میری تحریر کی کہانی۔۔۔۔۔میری زبانی

از قلم: مصعب عادل الہ آبادی
وہ ایک سہانی صبح تھی نماز فجر سے فارغ ہو چکا تھا قرآن کی تلاوت میں محو تھا الفاظ قرآنی کے اعجاز ومعانی کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے تھے کہ اللہ نے آسمان کو ستاروں کے ذریعہ زینت بخشی ہے دنوں کو یوم جمعہ کے ذریعے خوشنمائی عطا کی ہے راتوں میں شب قدر کو اعجاز بخشا ہے اور تحریروں میں خطاطی کو شہنشاہیت عطا کی ہے۔
یکایک نگاہ ایک گلاب کے پودے پر جاٹکی اور ذہن اس کے لگائے ہوئے ابتدائی قلم پر رک گیا اس کی ناک کو مٹی میں رگڑتے ہوئے زمین میں کیسے دبا دیا گیا ؟
ع؎ کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
اس خاک میں جڑیں اگیں اور زمین کے تہوں میں ملکر اپنی مضبوط پکڑ بنانا شروع کر دیا اور پھر اس کے بال و پر نکلنے شروع ہوگئے قدرت نے خوشنما پتوں سے اسے سجانا شروع کردیا کی دیکھتے ہی دیکھتے جنات الفافا کا منظر سامنے آگیا پھر کلیاں چٹخیں اور پھول کھلے ایک سماں بندھا خوشبوئیں بکھریں اور لوگ محظوظ ہونا شروع ہوئے یہی سوچتا رہا کہ یہ کتنی نگاہوں کا مرکز اور کتنے سروں کے تاج اور کتنے دلوں کو روح افزا اور تازگی کا ذریعہ بن گیا ۔
میں بھی دنیا میں آنے والا ایک بچہ تھا اپنے والدین دادا دادی کا چہیتا تھا بھائی بہنوں کی نگاہوں کا نور تھا شفقت و محبت کی گود میں پلا تھا ناز و نعمت میں کچھ ایسا ڈھلا تھا کہ میری چہکاریوں سے میرا آنگن مہکتا تھا اسی درمیان میرے والدین نے مجھے بھی ترا ش کر مکتب کی تعلیمی و تربیتی مٹی میں مجھے گاڑ دیا وہ مکتب کیا میرے والد کا لگایا ہوا ایک چمن تھا جس میں سہ لسانی فارمولے اور فنون لطیفہ کے ساتھ بقائے ایمانی کی ایک ادنیٰ سی کوشش تھی میری ایک معلمہ جن کا نام حسنی تھا ان کی ایک دعا آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے تم آرٹ میں بہت آگے جاؤ گے اس مکتب میں مجھ پر ایسی سختیاں بھی کی جاتیں جو دوسرے بچوں کے تعلیمی شغل کے لئے کارگر ہوتیں یہیں سے میری ابتدائی جڑیں مضبوط ہونی شروع ہوئیں دوران حفظ مدرسہ عین العلوم پھولپور کی چہار دیواری میں قاری رئیس احمد صاحب کے حلقہ درس میں نوک قلم سے بشکل نقل و املا اوراق سیاہ کرتے رہے ہے۔اس کے بعد میں حضرت مولانا عبدالہادی صاحب دامت برکاتہم کے لگائے ہوئے اس باغ کا رخ کیا جو حقیقت میں جنگل میں منگل کا منظر تھا جو ہمارے گھریلو زندگی چھوڑنے کا پہلا تجربہ تھا جس عظیم ہستی نے میرے نو ک قلم کو بال و پر عطا کیا وہ حضرت مولانا محمد اشتیاق صاحب دامت فیوضہم تھے اور پھر میں جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاھی مرادآباد کی چھاؤں میں درسگاھوں کی زینت بن گیا اور درسیات کے ساتھ اپنی تفنن میں مشاقی کرتا رہا یہاں یر اپنے اساتذۂ کرام خصوصا مفتی محمد رضوان قاسمی و مفتی توحید احمد صاحبان مدظلہم العالیہ کی شفقتوں اور دعاؤں نے ایسا اثر دکھلایا جس کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اس وقت میں ششدر و حیران رہ گیا جب میں دیکھا کہ میرے فالوور اور چہیتوں کی ایک پوری کی پوری فوج تیار ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور میری زندگی کا وہ قلم جو مٹی میں دبایا گیا تھا آج برگ وبار کے ساتھ کھلا ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے دار التفسیر میں اپنی جگہ بنا کر خوشبوئیں بکھیر رہا ہے۔
کاش ! ہمارا یہ قلم اسلامی علوم و فنون اور تہذیب وتمدن کی بقاء و استحکام کا ذریعہ بنے اور یہ قلم کی خوشبو علم و معرفت کی خوشبو بن جائے جو دلوں کو کھینچ کر خدا کی جانب مائل کر دے اور ایسا نور ثابت ہو جو قبر کی روشنی کا ذریعہ بنے اور آخرت میں سرخروئی بھی عطا کرے۔
Comments are closed.