یہ طوفان اچانک نہیں اٹھاہے

منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب
ہندوتو کے علم بردار اور آرایس ایس کے روح رواں گوالکر نے ۱۹۳۹ میں کہا تھا : ہندوستا ن میں موجود غیر ملکی نسلوں (یعنی مسلمانوں ) کو ہندو تہذیب اور زبان اختیار کر لینی چاہئے ، ہندو قوم کی تعظیم کے علاوہ ان کے ذہن و دماغ میں کوئی بات نہیں آنی چاہئے ،یا پھر اس ملک میں ہندو قوم کے ماتحت رہیں ، کسی خاص قسم کی برتاؤ تو دور کسی مراعات کا حق بھی نہیںہونا چاہئے ،، ۔
اس خیال کا اظہار انہوں نے اس وقت کیا تھا جب ملک تقسیم کے مرحلے سے نہیںگزرا تھا ،اور مسلم اکثریت میں نہ سہی ، تاہم اقلیت میں بھی نہیں تھا ۔ابھی تقسیم وطن کے کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ ملک کے اول وزیر داخلہ اور مہاتما گاندھی کے معتمد خاص سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ۶ ؍جنوری ۱۹۴۸ میں لکھنؤ کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا : اگر مسلمانوں کو اس ملک میںشبہ کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے تو انہیں اس پہ تعجب نہیں ہونا چاہئے ، وہ بیک وقت دو گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتے ہیں ، جو ملک کے وفادار نہیں وہ یہاں زیادہ دنوں تک نہیںرہ پائیں گے ؛کیونکہ ان کے لئے ماحول بہت گرم ہونے والا ہے ،،۔ ٹائمز اف انڈیا ۷؍جنوری ۱۹۴۸؁ء
گوالکر اور سردار پٹیل کے افکارو خیالات پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میںاب بھی آپ ایک باعزت شہری کی طرح زندگی گزار سکیں گے ، آپ کے حقوق کما حقہ آ پ کو ملیں گے؟ تو میںسمجھتا ہوں ابھی بھی آپ آنکھیں موند کر چل رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف گوالکر، ساورکر ، ہیڈگوارنے نفرت کا جو بیج بویا تھا ،اس کو اڈوانی اور مودی نے خون پلا کر تناور درخت بنادیا ہے ، آج اگر آپ کو غدار وطن کہا جا رہا ہے ، دیش دروہی کہا جا رہا ہے، بار بار پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، تو یہ یوں ہی اچانک نہیں ہوا ہے ، تقسیم وطن کے ساتھ ہی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کا پروگرام بن چکا تھا،اورآج وہ کامیاب ہو تے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ طلاق کو غیر شرعی بلکہ ظلم کا نام دے کر مذہب میںمداخلت ، دفعہ ۳۷۰ ہٹا کر مسلمانوں کو اوقات دکھانے کی جرأت ، بابری مسجد کو منہدم کرکے چھین لینے کی کارروائی ، سی اے اے لاکر غیر ملکی بنانے کی سازش کونقطہء انجام تک پہنچانے کی بے چینی ۔۔۔آپ چیختے رہے، چلاتے رہے ،سو دن سے زیادہ دنوں تک شاہین باغ میں بیٹھے رہے ، ملکی پیمانے پر تحریکیں چلاتے رہے ، غیر ملکی میڈیا بھی آواز پر آواز ملاتا رہا مگر کیا ہوا ؟ کچھ بھی نہیں ۔ حکومت کے کان میں جوں تک نہیںرینگی ، گوکہ انہوں نے واضح پیغام دے دیا کہ ہم اپنے پیشرو کے منصوبے پر آگے بڑھتے رہیں گے ، آپ چیختے رہیں ،شور مچاتے رہیں !
یہ سچ ہے کہ جب نفرت کی لکیریں کھینچی گئی تھیں، اس وقت اتنی شدت نہیں تھی، کچھ حد تک انسانیت باقی تھی ، ہندی قوم آپس میں سلام و پرنام کرلیتی تھی؛ لیکن موجودہ وقت میں گودی میڈیا نے گزشتہ ۶ سالوں میں وہ آگ بھڑکائی جو ۶۵ سالوں میں کسی نے نہیں سوچا تھا، اس نے مسلمانوں کو ملک مخالف بتانے ، ملک دشمن ثابت کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ تازہ ترین معاملہ کورونا وائرس اور مرکز نظام الدین کی صورت حال پر ہی نظرڈال کر دیکھ لیں !کس قدرگودی میڈیا نے شر انگیزی کی ہے ، فرقہ پرستی کا زہر گھولا ہے ۔کسی نے ہیڈنگ لگائی ’’کورونا جہاد سے دیش بچاؤ،، تو کسی نے کہا’’ کورونا کے جنگ میں جماعت کا گھات ،،کسی نے کہا ’’دھرم کے نام پر ادھرم ،،تو کسی نے کہا نظام الدین کا ولن کون ؟،،جیسے پورے ملک میں کورونا جماعت کے ہی لوگوں نے پھیلایا ہو ، جب اس پر بھی من نہیں بھرا اور ٹی آر پی کا لیول اونچانہیں ہوا تو الزام لگانا شروع کیا کہ جماعت والے ڈاکٹروں پر تھوک رہے ہیں ، نرس کو فحش اشارے کر رہے ہیں ،کھانے کے لئے بریانی مانگ رہے ہیں ، بیت الخلاء سے باہر قضائے حاجت پوری کررہے ہیں ، مسلمان برتنوں میں تھوک لگا کر کورونا پھیلا رہے ہیں ، تھوک لگا کر پھل بیچ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی گھٹیا پن کی ساری حدیں توڑ دیں ، جب تک حقیقت سامنے آتی تب تک سماج میں مسلمانوں اور جماعت کے خلاف نفرت پھیل چکی تھی،غیر مسلم ہی نہیں مسلمان کا ایک بڑا طبقہ بھی ہندوستان میں کورونا کا مجرم جماعت اور مسلمانوں کو ماننے لگے ، اب تو صورت حال یہ ہے کہ کورونا کے نام پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ بھی شروع ہو گئی ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا ! گلوکارہ کنیکا کپور ۹؍ مارچ کو پروگرام کے بعد لندن سے لوٹی تھی اور وہ کورونا سے متاثر تھی ،باوجود اس کے ہولی پارٹی میں شریک ہوئی ،جس سے راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے ان کا بیٹا دشینت سنگھ اور دیگر ہائی پروفائل لوگ متاثر ہوئے مگر اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ، کوئی ڈیبیٹ نہیں ، کوئی سوال نہیں؟ اگر کنیکا کپور کی جگہ کوئی کریمہ خاتون ہوتی تو گودی میڈیا کورونا دہشت قرار دے کر پاکستان سے نام جوڑنے میں گھنٹہ بھر بھی نہیں لگاتا ۔ہر اینکر تال ٹھونکتا اور ہلا بولتا ۔ مسلم مخالف میں میڈیا کتنا اندھا ہو گیا ہے اسکا اندازہ کیجئے ! اروناچل پردیش میں کورونا کا صرف ایک مریض ہے مگر زی نیوز نے گیارہ بتادی وہ بھی سب کے سب جماعتی ۔سرکار کس طرح بے ایمانی پر اتر آئی ہے ، نیوزآئی دہلی مرکز سے چھتیس گڑھ ۱۵۹ جماعتی لوٹے، کمال یہ ہے کہ اس لسٹ میں۱۵۹ میں سے ۱۰۸ ہندو کا نام درج ہے ۔ نفرت کا نشہ صرف میڈیا اورعام لوگوں پر چڑھ کر نہیں بول رہا ہے بلکہ قوم کے لیڈروں پر بھی بول رہا ہے ، چنانچہ راج ٹھاکرے کہتے ہیں :تبلیغ والوں کو گولی مار دو ،مشہور پہلوان اور اولمپک کھلاڑی ببیتا پھوگاٹ کہتی ہے : تبلیغی جا ہل اور۔۔ہے اسی سے ملک میں کورونا پھیلا ہے ۔اب تو دہلی حکومت نے بھی کورونا پوزیٹیو کا خانہ تبلیغ کے نام سے علیٰحدہ بنا کر اشارہ دے دیا ہے کہ کورونا کے مجرم تبلیغی ورمسلمان ہی ہیں ۔ وہ تو بھلا ہو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹیمو گوڈرس کا کہ جنہوں نے ایک میٹینگ کے بعد پریس اعلامیہ میں کہا : اقوام متحدہ میں یہ قرار داد منظور کی گئی ہے کہ کورونا وائرس ایک مہلک مرض ہے ،اس میں کسی کے ساتھ بھید بھاؤ اور نسلی امتیاز نہیں ہونی چاہئے ، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے ، اور اگر کوئی ملک کسی فرقے اور طبقے کے ساتھ امتیاز کرتا ہے تو ایسے ملک کے خلاف کارروائی کی جائے گی ،، اس کے بعد بی جے پی حکومت نے خود خاموشی اختیار کر لی اور اس کے صدر جے پی نڈا نے اپنے نیتاؤں کو کورونا ،مرکز نظام الدین یا جماعت پر کسی طرح کا بیان دینے سے روک تو دیا؛ لیکن فرقہ پرست میڈیا کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ رکھا ہے ۔ بہر حال جو کام اس وقت حکومت اور میڈیا مل کر انجام دے رہے ہیں یہ ملک کی سالمیت ، جمہوریت اور ملت کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔
[email protected]

Comments are closed.