امت مسلمہ اور عالمی طاقتیں

مولانا احمد حسین قاسمی
معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
پوری دنیا میں مسلمانوں کی خانہ جنگی اپنی جگہ ہے ، اس کے علاوہ دشمن طاقتیں بھی خارجی طور پر ان کے خلاف محاذ آرا ہیں ، جو بڑی چالاکی سے ان کو اندرون خانہ برسوں سے الجھائے ہوئی ہیں ، اسلامی یا ایرانی انقلاب اور بہار عرب بھی انہیں خارجی سازشوں کی شکار ہو گئی ، مسلمانوں کی عالمی سیاسی تنزلی کا بڑا سبب شیعہ سنی اختلاف ہے ، جس نے صدیوں سے ملت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ رکھی ہے، دوسری جانب مسلکی اختلاف نے بھی اس ملت کے شیرازہ کو سیاسی اور فکری طور پر یکجا ہو نے سے دور رکھا ، جس کا منفی اثر اس امت کے خارجی اثر و رسوخ پر پڑا اور عالمی تناظر میں ملت اپنی زندگی کے بڑے اجتماعی فیصلے لینے سے محروم رہی ، خلافت راشدہ کے بعد داخلی و خارجی مختلف عوامل و اسباب کے تسلسل نے اس خیر امت کو اس کے آفاقی مقصد کی حصولیابی سے تشنہ رکھا ، تاہم امت اپنے وجود کی بقاء کی ساری جنگیں متواتر جیتتی چلی گئی اور صلیبی طاقتوں اور تاتاریوں کی عالم گیر یورش اور بے دریغ قتل عام نے بھی اس کے وجود کا بال بیکا نہ کیا مگر آزمائش کے اس دور میں اس کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اس کی جہانبانی و حکمرانی کے حوصلے مدتوں کے لیے پست ہو گئے۔ عروج و زوال قوموں کی زندگی میں ضرور آتے ہیں ، ’’و تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘(اور حکمرانی و فتح و کامرانی کے یہ دن ہم انسانوں میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں)
ایک طرف امت کی چودہ صدیوں پر محیط قومی و تہذیبی زندگی کا تحفظ عظیم کارنامہ اور خدا کی قدرت ہے تو دوسری طرف اتنے طویل عرصے میں عالمی قیادت و سیاست سے بے دخلی عبرت کا تازیانہ اور خداکی سنت ہے ، جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ استثنائی صورتیں کبھی اعداد وشمار میں نہیں آتیں ، صحیح بات یہ ہے کہ خلافت بنو عباسیہ سے لے کر خلافت عثمانیہ تک کی طویل مد ت میں اکا دکا واقعہ کو چھوڑ کر صلیبی دشمنوں نے بغداد سے اندلس تک ملت اسلامیہ کا کامیاب تعاقب کیا ہے ، اور آج بھی عرب اور ملک شام سے اٹھنے والے دھوؤں میں صلیبی تصویر صاف صاف نظر آرہی ہے ، آج دنیا کے بڑے رقبے پر فقط ان کی حکمرانی نہیں بلکہ رائج الوقت سکہ اور تہذیب بھی اسی کی ہے ، جسمیں یہودی مصالحت کی طاقت Men Powerکا کام کر رہی ہے ،دوسری جانب سیکولرز م کی مروجہ تہذیب بھی انہیں صلیبیوں کے تعیش پسندانہ تمدن کا حصہ ہے، جو آج عملی دنیا میں اسلامی تہذیب کا سب سے طاقتور مد مقابل اور حریف ہے ، جس نے مسیحیت سے زیادہ مسلمانوں کی فکر و تہذیب کو برباد کیا ہے ۔سیکولرزم کی تعریف میں گرچہ محققین کے یہاں کافی پیچیدگیاں ہیں ، تاہم عیسائی اہل نظر کی تحریروں سے ایسی وضاحت سامنے آتی ہے کہ ان عیسائیوںنے بڑی فریب کاری سے کام لیا ہے اور اسلام کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی ایسی چالیں چلی ہیں، کہ جن کا ادراک کرنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے ، ا س بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور مسلمان دنیا کے تمام بر اعظموں میں بستے ہیں ، جن کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے ، مگر اس کا جائزہ لینا بھی از حد ضروری ہے کہ وہ تہذیبوں پر اثر انداز ہیں یا تہذیبیں ان پر اثر انداز ہیں ، دوسری قومیں ان کی پیروی کرتی ہیں یا یہ دوسری قوموں کی پیروی کرتے ہیں ، در اصل یہی پیمانہ اور ترازو ہے قوموں کے عروج و زوال کا پتہ معلوم کرنے کے لیے، جو قوم عروج پر ہوتی ہے ، اس کی تہذیبی قدریں دیگر تمام اقوام میں مشترک نظر آتی ہیں ، وہی اقدار اس وقت کی رائج تہذیبوں کی بنیاد تسلیم کی جاتی ہیں پھر اس تہذیب سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہوتا ، لوگ اس تہذیب کے مالک سے بے حد متاثر ہو تے ہیں، انہیں ہر شعبہ میں اپنے اوپر فوقیت دیتے ہیں اور ان کی تہذیب گھر ، راستہ ، بازار ، شہر، ریاست، ملک اور دنیا کی ٹکسالی تہذیبوں میں چلتی پھرتی ، دوڑتی بھاگتی زندہ دکھائی دیتی ہے ۔نتیجۃً دیگر قومیں ان سے مرعوب ہو کر رفتہ رفتہ اپنی ثقافت کھو بیٹھتی ہیں اور اس طرح فکر و تہذیب کا عروج و زوال دنیا میں جاری رہتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام کے متوالے آج جس مغربی تہذیب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں مدتوں پہلے وہی اہل مغرب زندگی کی تاریکیوں میں تھے ، اور مسلمانوں کی بستیاں قمقموں سے روشن تھیں ، اور اس وقت معاملہ بالکل بر عکس تھا، بارہویں صدی میں مسلمان ایک زندہ اور روشن تہذیب کے حامل تھے ، وہ زندگی کے تمام شعبوں میں بالا دستی رکھتے تھے ، مغرب و مشرق کے لیے ایک آئیڈیل اور نمونہ سمجھے جاتے تھے ، اور یہ دنیا ان کے تمدن کی پیروی کرنے کے لیے مجبور تھی ، اخلاق و معاشرت سے لے کر تہذیب و تعلیم اور معیشت و سیاست تک حتی کہ مروجہ علوم کا ذریعہ تعلیم بھی انہیں کی عربی زبان تھی ، اسے سیکھے بغیر کوئی یوروپین صاحب علم تصور نہیں کیا جا تا تھا ، ہر جگہ ، ہر مقام پر مسلمانوں کے چلن کا رواج تھا ، اسکول ،کالج اور یونیورسٹی بھی مسلمانوں کے طرز تعلیم پر قائم کی گئی ، فن تعمیر ، خوردو نوش، لباس، پہننا اوڑھنا اور زندگی کی تقریبات کے طور طریقے بھی مسلمانوں کی تہذیب سے مستعار لیے گیے تھے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب مسلمان افریقہ اور یورپ کی دہلیز پر اپنی فتح و کامرانی کی دستک دے رہے تھے ، اس وقت ان سے زیادہ مستحکم طاقت روئے زمین پر کوئی نہیں تھی ، روم و فارس کے سپر پاور عالمی حکمرانوں نے بھی ان کے آگے سپر ڈال دی تھی ، مگر اسی کے ساتھ مسیحی دنیا بیدار ہو چکی تھی اور اپنی طاقتوں کو منظم کرنا شروع کر دیا تھا ، اور اس نے عالمی سطح پر ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جس پر پوری حکمت عملی کے ساتھ اسلامی ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے میدان میں اتر آئی اور سیاسی جد وجہدمیں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، سلطان صلاح الدین ایوبی کا عظیم کارنامہ ’’بیت المقدس کی بازیابی‘‘ بھی اپنے دامن میں اسلام اور مسیحیت کی کشمکش کا بہترین تاریخی دستاویز سمیٹے ہوئے ہے ۔اگر ہم بیت المقدس اور یروشلم کو موجودہ متحارب تہذیبوں کے عروج و زوال کا متحدہ نقطہ اور علامت قرار دیں تو ماضی کی بہترین تاریخی وضاحت سامنے آئے گی ، اور اس کے نتیجے میں دنیا کی تین بڑی مذہبی اور تہذیبی طاقتوں کی عالمی اورصحیح سیاسی پوزیشن بھی نظر آئے گی اور اس کے پس منظر میں اسلام مخالف مسیحی و صیہونی سازشیں بھی آشکارا ہوں گی ۔
سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ کون سے اسباب و عوام تھے جن کی بدولت امت مسلمہ اپنے ابتدائی دور میں عالمی قیادت کا فریضہ انجام دے رہی تھی اور جن کے چھوڑنے سے آج بین الاقوامی سطح پر حاشیہ پر چلی گئی اور اب اس کا کوئی وزن نہیں ہے اور عالمی طاقتوں میں شمولیت سے محروم ہے ، اور دنیا کے تما م اہم فیصلے اس کی موجودگی کے بغیر ہو سکتے ہیں ، عرب لیگ اور دیگر عالمی مسلم تنظیموں کی حیثیت عالمی برادری پر خوب واضح ہے ۔ امت کی موجودہ کرب ناکیوں کا یہ طویل سلسلہ اب ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام پر رکے گا یا ان سے قبل عالمی سطح پر ملت کا منتشر شیرازہ پھر عالمی قیادت کے لیے متحد ہو گا ؟ اسباب و وسائل کی دنیا میں یہ دونوں صورتیں ممکن ہیں ۔ مگر ملک شام کی تباہی سے اول الذکر کا امکان غالب نظر آرہا ہے ، اگر امت کے اتحاد و تنظیم کا فرد سے لے کر جماعت تک ، خاندان سے لے کر ریاست تک اور ریاستوں سے لے کر عالمی پیمانے تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو اس کی عالمی قوت بننے کابظاہر امکان معدوم ہے ، مگر اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ، تاہم اللہ کی سنت بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ،جس میں تبدیلی نہیں ہو تی ، جو قوم بحیثیت قوم دیگر عالمی اقوام کے مقابلہ میں اپنی تعلیم و تربیت ، تہذیب و تمدن ، اخلاق و معاشرت ، معیشت و سیاست اور تمام شعبہ ہائے حیات میں ایک مضبوط و مستحکم نظام رکھتی ہو اور کردار کی دنیا میں دور دور تک اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو ، اسے ہمیشہ قدرت قیادتوں سے نوازتی رہی ہے اور دنیا کے بناؤ اور بگاڑ میںخداوند کریم کا یہی اصول کار فرما ہے کہ جس قوم کے ہاتھوں میں عملی طور پر انسانیت نوازی کے نسخے ، اخلاق و سیرت، اعمال و کردار ، ضروریات زندگی کی تکمیل ، ترقی کی نئی شاہ راہیں ، انسانی زندگی کے نوع بہ نوع تقاضوں کو پورا کرنے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کے حوصلے ہوتے ہیں ، دنیا کا مالک اپنے گلستان عالم کی نگہبانی کے لیے اسی کو منتخب کرتا ہے۔
اگر دیکھا جا ئے تو اس ملت کے پاس حکمرانی اور قیادت کے مذکورہ بالا نسخے جتنی وافر مقدار میں اور صحیح شکلوں میں گزشتہ ساڑھے چودہ صدیوں سے موجود ہیں ، اقوام عالم کے دامن اس سے خالی ہیں ، مگر وہ کیا وجوہات ہیں جن کے سبب چند صدیوں کے بعد پھر یہ تنزلی کی شکار ہو گئی اور وہ عالمی طاقت جس نے جزیرۃ العرب سے نکل کربہت کم مدت میں ایشیا کے قلب و جگر پر فتح کا پرچم نصب کیا اور خدائے برتر کا عظیم پیغام لے کر افریقہ و یورپ میں شاہانہ داخل ہو گئی ، مگر اس کے بعد پھر اس کے بڑھتے قدم رک گئے ، پھر ایک مدت تک پا بہ زنجیر ہو کر زندگی گذاری اور دیکھتے دیکھتے اس کی سلطنتوں کا سقوط شروع ہو گیا ، اور تاریخ نے ایک انقلابی کروٹ لی تو حاکم قوم محکوم اور محکوم قوم حاکم بن گئی ۔ اے کاش! امت اپنی اس سیاسی ہزیمت کا بر وقت ادراک کر لیتی اور اپنے حسن کردار سے لیس ہو کر پھر عالم کی قیادت کے لیے کھڑی ہو جاتی ، تو آج نحوست پس و پیش نہیں منڈلاتی۔
سقوط اندلس کوئی معمولی شکست نہیں تھی ، اس واقعہ نے اسلام اور عیسائیت کے مستقبل کے خدو خال واضح کر دیے تھے ، جو بالآخر دو تہذیبوں کی کشمکش کا فیصلہ کن معرکہ ثابت ہو ا، در اصل رہی سہی اسلامی خلافت کا مردہ جسم جسے شاہان عرب و عجم اٹھائے پھر رہے تھے، اس کی روح تو عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات پر عملاً نکل چکی تھی ، تا ہم امت کی اجتماعی تسلی کے لیے خلافت عثمانیہ کی لفظی تعبیر بھی کچھ کم نہ تھی ، مگر سیدھی سادہ امت مسلمہ اور اس کے عیش پسند حکمراں یہودی اور عیسائی چالوں کا بر وقت ادراک نہ کر سکے اور نوبت صنعتی انقلاب اور پہلی و دوسری جنگ عظیم تک پہونچ گئی ، اور نتیجتاً اسلام دشمن قوتوں نے بکھری ہوئی طاقتوں کو اپنا حلیف بنا کر بڑی حکمت عملی سے اسلام کے عالمی سیاسی نظام کا خاتمہ کر دیا۔اس کے بعد دنیا کی بڑی طاقتوں نے ایک لانبے ہوم ورک کے بعد ایک ایسے بین الاقوامی سیاسی نظام کا آغاز کیا جس میں اسلامی نظام سیاست کو دانستہ طور پر ہمیشہ کے لیے کنارے کر دیا گیا ، بڑی دانشمندی اور طویل منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا کا سیاسی ڈھانچہ تیار کیا گیا ، ا س کے تحفظات کے لیے مختلف عنوان کی عالمی مجلسیں قائم کی گئیں ، بین الممالک رابطے کے نئے اصول اور ضابطے متعین کیے گئے اور حقوق انسانی کی نئی تشریحات بیان کی گئیں، اقوام عالم اور عالمی برادری کو سیاسی اور جغرافیائی طور پر مربوط رکھنے کے نئے نئے قواعد وضع کیے گئے،اور یہ سب ایک خاص پس منظر میں ترتیب پایا ، اس لیے کہ ایک جانب اگر بعض ممالک کی ظالمانہ قوتوں سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان سامنے تھا تو دوسری جانب لیڈ کرنے والی اہم طاقتوں کے سامنے اسلامی تہذیب و سیاست کا شاندار ماضی بھی ان کے مستقبل کے لیے خطرے کا باعث تھا ، جسے انہوں نے پورے شعور کے ساتھ ختم کرنے کی پوری کوشش کی ، اس طرح آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی عیسوی تک ایک عظیم کشمکش کے ساتھ ایک آفاقی امت کا حاشیہ پر آجانا اور عیسائی و صیہونی طاقتوں کا ان کے حلیف ممالک کے حکیمانہ تعاون سے عالمی سیاست کے مرکز پر قابض ہو جانا تاریخ عالم کا مرکزی موضوع ہے ، جسے امت کے زندہ لوگوں کو ہمیشہ اپنے غور و فکر کے میز پر رکھنا چاہئے ۔شاید کہ عالمی طاقتوں نے ایک عظیم مقصد اور ہدف کے لیے جب عالم پر اقدامی سیاست کا آغاز کیا تھا، تو اس وقت پوری ملت اسلامیہ مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب خواب غفلت میں تھی ، اور اس کے خاکستر میں کوئی ایسا مطلوب شرارہ موجود نہیں تھا جو بر وقت ان کے تعمیر ہونے والے خرمن کو جلا دیتا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امت ربانی نعمتوں سے مالا مال ہے ،ا سکے پاس دینے کے لیے جو آسمانی تحفے ہیں ، دنیا کی طاقتیں ان سے محروم ہیں ، یہ دینے کے لیے ہی منتخب کی گئی ہے ، اس کا اساسی اور بنیادی فرض منصبی دعوت دین، غلبۂ دین، اظہار دین اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ، جس سے عالمی سیاست میں ہمارا اہم رول ہو سکتا تھا، اس لحاظ سے یہ اقدامی امت ہے ، بہ حیثیت امت جب تک ہم اس فریضے کی ادائیگی کے لیے تیار رہے عالمی طاقت بنے رہے ، اور جوں جوں اس کا شعور کم ہوتا چلا گیا ، پستی ، ہزیمت و ناکامی ہمارا مقدر بنتی چلی گئی ۔ غالباً اس اسلامی رکن رکین کے علاوہ دیگر ارکان ایمان و اسلام اور عبادات پرتو توجہ رہی مگر من حیث الامۃ اجتماعی طور پر جس صدی سے ہم اپنے اظہار دین کے فریضے سے غافل ہوئے ، دنیا نے ہماری نفی کر دی اور فقط اپنے وجود کی جنگ لڑنے والی قوم بن کر رہ گئے ۔
Comments are closed.