خدا کیلئے ضمیر کا سودا نہ کریں

از قلم :- محمد امجد علی ، ڈائریکٹر آف امجد کلاسیز
ایک ایسا بھی وقت تھا جب لوگ کہتے تھے کہ نیکی کر دریا میں ڈال اور آج ایک ایسا بھی وقت ہے جہاں لوگ کہتے ہیں کہ کچھ بھی کر سوشل میڈیا میں ڈال ۔ قارئین حضرات اگر آپ ان دو تضادی جملوں پر غور و فکر کرینگے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف دو جملے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بیش قیمتی اسباق بھی پوشیدہ ہے ۔ آج کل ہمارے معاشرہ میں بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ایک فیشن بنتا جا رہا ہے کہ کہیں پر بھی کوئی پروگرام ہو یا پھرناگہانی حادثات درپیش آئیں تو فوراً اس کا فوٹو کھینچ کر یا ویڈیوز بنا کر لوگ بغیر سوچے سمجھے لامحدود طور پر وائرل کر تے چلے جاتے ہیں جبکہ قبل ازیں ایسی کوئی تکنیک نہ تو ایجاد ہوئی تھی اور نہ ہی ابنائے آدم کے خیالات ایسے تھے۔ بعض اوقات ایسے بھی حیران کن واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی عوام کے درمیان یا اپنوں تک یہ خبر پہونچتی ہیکہ فلاں جگہ فلاں حادثہ پیش آیا ہے۔ واقعتا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہم اتنے ترقی کرنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہونے کے بجائے سوشل میڈیا یا موبائل کے ذریعہ تاثرات کے دو بول لکھ کر بھیج دینے کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہے۔ خیر مزکورہ باتیں حالیہ کورونا وائرس نامی مہلک وبا کے پس منظر میں ہیں جس نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو اپنے زد میں لے لیا ہے۔ یہ جو وبا ہے در اصل اللہ کا قہر ہے جبکہ اللہ رب العزت کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت کا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے گناہ درگناہ کرتے رہیں وہ تب بھی انہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی چاہے تو بندوں کے گناہ پر فورا سزا دے دے مگر اسکا ڈھیل دینا بھی اس کی رحمت کا ہی نتیجہ ہے۔ یہاں غور و خوض کرنے کی بات ہیکہ اللہ تعالی کو رحم کرنے کے بجائے غصہ کب اور کیوں کر آتا ہے تو قرآن و حدیث کے مطالعہ کرنے کے بعد چند ایسی صورتیں سامنے آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہیکہ اللہ کی پکڑ کب ہوتی ہے ۔ جی ہاں تو شرک کے علاوہ بھی متعدد وجوہات ہیں جب اللہ کی پکڑ آتی ہے۔ اس میں سے ایک جو آجکل کافی مقبول و معروف ہے وہ ہے فحاشی و عریانی ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ معاشرہ نیست ونابود کر دیا جاتا ہے جہاں فحاشی و عریانی پھیل جائے کیونکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو پاکیزہ ماحول فراہم کرتا ہے مگر بعض اسلام دشمن عناصر اسلامی معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کا کام کر تے ہیں۔ جہاں تک میرا اندازہ ہیکہ فحاشی پھیلانے میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ فحاشی کے متعلق ارشاد گرامی ہیکہ جب کسی بھی قوم میں فحاشی علانیہ طور پر ہونے لگتی ہیں تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔ ان سب باتوں سے بالکل صاف ہے کہ حالیہ کورونا وائرس اللہ کا عذاب ہے جسکا تاہم کوئی علاج نہیں ہے پھر بھی اس کے سدباب کیلئے عالمی سطح پر جو پہل کی جارہی ہے وہ خود کو مقید کر لینا ہے اور اسی لئے تقریباً تمام ممالک کے حکمرانوں نے اپنے یہاں کے عوام کو گھروں میں محصور کر لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کرنے کے بعد ایک جانب اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے یا شرح اموات میں تخفیف کیا جا سکتا ہے تو دوسری جانب اس کے منفی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اسی ضمن میں ایسا دیکھا جارہا ہے کہ چند ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ دیں تو تمام ترقی پزیر ممالک خصوصاً ہندوستان میں اس کے خوفناک نتائج سامنے آرہے ہیں مثلاً وہ لوگ جس کی آمدنی قلیل تھی یا پھر جس کا ربط غربت سے تھا وہ آج کورونا سے کم لیکن بھوک سے زیادہ لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ ایسی بھیاوہ صورتحال میں اگر کوئی تنظیم یا پھر
صاحب ثروت حضرات بھوک کی تشنگی کو بجھانے کیلئے قدم بڑھاتے ہیں تو یہ خوش آئند پہل ہے لیکن افسوس تو اس وقت ہوتی ہے جب لینے والے ایک ہاتھ پر دینے والے دس اشتراک ہاتھ ہوتے ہیں جبکہ ہمارا مزہب یہ کہتا ہیکہ دائیں ہاتھ سے دینے پر بائیں ہاتھ کو کچھ خبر نہ ہو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔آج ہمارا معاشرہ پہلے تو اس کا فوٹو کھینچتے ہے پھر اس کو سوشل سائٹس یا دوسرے ذرائع ابلاغ سے اسکی تسہیر کردیتے ہے۔ اگر اس کا ایک پہلو ترغیب دینا ہے تاکہ دوسرے ثروتمند حضرات بھی اس پر عمل پیرا ہو سکے تو دوسرا پہلو ریاکاری بھی ہے کیونکہ ایسے حضرات کے دلوں میں اعانت کے ساتھ دیکھاوا بھی ہوتی ہے۔ اب سوال ہے کہ ضرورتمندوں کی پہچان کیسے ہو ؟ اکثر ایسے ضرورتمند ہیں جس کی پہچان کرنا مشکل نہیں کیونکہ یہ لوگ وقتاً فوقتاً عوام سے مدد کیلئے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہے لیکن اس میں بعض ایسے بھی ضرورتمند افراد ہیں جو مانگنا پسند نہیں کرتے ہے جو مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی عزت نفس کی توہین سمجھتے ہیں اسی لئے اس کی پہچان کرنا مشکل ہے ۔ بہرکیف جب یہ لوگ مجبوری کے واسطے اگر آپکے پاس آئیں یا آپ خود ان کے پاس جائے تو اللہ کا وسطہ ہیکہ فوٹو لیکر سرعام نہ کریں کیونکہ اسکی بھی اپنی غیرت ہوتی ہے ۔ویسے بھی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ لینے والے کا ہاتھ ہمیشہ نیچے رہتا ہے جبکہ دینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہوتا ہے اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا سکتے ہیکہ جب آپ اوپر ہے تو آپ بڑے ہے لیکن جو نیچے ہے وہ کمتر نہیں ہے ۔ اس کےعلاوہ ایک بات اور قابل غور ہیکہ
ثروت اور غربت دو ایسی چیزیں ہے جس میں ایک سے سماج میں عزت ملتی ہے دوسرے سے ذلت۔ آخر ہم اتنے بے حس کیوں ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمیں کسی کے زخم پر مرہم لگانے کی جگہ صرف نمک ڈالنا ہی آتا ہے۔شاید ہمیں معلوم نہیں کہ دولت یا شہرت ہمارے اختیار میں نہیں جس طر موت و زیست کا مختار وہ مالک کائنات ہے جس کے حکم کے بغیر درخت کی ایک پتی بھی نہیں ڈول سکتی ہے ۔ لہزا ابھی جو موجودہ صورتحال ہے اس میں صاحب ثروت سے گزارش ہیکہ آپ تعاون کیجئے مگر کسی کی ضمیر کو مجروح کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ بعض لوگ بے بس و لاچاری کے عالم میں ضمیر کی آواز کو ٹھکرا کر بھی ضرورت پوری ہونے کی امید رکھتے ہے ۔ آج ہم اس کڑی میں ایسے حضرات سے مخاطب ہے جو کہیں مجبوری و غربت کے سبب مانگنے جاتے ہے وہ ایک منٹ سونچ لے کہ دینے والے افراد کا منشا کیا ہے کہیں یہ بھی فوٹو کھینچنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے ہے تو ایسے لوگوں سے بچیں اور خدا کے واسطے ایسے لوگوں کے ہاتھوں اپنے ضمیر کا سودا ہر گز نہ کرے جو ایک دیکر دس فوٹو کھینچنے کی کوشش کرتے ہے۔
Comments are closed.