۔۔۔چل اُڑجا رے پنچھی کہ اب یہ راجیہ ہوا بیگانہ

عروسہ عرشی(کلکتہ)
جی ہاں! ملک کی مختلف ریاستوں میں تقریباً 45؍ لاکھ ان دہاڑی مزدوروں کی ہم بات کررہے ہیں جو اپنے بچوں کی پرورش، ان کی تعلیم کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں کچھ رقم کمانے گئے تھے۔ ان دہاڑی مزدوروں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جب مصیبت کی گھڑی آئے گی تو خود بھی ایک وقت کی روٹی کے لئے ترس جائیںگے۔ جن دہاڑی مزدوروں نے اپنی محنت، لگن اور پسینے سے ان ریاستوں کو ترقی یافتہ بنایا آج وہاں کی حکومت، صنعت کار اور وہاں کے عوام نے کورونا وائرس سے آئی مصیبت کی گھڑی میں ان دہاڑی مزدوروں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بڑے بڑے لوگوں کے یہاں کم اجرت میں بھی انہوں کام کیا اور ریاست کو ترقی دینے میں اہم کردار نبھایا۔ لیکن کورونا کے درمیان لاک ڈائون میں ان کی خبر تک لینے والا کوئی نہیں ہے۔ دیکھنے کے لئے ریاست کی حکومتوں نے کھانے کا تو ضرور نظم کیا مگر ایک وقت کا کھانا لینے کے لئے اُن دہاڑی مزدوروں کو گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے تب ایک وقت کا کھانا مل پاتا ہے۔ اب دہاڑی مزدور اپنے گھروں کو لوٹنا ہی ضروری سمجھ رہا ہے تاکہ مصیبت کی گھڑی میں اپنے گھر اور بچوں کے ساتھ رہیںگے۔ مرکز اور ریاستی حکومت دعویٰ ضرور کررہی ہے کہ کسی بھی دہاڑی مزدور کو بھوکا نہیں رہنے دیا جائے گا۔ امدادی رقم بھیجی گئی اور بھیجی جارہی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ ان دہاڑی مزدوروں کے پاس امدادی رقم نہیں پہنچ پارہی ہے۔ کیوںکہ دہاڑی مزدوروں کا بینک میں اکائونٹ ہی نہیں پھر ایسے افراد کو امدادی رقم کیسے پہنچ سکے گی؟ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر اور گجرات میں دہاڑی مزدور اپنے گائوں جانے کے لئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ اس پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ اگر وہ مزدور اپنے گھر آنا چاہتے ہیں تو اس ریاست پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے مزدوروں کو اپنی ریاست میں لانے کے انتظامات کرے۔ کیوںکہ مرکزی حکومت بیرون ممالک رہنے والے اپنے ملک کے شہریوں کو جہاز سے اپنے ملک لاسکتی ہے تو پھر ریاستی حکومت اپنے مزدوروں کو گاڑیوں کا انتظام کر کیوں نہیں لاسکتی ہے؟ ریاستی حکومتیں ان مزدوروں کو اپنی ریاست میں لائے، ان کی جانچ کرے اور پھر انہیں اپنے اپنے گھر بھیجنے کے انتظامات کرے۔ کورونا وائرس نے ثابت کردیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاری مغربی بنگال،بہار، یوپی اور مدھیہ پردیش میں ہے۔ کیوںکہ مہاراشٹر، گجرات اور دہلی کی سڑکوں پر اپنے اپنے گائوں جانے کے لئے متذکرہ ریاستوں کے ہی زیادہ تر مزدور تھے۔اس ایسا لگتا ہے کہ سرکار غرینوں کو بچانے کے بجائے اسے ختم کرنا چاہتی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے کیوں نہیں اپنے اپنے ریاستوں میں لانے کا انتظام کر رہی ہے۔ ہم ان امیر لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مصیبت کی گھری میں ان غریب و مزدوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے آس پاس میں رہ رہے غریب و مزدور کو جہاں تک ہو سکے مدد کریں۔ سچائی یہ ہے کہ ملک کی ترقی میں انہی دہاڑی مزدوروں کی قربانیاں شامل ہیں اور کورونا مہاماری کے دوران بھی فاقہ رہ کر مزدور اپنی قربانی دے رہا ہے۔
Comments are closed.