یقیں محکم، تو لاتحزن! اللہ پر کامل یقین رکھیے،اورغم نہ کیجیے!

ابوہادیہ

۱۹/شعبان/۱۴/اپریل/۲۰۲۰
—————————————
گردشِ ایام کے تھپیڑوں حکومتِ وقت کی ستمگری اور باد مخالف سے بسا اوقات انسان کمزور پڑ جاتا ہے، وحشت و گھبراہٹ محسوس کرتاہے،بد دلی اور نا امیدی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ زندگی اجیرن بن جاتی، ہے اور مشکل حال سے تاریک مستقبل کا خوف انسان کو اندر سے کھوکھلا کرجاتا ہے ، نہ چہرے پر بشاشت،نہ انداز میں شگفتگی،نہ ملاقات میں خوشگواری، نہ آنکھوں میں نیند،نہ کھانے میں لذت اور نہ ہی دل میں قرار و سکون پاتا ہے۔
کسی اذیت و مصیبت اور دلی صدمہ پر غم کا اظہار تو زندوں کی پہچان ہے؛ لیکن نامساعد حالات اور زمانہ کی ستمگری سے گھبرانا اور مایوس ہوجانا یہ اہل ایمان کاشیوا نہیں ہے؛ بلکہ علامتِ ایمانی یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کرکے خامیوں کو خوبی سے بدلتے ہوئے شر میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرنا چاہئے۔

اس وقت دنیا میں اور بالخوصوص ہمارے ملک بھارت میں پےدر پے مسلمانوں کو آزمائش و ابتلاء کا سامنے ہے، آئے دن اہل سیاست کی طرف سے کوئی نہ کوئی مسئلہ اٹھاکر مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اور اسکی ابتدا منصوبہ بندی کے ساتھ بھارت کی الکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے کیجاتی ہے،پھر جھوٹ گوئی اور تہمت تراشی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، مسلمان اورمذہب اسلام کو ڈائریکٹ لی ٹارگیٹ کیاجاتاہے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بسا اوقات ہم قوم مسلم بھی گھبراہٹ اور نا امیدی کا شکار ہوجاتے ہیں اور حواس باختہ ایک دوسرے سے سوال کرتےہیں کہ اب کیا ہوگا؟ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ
*وہی ہوگاجومنظور خداہوگا*

ایسے نازک وقت میں ہم اہل ایمان کو اپنے رب کیطرف متوجہ ہوکر خود انہی سے سوال کرنا چاھیے کہ ربّا! اب آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کا کیابنےگا؟ پھر وہاں سے ایسا اطمینان بخش جواب ملےگا کہ بے قرار دل کو قرار آجائے گا اور زندگی ایسی راحت بھری ہوگی کہ کوئی ڈر اور خوف میں مبتلا کرنا چاھےگا تو زبان پر *لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا* کا ورد ہوگا۔

ہم اپنے رب کے کلام کو پڑھیں تو سہی! اس پر یقین کامل رکھیں تو سہی! وہ پکار پکارکر ہمیں دلاسہ اوربھروسہ دےرہاہے! *یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔* اے نبی ! آپ کے لئے اور آپ کی پیروی کرنے والے مسلمانوں کے لئے اللہ ہی کافی ہیں۔مسلمانوں کےلئے اس سے زیادہ واضح بات کیاہوسکتی ہے؟ کہ رب کائنات،دنیاوآخرت کے خیر و شر کے مالک جو *علی کل شئ قدیر* بھی ہے، *علیم بذات الصدور* بھی وہ ذات عالی گارنٹی دےرہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے میں کافی ہوں!
لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسباب و وسائل کے اتنے پجاری ہوگئے کہ صرف اور صرف اللہ سے ہونے کا یقین کامل نہیں رہا۔ ہم زبان سےاقرار تو کرتے ہیں؛ پر جس یقین کامل کی ضرورت ہے اس سے ہم محروم ہیں! اللہ کرے کہ وہ یقین کامل ہمیں نصیب موجائے؛ آمین۔

اللہ پر اسی یقین کامل کے نہ ہونے کیوجہ سے آج قوم مسلم دن بدن رجوع الی اللہ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ورنہ تو اللہ پر پختہ اور کامل یقین رکھنےوالوں کے سلسلے میں قرآن شاہد ہےکہ ایک طرف کفارو مشرکین کی دھمکی آرہی ہے،تودوسری طرف اطمینان قلبی کایہ عالم ہےکہ برملا اعلان کیاجاتاہے کہ ہمارے لئےبس اللہ ہی کافی ہے۔ *اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ؛*” یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کفار تمہارے مقابلہ میں اکٹھے ہوگئے ہیں ؛ اس لئے تم ان سے ڈر کر رہو ، تواس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا،اور ان لوگوں نے کہا : ہمارے لئے ﷲ ہی کافی ہیں اور وہی بہترین کارساز ہیں“۔

سبحان اللہ: یہ تھااصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ پر یقین کامل! اگر مسلمانوں کا اپنے رب پر ایسا کامل یقین ہوجائے تو آج بھی مسلمان *اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔* کے نسخہ کو اپناکر اپنے دلوں کو حزن و غم اور گھبراہٹ سے دور رکھ کر خوشگواری،شگفتگی،اور قلبی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔
رہا کفار ومشرکین کی سازشیں اور جھوٹ و فریب اور تہمت کا معاملہ؛ تو وہ ہرزمانے میں رہاہے،اور رہے گا۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مُصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی

سیدنا موسی پر تہمت لگی ،اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کو اس سے بری کردیا۔حضرت مریم اور ہماری اماں حضرت عائشہ پر سنگین تمہت لگائی گئی؛ اللہ نےاپنی کتاب قرآن مقدس میں پاکدامنی بیان فرمائی اور جھوٹھے مکاروں کو ذلیل کردکھایا۔خود سید الانبیامحمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتوں کی بارش ہوئی کبھی شاعر،کبھی کاہن و جادوگر تو کبھی مجنوں اور دیوانہ کہاگیا؛ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے حبیبؐ کو تسلی دی۔
قرآن شاہد ہے کہ ہرزمانے کے جھوٹوں،مکاروں،اورفتنہ پروروں کے جھوٹ،فریب،مکاری اور فتنہ انگیزی سب اللہ کے تدبیر کے سامنے ناکام و نا مراد ہوئی۔ *وَ مَکَرُوْا مَکْرًا وَّ مَکَرْنَا مَکْرًا وَّ ہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَ قَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ*” انھوں نے بھی سازش اور مکر کی اور ہم نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی اوراللہ کی تدبیر کے سلسلے میں وہ بےخبر رہے!تودیکھ لو کہ ان کے فریب کا کیسا انجام ہوا ؟ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سبھوں کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔ تمام مکر پر اللہ کی تدبیر غالب ہوئی“۔

اس لئے مسلمانوں کو گھبرانے کے بجائے تاریخ اسلام سے سبق لیکر ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہےکہ حکومت اور میڈیا کے سازشوں اور انکے جھوٹ، فریب اور تہمت سے پریشان اور غمگین ہونے کے بجائے اپنےاعمال درست کرنےکی کوشش کی جائے،اللہ پر کامل یقین کیسے پیدا ہو اس طرف توجہ دی جائے۔جس اللہ نے ماضی میں مکاروں کو بےنقاب کرکے ذلیل کیا ہے تو آج کےمکاروں کو بھی ذلیل کرےگاان شاء للہ۔
بس ہم کو ڈرنےخوف میں مبتلاء ہونےکے بجائے حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرنا ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیا خوب کہاہے:
*یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم*

*جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں*

Comments are closed.