ہی دن میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کو "کارثواب” سمجھتے ہوں اور میڈیا کو” کار عبث ” تو ان سےکسی خیر کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔

Comments are closed.