کورونا کا رونا

 

دستگیر نوازؔ
حیدرآباد۔تلنگانہ
یوں تو 2014سے لیکر تادم تحریر ہمارے ملک کے حالات پرنظرڈالیے تویہ احساس ہوتا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بارہا اخبارات ‘ ٹی وی چینل اور آج کا بہت ہی کارکرد میڈیا یعنی سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہم وہ بھی دیکھ اور سن پاتے ہیں جسے حکومت اوران کے ہمنوا عوام سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ بہرحال ملک کے حالات کا خلاصہ یہ ایک شعر میں بخوبی نظرآتا ہے ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے
بہر حال یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور بھی گذرجائے گا ہاں یہ بات اور ہے کہ بہت ہی دشوار کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تادم تحریر دو ہفتے سے زیادہ وقت گذرچکا ہے اورجس مقصد کے تحت اس لاک ڈاون کوعمل میں لایاگیا ہے اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوپائے ہیں۔ اس بات کابخوبی نیشنل ٹی وی چینلس سے پتہ چلتا ہے ۔لاک ڈان کاایک ہفتہ توکورونا کے رونے میں گذرگیا پھراچانک میڈیا ایک بارپھر وہی اپنا پرانا راگ الاپنے لگا۔ یعنی ہندومسلم اور اپنی رویش پرقائم مخصوص چینلس کی پیش کردہ رپورٹس سے یہ محسوس ہونے لگا کہ کورونا چین کے ووہان سے نہیں بلکہ دہلی کے مرکز سے ہی شروع ہوا ہے۔ اس خبروں کے تسلسل نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اورایک بارپھر چند مٹھی بھرشرپسندوں اورفرقہ پرستوں کے حوصلے بلندہوتے نظرآئے۔ ساتھ ہی ساتھ جان کوڈرنے اورموت سے بھاگنے والوں کی کثیرتعداد سوشیل میڈیا پرمسلمانوں کے خلاف زہراگلتے ہوئے اپنی بزدلی کابھی ثبوت فراہم کرتی رہی۔ لاک ڈائون یعنی گھربندی ہوکہ نوٹ بندی کا بغیرکسی لائحہ عمل کے تحت عجلت میں ‘ دیکھادیکھی میں اپنے آپ کو ماہر جتانے کے لیے لیاگیا فیصلہ ‘ قلیل عرصہ کے گذرتے ہی ناکامی ‘ناسمجھی کی منہ بولتی تصویربن کرہرشہری کے سامنے منہ چھپاتے ہوئے نظرآیا۔ واقعتا ان اقدامات میں کوئی دانشمندی ہوتی توعوام یوں پریشان نہ ہوتی اورجوق درجوق سڑکوں پرنہیں نکل آتی۔ چاہے نوٹ بندی ہویا گھربندی ہودونوں بارعوام سڑکوں پرنکل پڑی۔ اس کے برعکس وقتاً فوقتاً ہمارے ملک کے اعلیٰ خدمت گذار کوباربار نت نئے نانی اماں کے ٹوٹکے وہ بھی ایسے ڈیجیٹل دورمیں قوم کے سامنے لیکرآنا نہ پڑتا۔ ہماری ناقص عقل کا تویہ تقاضہ ہے کہ کوئی بیماری آتی ہے تواس کا علاج کروایاجائے یعنی بیمار کو طبیب کے پاس جانا چاہیے یا پھر طبیب کوگھربلانا چاہئے۔ خیر یہ اکیسویں صدی کا نیا مرض یعنی وبا ء ہے اوراس کی معلومات جوہم اور آپ تک چینلس اور دوسرے ذرائع سے پہنچتی رہی وہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے جو سب سے بڑے حیرت انگیز انکشافات ہیں وہ ڈاکٹرس ‘ سائنسداں یا ا س مرض میں مبتلا فرد سے نہیں بلکہ ٹی وی اینکرس‘ سیاسی قائدین اور سرکاری وخانگی ملازمین چاہے وہ کسی ادنیٰ یا اعلیٰ عہدہ پرفائز ہو ‘ان سے میسر آرہی ہیں۔ جہاں تک ہماری معلومات ہے اس سلسلے میں وہ بھی ان ہی وسائل سے ہم تک پہنچی ہے۔ ابتدائی دور یعنی جب اس وباء کا ذکرشروع ہواتھا توسب سے اہم بات جومنظرعام پرآئی تھی وہ اس وباء کا پس منظرتھا ۔ یہ بتایاگیاتھا کہ یہ جووباء ہے وہ ایک پوشیدہ قسم کی ہے نظر ہی نہیں آتی ‘تعجب ہے ۔چند دن کیا گذرے یہ انکشاف ہوا کہ ہاتھ ملانے سے یہ رسائی کرتی ہے ۔ بعدمیں یہ بتایاگیاکہ ہاتھوں پرایک مدت تک رہتی ہے‘کپڑوں پراتنی مدت تک رہتی ہے ‘پھرحلق میں اتنے وقت تک قیام کرتی ہے ‘پھرپھیپھڑوں میں جاکر اپنااثردکھاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جس وباء کے نظرہی نہ آنے کا دعویٰ کرنے والے ہی اس کی Traveling Summaryکیسے پیش کررہے ہیں سوچنے والی بات ہے۔ ایک اہم بات جس کی بارہا تاکید کی جارہی ہے کہ گھروں سے باہر نہ نکلاجائے۔ اس وباء سے لڑنے اوربچنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ اپنے آپ کو اوراپنے گھروالوں کوگھروںمیں قید کرلوآپ محفوظ رہیں گے اور دوسروں کو بھی تحفظ فراہم کریں گے۔ کیو ںکہ یہ ایک ایسی وباء ہے جس کا اپنا ایک Attitudeہے ‘ یعنی وہ آپ کے گھرخود چل کرنہیں آتی جب تک آپ خود اُسے لینے باہر نہ جائیں۔ یہ معلومات چونکا دینے والے تھے ۔ ہم اورہماری طرح نہ جانے کتنے لوگ چونکے ہوں گے یہ بھی نظرنہیں آیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعلان کیاجارہا ہے کہ ایک گاڑی دوپہیوں والی پرایک ہی فرد سفر کرسکتا ہے۔ چارپہیوں والی گاڑی پر دوفرد باہرجاسکتے ہیں۔ وہ بھی ضروری کام کے لیے دودھ‘ دوا‘ گوشت‘ ترکاری وغیرہ وغیرہ لانے کے لیے ۔بیکار بلاوجہ گھومنے والوں کوسخت تاکید کی گئی ہے۔ اس کے چلتے چلتے تمام وہ کام جوبندہ کوخالق سے جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں بند کردیے گئے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بندہ اور خدا کے بیج ایک خلا پیدا ہوگیا۔ آٹے میں نمک کے برابر لوگ ہی اپنا رابطہ خالق سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران شب معراج ‘شب برات بھی گذرگئی ۔ہرروز نت نئی کوئی نہ کوئی بات سامنے آتی ہی جارہی ہے جس کے چلتے چلتے یوں لگتا ہے(خدا نہ کرے) شب قدر بھی ایسے ہی گذرجائے۔
آمدنی خود کی یعنی عوامی آمدنی چاروں سمت سے بند پڑی ہے لیکن خرچ کے سودرکھلے ہوئے ہیں۔ چاہے گوشت‘ترکاری ‘ دودھ‘ دوا‘ گیاس سلینڈر‘ پٹرول ‘ موبائیل ری چارج ‘ڈیش ری چارج‘ گھرکا کرایہ ‘بچو ںکی فیس ‘ مختلف اقسام کے ماہانہ قسطیں‘ ماسک ‘سینی ٹائزر وغیرہ وغیرہ کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو غور طلب بات یہ ہے کہ وباء نظرنہیں آتی اورچل کرآپ کے اورہمارے گھرتک نہیں آتی جب تک ہم خود جاکراُسے نہیں لاتے توایک سوال ذہن کے نہاں خانوں میں ہلچل مچاتا ہے کیا ان تمام جگہوں پر وہ وہ باء کا پہنچنا ممنوع ہے؟۔ جہاں ہم جاجاکر اپنی مختصر سی جمع پونجی خرچ کرنے پرمجبور کردیئے گئے ہیں جو وبا نظرہی نہیں آتی تھی وہ اچانک نظرآگئی‘ چینلس کی بے تکی خبروں اور تنگ نظری نمایاں کرتے ہوئے مخصوص تبصرے اورپولیس کا شدید ترین ظلم دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو وباء نظرنہیں آتی تھی وہ میڈیا کومسلمانوں کے روپ میں اور پولیس کے ملازمین کو معصوم عوام کے روپ میں نظرآگئی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس وباء کا موثر علاج لاٹھی اور لفاظی میں پنہا ں تونہیں؟۔ کیا یہ وباء واقعی اتنی دہشت زدہ ہے جتنی دہشت میڈیا پھیلارہا ہے وباء کے نام پر؟ اپنے اپنے اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے بے خوف چہرے لیے ہوئے جس طرح سے Projectedنظریات پیش کیے جارہے ہیں اور جس طرح سے کورونا کے متاثرکوڈاکٹرس‘ ایمبولینس‘ پولیس اوردیگرعملہ کے ذریعہ گھرسے لے جانے پہنچ رہے ہیں جسے دیکھ کر کمزور دل انسان تو وباء کے حملے سے قبل ہی دل کے دورہ سے ہی چل پڑے۔
جن حفاظتی اقدامات کے لیے کہاجارہا ہے اس میں سب سے پہلا حفاظتی اقدام منہ پرماسک لگانا ہے لیکن ماسک کا کوئی معیار مختص نہیں کیاگیا ہے۔ آپ چاہے جہاں دستیاب ہووہاں سے لے لیں۔ بھلے ہی ناریل پانی والے کی بنڈی پرہی کیوں نہ ملے ‘ کسی آن ہائی جینک جگہ پرہی کیوں نہ ہو‘ بھلے ہی گھنٹوں وہ سڑک کی گرد وغبار میں رکھا ہوا ہو ‘ دوسری اہم بات وقتاً فوقتاً ہاتھوں کو پانی اور سینی ٹائزر سے دھونا وغیرہ وغیرہ۔ ہم عوام یہ سب احکامات جوہمارے منتخب کردہ ادنیٰ واعلیٰ خدمت گذاروں کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں اُسے بلا کسی پس وپیش کے بجالارہے ہیں توکیا ہمیں یہ حق نہیں کہ یہ دریافت کرے کیا یہ وباء مستقل ہے ؟ ‘ ہماری سمجھ تویہی بتاتی ہے کہ یہ وباء وقتی ہے اورانشاء اللہ بہت جلد ختم ہوجائے گی لیکن کچھ وبائیں جومستقل ہمارے ملک کا مقدربنی ہوئی ہیں ہم ہوش سنبھالے تب سے دیکھتے آرہے ہیں بلکہ اس سے متاثر ہوتے آرہے ہیں وہ وبائیں ہماری نظرمیں رشو ت خوری‘ فرقہ پرستی ‘ حکومت اورذمہ داران کی گرفت سے آزاد فسادی ‘مہنگائی اوربدنظمی کی منہ بولتی تصویر سرکاری اسکول اوردواخانہ وغیرہ وغیرہ۔
ایسے حالات میں عوام کو صرف اور صرف گھروںمیں قید رکھ کراس وباء سے محفوظ رکھاجاسکتا ہے یا کوئی اوربھی راستہ ہے؟۔ نہیں توآخر کب تک قید وبند میں رہے ہم؟ ‘ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا لیکن بھوک مری‘ فاقہ کشی‘ خود کشی کے کئی واقعات منظرعام پرآچکے ہیں ۔ان سب کی ذمہ داری کس پر؟۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام یہ سوچنے پرمجبورہوجائے کہ :
بن آئے گی ہر گز نہ یاں کچھ کیے بن
جوکچھ کاٹنا ہے تو بونا پڑے گا
٭٭٭

Comments are closed.