کورونا کی آڑ میں تبلیغی جماعت کی کردار کشی

مولانا محمد ثناء اللہ غالبؔ
’’میں ۔۔۔۔۔آپ سے مخاطب ہوں، ہم ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے تحریری اجازت نامہ لے کر راولپنڈی سے کراچی کے لئے نکلے تھے،میانوالی کے حدود میں داخل ہوئے تو پولیس نے روک لیا، تحریری اجازت نامہ دکھانے کے باوجود تین دن سے میانوالی بھکر کے حدود میں پولیس ہمیں گھما رہی ہے۔ بدتمیزی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘یہ ایک دوسر ا منظر ہے جس میں پولیس کی تحویل میں تین تبلیغی کارکن دست بہ زنجیر ہیں۔اور یہ ایک تیسرا منظر ہے”ناظرین! آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہیں،جہاں ارد گرد جنگل اور ویرانہ ہے۔اور چیک پوسٹ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ” باقی سب کو گزرنے کی اجازت ہے،لیکن تبلیغی جماعت کو کسی صورت آگے جانے کی جازت نہیں دی جا سکتی، جماعت واپس جائے، جب ہم واپس جاتے ہیں تو پچھلی چیک پوسٹ کے اہلکار ہمیں واپس جانے بھی نہیں دے رہے۔ ہمارا کوئی اور قصور نہیں،سوائے اس کے کہ ہم اللہ کی راہ میں نکلے تھے” سوشل میڈیا پر موجود یہ تین تصویریں ملک کے مختلف علاقوں میں تبلیغی وفود کے ساتھ انتظامیہ کے ’’ حسنِ سلوک‘‘کے چند مناظر ہیں۔
آپ اگر پاکستان کا منظر نامہ دیکھیں تو دو چیزیں نمایاں نظر آئیں گی، ایک کورونا ۔دوسرا تبلیغی وفود اور تبلیغی مراکز کی جانچ پڑتال ۔اور اس ضمن میں مراکز اور مساجد کا سیل کر دیا جانا نیز تبلیغی وفود سے ملنے والوں کی جانچ پڑتال۔پاکستان کے بائیس کروڑ سے زیادہ نفوس میں سے صرف تبلیغی جماعت میں نکلنے والوں میں کورونا کی جانچ پڑتال، مراکز کا گھیراو ، تبلیغی وفود پر آمد و رفت کی پابندی۔ اس طریقہ واردات سے ایک نیا خدشہ جنم لے رہا ہے۔خدشہ کیوں پیدا ہوا؟اس کو جاننے کے لئے تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔ایٹمی پروگرام ، پاک آرمی ، مدارس ، تبلیغی جماعت پاکستان کی شناخت، ساکھ اور اثاثہ تو ہے ہی سا رے عالم اسلام کے لئے بھی باعث فخر ہیں۔اس لئے ان کو بے توقیر کرنے کے لئے مختلف اوقات میں کبھی بین السطور اور کبھی کھلے لفظوں میں مہم چلائی گئی۔ اور اس منفی پروپیگنڈے کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے سوچ سمجھ کر وقت اور نعرے کا انتخاب کیا گیا۔مثلا دیکھیئے ! پہلے دن سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔مگر پاکستان کے ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد تو اس کے خلاف ایک بھونچال کھڑا ہوگیا۔اور یہاں بھی انسان "دوست ” دانشور” عوام کو ایٹم بم نہیں روٹی چاہیئے ” جیسے نعروں کو لے کر میدان میں آگئے اور یہ لال بھجکڑ اعداد و شمار کے رجسٹر کھول کر بتانے لگے کہ ایٹمی دھماکے سے پاکستان کی معیشت کتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوئی تا کہ عوام بھی باور کر لیں کہ واقعتا ایٹمی پروگرام پاکستان کی معیشت و اقتصاد پر ایک بوجھ ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو بنایا گیا۔اس مسئلے کو لے کر پہلے تو پاک آرمی کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش ہوئی۔”دہشتگردوں کی سرپرست وغیرہ جیسےنعرے اسی مہم کا حصہ تھے۔ اور پھر ان ستمگروں نے پاک آرمی پر ایک ایسا اوچھا وار کیا ،اگر یہ وار کامیاب ہوجاتا تو پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی، وہ یہ کہ پاکستان کی ،جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر ہے ، آرمی کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔اور آخر میں دہشتگردی کے نعرے کی آڑ لے کر مدارس پر دھاوا بولا گیا۔ مدارس کو دہشتگردی کی نرسریاں کہا گیا۔علماء کرام کو دہشت گرد کی "گالی” تک دی گئی۔مدارس کے کردار کو محدود کرتے ہوئے بیرونی ممالک سے آنے والے شائقین علم پر پابندی عائد کی گئی۔اس پس منظر میں تبلیغی جماعت پر کورونا کے پھیلانے کے الزام کی نوعیت اور اس کے وقت کو دیکھا جائے تو اس کے تانے ، بانے بھی کہیں اور نظر آتے ہیں۔کیوں کہ ایک ایسے وقت میں کہ کورونا نے سارے عالم کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے اور ابن ِ آدم اپنے سایہ سے بھی ڈر رہا ہے،ایسے میں کسی بھی شخص اور جماعت پر کورونا کے مرض کے پھیلانے کا الزام اس کو قانون شکن ، ہٹ دھرم او رکورونا کے حوالے سے احتیاطی اقدامات کو چیلنج کر کے انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بننے کا تاثر نہیں پیدا کرتا؟ پھر تبلیغی جماعت جس کا نیٹ ورک تقریبا سارے عالم پر محیط ہے اور سال کے بارہ مہینے ، مہینے کے تیس د ن اور ہفتے کےسات دن کہیں نہ کہیں تبلیغی وفود کی آمد ورفت کے باوجود یورپ وامریکہ سمیت کسی بھی ملک میں منصفانہ طور پر تبلیغی وفود کے خلاف ملکی قوانین توڑنے کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، کیوں کہ مرکز سے تبلیغی وفود کو متعلقہ ملک کے قوانین کی پابندی کی تاکیدی ہدایات دی جاتی ہیں۔اسی مسئلہ کو لے لیجیے ! سرکاری سطح پر کورونا کو وبائی مرض قرار دینے کے بعد رائیونڈ سے ملک بھر میں پھیلے ہوئے تبلیغی وفود کو ہدایات دی گئیں کہ حکومتی اداروں سے تعاون کریں ، جماعتیں جہاں ہیں،وہیں رک جائیں، گشت ،ملاقاتیں کریں ،نہ لوگوں کو اکھٹا کریں۔ رائیونڈ کی ہدایات کے مطابق مقامی مراکز اور تبلیغی وفود مکمل غیر فعال ہوگئے تھے، اور کسی تبلیغی وفد نے طبی جانچ پڑتال سے انکار نہیں کیا۔ا س حقیقت کے باوجود ہندوستان میں تو انتہا پسندانہ ہندو حکومت کا تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز پر پولیس کا دھاوا اور تبلیغی ارکان کی گرفتاریاں کی تو سمجھ آتی ہے مگر ارض ِ پاک میں تبلیغی جماعت کی کردار کشی ،تبلیغی مراکز میں کورونا کے مریضوں کی آ ڑ میں پولیس کا وہاں موجود لوگوں اور لاک ڈاون کی وجہ سے مختلف شہروں میں رکے ہوئے تبلیغی وفود پر تشدد اور بزور تبلیغی ارکان میں کورونا وائرس کو ثابت کرنا، یہ سب کچھ کیا ثابت کرتا ہے؟ ہاں یاد آیا کہ رائیونڈ کے گزشتہ ماہ کے اجتماع کے شرکاء کو بھی کورونا کے پھیلاو کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کی بھیڑ سے جب یہ مرض پھیلتا ہے تو پی ایس ایل کے میچ جو ایک ماہ تک مختلف شہروں میں ہوتے رہے اور اس کا آخری میچ 16مارچ کو کراچی میں ہوا۔ تو ان میچوں کے شائقین سے کورونا کیوں نہیں پھیلا؟ جب کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں فروری کے آخری عشرہ میں کورونا کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تھی۔ہم کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں اور نہ اس کی تردید کر رہے ہیں کہ کسی بھی سطح پر تبلیغی وفد سے کورونا پھیلا ہے، صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بلا استثناء تبلیغی نیٹ ورک پر ایسا سنگین الزام عائد نہ کیا جائے۔ حکومت کو اس بات کا دراک کرنا ہوگا کہ تبلیغی جماعت کے اکابرین کا مزاج شکوہ شکایت کا نہیں لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تبلیغی جماعت کی کردار کشی کی مہم کو بند کرائے اور ملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاون کی وجہ سے پھنسے ہوئے تبلیغی وفود کے ساتھ سرکاری اہلکاروں کے رویے کی تحقیقات کراکر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے نیز ان تبلیغی وفود کو ان کے گھروں تک پہنچانیں اور سوڈان سمیت دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے تمام پاکستانیوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔ حکومت یاد رکھے کہ اس نے بیمار ذہنیت کے سرکاری اہلکاروں کے رویے کو اگر درست نہ کیا تو یہ غلطیاں حکومت کے گلے کا ہار بن جائیں گی جیسے پاکستانیوں کی ڈالروں کی عوض فروخت ،مساجد کاانہدام جیسے اقدامات پرویز مشرف کی فردِ جرم کا حصہ بن گئے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان آئے ہوئے تبلیغی وفود سے اہانت آمیز سلوک پاکستان کے تشخص کے لئے کوئی نیک فال نہیں ۔ جب کہ اسی تشخص کے لئے ہم بیرون ممالک کے تیسرے درجے کے کرکٹ کھلاڑیوں کی منت ترلے کر کے ہزاروں ڈالر دے کر انہیں پاکستان لا رہے ہیں۔ یہ تو خدا ہی جانے شاہانہ مہمانداری میں گھومنے اور کھیلنے والے یہ کھلاڑی پاکستا ن کا کیا تشخص نمایاں کریں گے ؟ پر ایک محتاط اندازے کے مطابق تبلیغ کی محنت کو سیکھنے کے لئے اطراف عالم سے اپنے خرچ پر پاکستان آنے والے سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد پاکستانیو ں کے ممنونِ احسان بن کر لوٹتے ہیں۔اور یہی لوگ دنیا میں پاکستان کے بلاتنخواہ سفیر بنتے ہیں ۔ وزاتِ خارجہ سے پوچھئے کہ کتنے پاکستانی سفارتخانے ہیں کہ ان کی رونق صرف پاکستان آنے والے تبلیغی وفود کے دم، قدم سے ہے۔ مولانا زاہد الراشدی ، مولانا فضل الرحمن اور چوہدری برادران نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے آواز اٹھا کر پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔محبِ وطن صحافیوں سمیت دیگر حلقوں کو بھی حکومت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے۔

Comments are closed.