مساجد كے علاوہ جگہوں میں نماز جمعہ – ایك تجزیاتی مطالعہ

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی
(عمید كلیۃ البحث والتحقیق جامعۃ العلوم ،گڑہا – گجرات)
درج ذیل سطور میں مساجد كے علاوہ جگہوں میں نماز جمعہ كے قیام كےجواز كی بابت ایك تجزیاتی تحریر سپرد قرطاس كرنےكی جرئت كر رہا ہوں، اللہ تعالی سے دعا گو ہوں كہ تحریر میں اخلاص عطا فرمائے، ہوائے نفس اور اس كے شر سے حفاظت فرمائے، غیبی دستگیری فرمائے، درست رائے كی طرف رہنمائی اور شرح صدر اور اطمینان قلب نصیب فرمائے ، آمین۔
۱ – اوپر ذكر كردہ دلائل ووجوہات اور مصالح شرع كی روشنی میں بات واضح ہوچكی ہے كہ كورونا وائرس كی وجہ سے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر پوری دنیا كے اندر جو صورت حال اس وقت بنی ہوئی ہے، اس میں مسلمانوں كے ذمہ سے جمعہ كی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور اس كے بدلہ نماز ظہر جو كہ جمعہ كے دن نماز جمعہ كی متبادل ہے ، اس كی ا دائیگی لازم ہوتی ہے ۔ اب اس كےبعد گھروں میں نماز جمعہ كے قیام كا تكلف اور اس پر اصرار كرنا شریعت اسلامیہ كے عام مزاج “یسر وسہولت اور نرمی” كی مخالفت، اس كی طرف سے عطا كردہ رخصت كو ٹھكڑانا اور شریعت اسلامیہ كے مقابلہ میں اپنے آپ كو طاقت ورثابت كرنے كی كوشش كے مترادف ہوگا ، جو شریعت اسلامیہ میں پسندیدہ عمل نہیں ہے ،جیسا كہ حدیث شریف میں آبا ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:“ دین آسان ہے، كوئی دین پر عمل كرنے میں اپنے اوپر سختی نہیں برتے گا مگر وہ خود مغلوب ہوجائےگا”(بخاری، ایمان، با ب الدین یسر، حدیث:۳۹)۔
اللہ كے سامنے اپنے آپ كو فروتر اور كمزور سمجھنا اور اس كا اظہار كرنا پسندیدہ اور اللہ تعالی سے قریب كرنے كا مؤثر ذریعہ ہے اور اللہ تعالی ایسے لوگوں كے ساتھ درگذر كا معاملہ فرماتے ہیں، جیسا كہ اس آیت كریمہ سے معلوم ہوتا ہے:
{إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا . فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا}[ نساء:۹۸ – ۹۹]
“سوائے ان بے سہارا مردوں، عورتوں اور بچوں كے ،جو نہ كوئی تدبیر كرسكتے ہیں اور نہ كوئی راستہ پاتے ہیں، تو امید ہے كہ اللہ ان لوگوں كو معاف كردیں گے اور اللہ بہت معاف كرنے والے خوب بخشنے والے ہیں”۔
۲ – غور وفكر كا مقام ہے كہ اصولی طور پر دیكھا جائے تو مساجد كے علاوہ گھروں ، بنگلوں ، اسكول ومدارس اور دوسری جگہوں میں نماز جمعہ قائم كرنے كا فتوی جن مفتیان كرام نے دیا ہے، تو اس كی بنیادیں دو ہوسكتی ہیں :
اول: كورونا وائر س اور لاك ڈاؤن كی وجہ سے جو حالت بنی ہوئی ہے ، اس كے پیش نظر ضرورت وحاجت كی وجہ سے مساجد كے علاوہ گھروں وغیرہ میں جمعہ قائم كرنے كا فتوی دیا گیا ہے ، جب حالات معمول پر آجائیں گے تو لوگ حسب معمول جامع مسجدوں میں جمعہ پڑھنا شروع كردیں گے ۔ تو یہ بنیاد درست ممعلوم نہیں ہوتی ہے ؛ كیونكہ ضرورت كی و جہ سے ان احكام میں تبدیلی واقع ہوتی ہےجن كا بدل نہ ہو ، جن كا بدل ہو تو وہاں احكام میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے بلكہ جو بدل ہے وہ اصل كے قائم مقام ہوجاتا ہے ، مثال كے طور پر ایك شخص كسی معقول عذر كی وجہ سے وضو پر قادر نہیں ہے تو ایسا نہیں ہے كہ اس سے نماز كے لئے حصول طہارت ساقط ہو جائے گی یا اس كو ہر حال میں وضو كرنے كا مكلف بنایا جائےگا ؛ اس لئے كہ وضو كا نائب یعنی بدل تیمم موجود ہے ،ایسا شخص تیمم كرے گا اور نماز پڑھے گا، ہاں! اگر تیمم پر بھی قادر نہ ہو تو فاقد الطہورین كا مسئلہ پیداہو گا ، ورنہ اس سے پہلے وضو كا بدل تیمم موجود ہ ہے ۔ یہاں جمعہ كا بدل ظہر ہے ؛پس جب جمعہ پڑھنے سے جو لوگ معذور قرار پائے ہیں تو ان كے لئے جمعہ كا بدل ظہر ہے، وہ ظہر پڑھیں گے نہ كہ جمعہ ،جیسا كہ حدیث شریف میں آیا ہے كہ بیماری، ڈر وخوف اور بارش كی كثرت ایسے اعذار ہیں جن كی وجہ سے جمعہ كی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ان میں مبتلا افرادمعذور كہلاتے ہیں، وہ جمعہ كے متبادل كے طور پر نماز ظہر اپنے اپنے گھروں میں پڑھنے كے مكلف ہیں ۔(دیكھئے:ابوداؤد، بَابٌ فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ، حدیث:۵۵۱، مستدرك حاكم، حدیث:۸۹۶، سنن كبری از بیہقی، حدیث:۵۰۴۷،بخاری، باب الرخصۃ ان لم یحضر الجمعۃ فی المطر، حدیث :۹۰۱،مسلم،با ب الصلاۃ فی الرحال فی المطر ، حدیث: ۲۶ – ۶۹۹)، ان ہی احادیث اوردوسری دلائل كی بنیادپر فقہاء نے نماز جمعہ مكلف مسلمانوں كے ذمہ میں واجب ہونے كے لئے بیماری سے محفوظ اور تندرست ہونا اور ڈرو خوف سے مامون ہونا ضروری قرار دیا ہے (در مختار ورد المحتار:۳/ ۲۷، ۲۹)۔
نیز معلوم ہونا چاہئیے كہ ضرورت وحاجت كی اصل وبنیاد پر گھروں میں جمعہ كی صحت كافتوی اور رائے اِس وجہ سے بھی درست معلوم نہیں ہوتی ہے كہ شریعت اسلامیہ میں حاجت وضرورت كی وجہ سے كسی حكم شرع پر عمل جائز ہونے كےلئے ضروری اورشرط یہ ہےكہ وہ حكم حاجت وضرورت كے وقت باقی ہو اور مكلفین اس حكم پر عمل كے مخاطب ومكلف ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو وہ اس حكم پر عمل كے مخاطب ومكلف نہیں ہیں۔اور یہاں ایسا ہی كہ حاجت وضرورت كے وقت جمعہ پڑھنے كا حكم ساقط ہوجاتا ہے ،اس كے بدلہ میں ظہر كی نماز ادا كرنے كا حكم لازم ہوجاتاہے؛ اس لئے ضرورت وحاجت كے وقت مسلمان جمعہ پڑھنے كے حكم كے مخاطب نہیں رہےتو اس كی ادائیگی كے مكلف نہیں رہے ، جب جمعہ پڑھنے كے مكلف ومخاطب نہیں رہے تو اس كی ادائیگی درست نہیں ہوگی بلكہ نماز ظہر ہی پڑھنا لازم وضروری ہوگا۔
دوم:اصل مشروعیت كی اساس پر ، یعنی اصل كے اعتبار سے گھروں وغیرہ میں جمعہ قائم كرنا درست ہے ، تو یہ دو وجہوں سے نادرست معلوم ہوتا ہے :
پہلی وجہ یہ ہے كہ اس كا ذكر قرآن وحدیث میں نہیں ملتا ہے ، اور عہد نبوی ﷺ اور عہد صحابہ ؓ بلكہ بعد كے ادوار میں بھی اس كی نظیر نہیں ملتی ہے ، جبكہ ماضی میں كورونا وائرس سے زیادہ خطرناك طاعون جیسی متعدی بیماری آچكی ہے ، جس میں ایك ایك دن میں سینكڑوں كی تعداد میں بلكہ علامہ شوكانیؒ كے بیان كے مطابق ۷۰۲ھ میں قاہرہ میں اس حدتك سخت سنگین وباء آئی كہ بیت المال كی رپورٹ كے مطابق ایك دن سات ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں ۔(البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للشوكاني،ص:۷۳۰)۔
دوسری وجہ یہ ہے كہ زیر بحث مسئلہ مسكوت عنہ احكام میں سے ہے ، اور یہ عباد ت كا مسئلہ ہے ، خورد ونوش ، خرید وفروخت اور عادات و مباحات كے قبیل سے نہیں ہے،اورفقہاءكےیہاں عبادت كے باب میں اصل“حظر” یعنی ممانعت ہے،“الأصل في العبادات الحظر، وفي العادات الإباحة” (القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب للدكتور محمد مصطفى الزحيلي:۱/ ۱۱۲) “عبادات میں اصل ممانعت اور عادات میں اصل اباحت”،الأصل في العبادات التوقيف.(الغرر البهية في شرح بهجة الوردية، فصل في بيان صلاة النفل للرملي ،ص:۷۹،القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب للدكتور محمد مصطفى الزحيلي:۱/ ۷۶۹) “عبادات كے میں اصل توقیف ہے”، الأصل في العبادات التعبد(نظرية المقاصد عند الإمام الشاطبي،ص:۱۸۷،۳۲۰،تيسير علم أصول الفقة للجديعي:۱/ ۱۷۵) “عبادات كے میں اصل تعبدی ہے” ۔ حظر، توقیف اور تعبدی كے الفاظ قریب المعنی ہیں ، سب كا حاصل یہ ہےكہ عبادات كے باب میں قرآن اور حدیث میں جو كچھ آیا ہے ، ان ہی پر عمل ہوگا ، ان پر مزید اضافہ درست نہیں ہوگابلكہ اضافہ شدہ بدعت اور مردود ہوگا، جس كی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا: “جس نے ہمارے دین میں ایسی چیز كا اضافہ كیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ باطل ہے ”۔(بخاری، صلح،حدیث:۲۶۹۷، مسلم، حدود، حدیث:۱۷ – ۱۷۱۸)۔ نماز جمعہ ایك عبادت ہے ، تو یہ تعبدی توقیفی اور منعی وحظری ہوگی ، جس كا صاف مطلب یہ ہوا كہ جیسا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے اسی نہج وطریقہ پر جمعہ پڑھا جائےگا ، اس سے ہٹ كر كسی اورطریقہ پر پڑھنا درست نہیں ہوگا ،رسول اللہ ﷺ نے نماز كی بابت فرمایا: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» (صحیح ابن حبان، حدیث:۱۶۵۸)“جس طرح مجھ كو نماز پڑھتے دیكھو اسی طرح تم لوگ نماز پڑھو”۔اور آپ ﷺ نے قرآن كے اجمال “نماز حمعہ وخطبہ كی طرف سعی” كی اپنے عمل سے تفسیر فرمائی،دوسری طرف بہت سارے موقعوں پر جمعہ كو ترك فرمایا جبكہ آپ ﷺ چاہتے تو گھروں میں جمعہ قائم كرسكتے تھے اور قائم كرنے پر قادر بھی تھے ۔ واضح رہے كہ آپ ﷺنےجس ہیئت وصفت ،صورت وشكل اور طریقے پر نماز جمعہ كی ادائیگی كا اسوہ امت كے لئے چھوڑا ، اسی اسوہ پرحضرا ت صحابہ كرام ؓ ، تابعینؒ ، تبع تابعین اور بعد كے دوروں میں لوگ عمل پیرا ہوتے ہوئے آرہے ہیں،حضرات صحابہ كرام ؓ یہاں تك كہ حضرات تابعین ؒ، تبع تابعینؒ، ائمہ مجتہدین ؒ ، فقہاء اور علماء راسخین میں سے كسی سے منقول نہیں ہے كہ انہوں نے اسوہ رسول ﷺ كو چھوڑ كر كسی اور طریقہ پر مساجد كے علاوہ گھروں اور دوسری جگہوں پر جمعہ پڑھے ہوں؛لہذ ا مسجدوں كو چھوڑ كر گھرو ں وغیرہ میں جمعہ قائم كرنا دین میں خلاف سنت ایك نئی چیز كا ایجاد ہوگا ، جس كی نظیر پچھلی تاریخوں میں میں نہیں ملتی ہے ، جبكہ پچھلی تاریخوں ایك سے زائد بار طاعون اور اسی جیسی وبائی مرض آچكا ہے ، اتنا شدید اور خطرناك تھا كہ مسجدوں جمعہ اور دیگرنمازوں كی جماعتیں موقوف كردینی پڑی لیكن گھروں میں كسی نے جمعہ قائم كرنے كافتوی نہیں دیا اور نہ ہی لوگوں نے قائم كیا۔ دیكھئے یہ حافظ ذھبی ؒ ہیں ، جو اہل علم كے درمیان ایك بڑے مؤرخ ومحدث وسعت نظر ،صاحب استقراءاورتحقیق كے میدان میں حرف آخر كی حیثیت سے مشہور ومعرو ف ہیں، ان كا بیان ہے كہ مصر اوراندلس میں زبردست خطرناك قحط پڑاتھا ،قرطبہ میں تو اس جیسی وباء اور قحط اس پہلے كبھی نہیں دیكھا گیا،یہاں تك كہ مسجدیں بند ہوگئیں ، مسجد میں كوئی نماز پڑھنے والا نہیں(سیر أعلام النبلاء:۱۳/ ۴۳۸) ۔ مشہور مؤرخ مقريزی لكھتے ہیں: لوگوں كے درمیان میں شادیاں بند ہوگئیں، خوشیاں ختم ہوگئیں اور ان كے درمیان سے خوشی ومسرت كی تقریبات اٹھ گئیں، كتنی جگہوں پر اذان رك گئی،پورے شہر میں صرف ایك جگہ اذان ہوتی تھی،خانقاہیں اور مساجد مقفل ہوگئیں۔(السولوك لمعرفة دول الملوك:۴/۸۸)۔
۳ – لوگوں كے دلوں سے جمعہ كی اہمیت نكل جائےگی ، معمول كے حالات كے وقت جو ماحول دِكھنے كو ملتا ہے كہ لوگ جوق درجوق جامع مسجدوں كی طرف رخ كرتے ہیں ،اور شعار اسلام كااعلان ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، اس كی شان و شوكت كا ظہور ہوتا ہے ، ہفتہ واری عید كا منظر نمودار ہوتا ہے ، اس كا غیروں پرمثبت اثر پڑتا ہے اور ان كے دلوں میں اسلام كی شان وشوكت بیٹھتی ہے اور وہ مرعوب ہوتے ہیں ۔ اس كا قوی اندیشہ ہے كہ جب حالات معمول پر آجائیں گے تو یہ چیزیں متاثر ہونگی اور عام پنچوقتہ نمازوں كا جیسا حال جمعہ كا بھی نہ ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہفتہ وار ی مسلمانوں كی تعداد میں نمایاں فرق نظر آنے لگے گا اوربڑی كمی آسكتی ہے؛ اس لئے سدًّا للذریعۃ بھی مسجد سے باہر جمعہ قائم كرنے كا فتوی جاری كرنا محل نظر معلو م ہوتا ہے ۔
۴ – اسلامی اصول كو اچھی طرح سمجھنے كی ضرورت ہے ، دیكھئے اسلام كا ایك بنیادی نظریۂ حیات اور بے نظیر قانون زندگی اور عقل سے قریب تر اصول ہے جس كو رسول اللہ ﷺ نے اپنے معجزانہ جامع الفاظ میں فرمایا:«لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ» (موطأ الإمام مالك، حدیث:۲۲۶، ابن ماجه، حدیث:۳۳۴۰، مستدرك حاكم:۲/ ۵۷، دارقطني:۴/ ۲۲۸)یعنی شرعاً اپنے آپ كو اور دوسروں كو ضرر سے بچاناضروری ہے ،اور سب كو معلوم ہے كہ كورونا وائرس كا خطرہ بہت بڑا خطرہ ہے ، عام طور پر بیماری كا اثر ایك شخص كی اپنی ذات پر ہوتا ہے ؛لیكن اس سے شدید اجتماعی ضرر كا اندیشہ ہوتا ہے اور پوری پوری فیملی اور سماج كو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ؛ اسی وجہ سے ماہرین كی رائے كے مطابق لوگوں كاایك جگہ جمع ہونا بے حد نقصان دہ ثابت ہوسكتا ہے۔ — ایسی صورت حال میں لوگوں كو گھروں ، بنگلوں ، اسكول وكالیج اور مدرسوں میں جمعہ كرنے كی ترغیب دینا اور قیام كے جواز كا فتوی دینا دوسرے الفاظ میں جان بوجھ كر گھر والوں سمیت اپنے آپ كو اور دوسرے پڑوس كو بھی ہلاك وبرباد كرنے اور خودكشی كی طرف دعوت دینا ہو گا ۔ پوری دنیا سماجی دوری كو یقینی بنانے كے لئے رضاكارانہ تنظیم سے لے كر حكومت تك انتھك كوشش كررہی ہے ، اسی مقصد كے لئے لاك ڈاؤن نافذ كیا گیا اور اس میں مزید سختی آرہی ہے، اور ہم ہیں كہ شریعت كی رخصت كوبالائےطاق ركھ كر لوگوں كو گھروں میں جمع ہونے اور كرنے كی ترغیب دے رہے ہیں۔ — غور وفكر كا مقام ہے كہ لاك ڈاؤن كے ذریعہ لوگوں كو گھروں میں محبوس كرنے كا مقصد خود گھر والوں كو كورونا وائرس سے بچانا اور دوسروں كو بھی ضرر سے محفوظ كرنا ہے ، اور موجودہ حالت میں یہ ہماری شریعت اسلامیہ كے اصول «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ»“اپنے آپ كو اور دوسروں كو ضرر سے بچانا ”كے عین مطابق ہے ۔ ہمارا مذہب اسلام كہتا ہے ضرر كو دور كیا جائے اور جہاں تك ممكن ہو ضرر كو دور كیا جائے « الضَرَرَ یزال» (الاشباہ والنظائر :۱/ ۸۶) ،“ الضَّرَر يدْفع بِقدر الْإِمْكَان” (شرح القواعد الفقيهة للزرقاء،ص:۲۰۷)، اور گھروں وغیرہ میں جمعہ كے جواز كا فتوی اور اس كے رو سے ہم مسلمانوں كا عمل اس اصول كے بالكل منافی ہوگا۔
۵ – آٹھ صدی ہجری كے ایك بڑے فقیہ شافعی شیخ الاسلام تقی الدین سبكی متوفی ۷۵۶ھ نے ایك كتابچہ تحریر فرمایا، جس كا نام “الاعتصام بالواحد الأحد من إقامة حمعتين في بلد” ركھا اور اس میں انہوں نے بلاضرورت وحاجت كے ایك شہر میں تعدد جمعہ كے عدم جواز والے قول كو راجح قرار دیا ،اس كے بعد لكھا ہے كہ بغیر ضرروت وحاجت كے ایك شہر كے تمام مساجد میں جمعہ كے جواز كا خیال منكر امر ہے (فتاوی السبكی:۱/ ۱۸۰) ۔ یہ تو ایك شہر كی مساجد میں تعدد جمعہ كے بارے میں ان كا فتوی ہے ،اس وقت گھروں میں تعدد جمعہ كے بارے میں كیا كہا جاسكتا ہے ؟ جب فقہاء ایك شہر میں بغیر ضرورت وحاجت كے تعدد جمعہ سے روكتے ہیں جبكہ مسجدوں میں جمعہ ادا ہورہا ہے ،اور لوگ بھی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں،تو ایك شہر كے گھروں میں تعدد جمعہ كیسے درست ہوگا ؟ بلكہ یہ علامہ سبكی ؒ كے قول كی بنیاد پر بدرجہ اولی بدعت ومنكر ہوگا۔نیز كیا یہ معقول بات ہوگی كہ ایك شہر میں دسیوں بسیوں جمعہ قائم ہو ؟پھر تو جمعہ كا مطلب كیا باقی رہے گا۔
۶ – جب ایك حكم كے دو پہلو ہوں تو جو حالات كے اعتبار سے آسان اوراخف ہو ، اس پر فتوی دینا چاہئیے ؛ تاكہ لوگ دین سے متنفر نہ ہو سكیں اور دین پر عمل كو بوجھ نہ سمجھیں ،كیونكہ آپ ﷺ نے حضرات صحابہ كرام ؓ سے فرمایا : “ لوگوں كو خوشخبری سناؤ ، ان كو دین سے دور مت كرو، لوگوں كےلئے آسانیاں پیدا كرو تنگی وسختی پیدا مت كرو(مسلم،جهاد، باب الامر بالتبشیر وترك التنفیر، حدیث:۴۵۲۵)، اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوموسی اشعری ؓ كو حاكم وقاضی بناكر یمن كی طرف روانہ فرماتے وقت فرمایا: «يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا»(بخاری، جهاد وسير، باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب، حديث:۳۰۳۸، مسلم، جهاد، باب الامر بالتبشیر وترك التنفیر، حدیث:۴۵۲۵)، “اس كو اختیار كرنا جس میں لوگوں كے آسانی ہو اور سختی اختیار مت كرنا ،لوگوں كو خوشخبری سناؤ(؛تاكہ وہ دین سے قریب ہوں) اور ان كو دین سے دور مت كرو(یعنی ایسی چیز كا تذكرہ مت كرہ ، جس كی وجہ سے وہ دین سے متنفر و برگشتہ ہوں اور دین سے دور بھاگیں ”۔اسی بناء پر فقہاء نے كہا: مفتی كےلئے ضروری ہے كہ فتوی میں اس پہلوكو اختیار كرے جس میں لوگوں كے لئے زیادہ سہولت اور نرمی ہو ( شرح عقود رسم المفتي،ص:۱۸۱، رد المحتار، كتاب الوقف:۶/ ۵۵۴)۔ زیر بحث مسئلہ میں لوگوں كےلئے جمعہ كے دن نماز ظہر پڑھنے میں آسانی ہے ، اس میں حسب سہولت جماعت سے اور بغیر جماعت كے انفرادی طور پر بھی پڑھنے كی گنجائش ہے ، اس میں لوگوں میں جماعت قائم كرنے كے لئے اعلان كی ضرورت نہیں ہے، گھر كے ہی افراد مر د وعورت مل كر جماعت كرلے سكتے ہیں اور چاہیں تو تنہا تنہا اپنےطور بھی نماز پڑھ لے سكتے ہیں، پولیس كی لاٹھی اور ایف آئی آر سے بچا جاسكتا ہے ۔
۷ – اس وقت ہندوستان اور اس جیسے غیرمسلم جمہوری ممالك كا ماحول اسلام اور مسلم مخالف ماحول ہے ، اس میں كسی مسلمان كی طرف سے ادنی لغزش آتش فشاں پہاڑ بن كر پھٹ پڑتی ہے اور وہ ایٹم بم سے كچھ كم نہیں فضا كو پراگندہ اور اسلام اور مسلمانوں كے خلاف نفرت كو ہوا دیتی ہے ، جس كی و اضح اور تازہ ترین مثال تبلیغی جماعت كا مركز نظام الدین ہمارے سامنے ہے ،ایسے میں مساجد كے علاوہ گھروں اور دوسری جگہوں میں جمعہ قائم كرنے كا فتوی دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے ؛ كیونكہ اس سے حكومت اور دوسروں تك غلط پیغام جائےگا كہ مسلمانوں كو جس مقصد سے مسجد میں جمع ہونے سے روكا گیاس، وہ مقصد حاصل نہیں ہورہا ہے ؛ اس لئے كہ یہ لوگ گھروں اور دوسروں جگہوں پر جمع ہوكر كورونا وائرس كو پھیلا رہے ہیں، مسلمان بڑ ی ضدی قانون شكن اور اجڈ قوم ہوتے ہیں،گویا اس وقت زخم پر نمك چھڑكنے كے مترادف ہوگا، اور ایسا ہورہا ہے كہ گھروں میں جمعہ قائم كرنے كے فتوی پر عمل كرتے ہوئے لوگ گھروں كی چھتوں پر ، بڑے ہال میں یا اسكول میں اور اسی طرح دوسری جگہوں پر جمعہ قائم كر رہے ہیں ، پولیس كئی جگہوں پر چھاپہ مار كركتنے لوگوں كے خلاف مقدم درج كرچكی ہیں ، كتنوں كوگرفتار كرچكی ہیں اور لاٹھی سے پیٹائی بھی كرچكی ہے ۔
Comments are closed.