مسلمانوں کے لیے کورونا وباء کے درمیان رمضان ایک صبر آزماء امتحان

ابو عمار محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی
صحافی و ادیب،روزنامہ کے بی این ٹائمز،گلبرگہ
8277465374
کورونا وائرس کی عالمی وبا کا پھیلاؤ اور اس کی تباہیاں اور ہولناکیاں جاری ہیں اورکورونا وائرس کی یہ وبا ساری دنیا کے لئے ہلاکت خیز ثابت ہورہی ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ وبا ایک بڑا امتحان بن گئی ہے، کیوں کہ اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے دواس وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں نماز، روزہ شامل ہیں،اور تیسرے بنیادی ستون حج کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ایسے میں ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمد ہے،رمضان المبارک جو زیادہ تر ممالک میں اپریل کی 23تاریخ سے شروع ہونے والا ہے یہ ماہ مقدس مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس میں مساجد میں بھی عام دنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمازی دکھائی دیتے ہیں، جب کہ تراویح کے خصوصی اجتماعات بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ایسے حالات میں اس ماہ مبارک میںتراویح کا اہتمام ہونا چاہیئے اور کیا روزہ رکھا جانا چاہیے؟ا،کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تدارک کے لئے ایک طرف مختلف علماء اور مسلم رہنما تراویح کے اجتماعات سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں، یقینا یہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے کہ ہم اس سال رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت تراویح مساجد میں باجماعت پڑھنے سے محروم ہوجائیں گے، لیکن ہمیں موجودہ وقت میں بھی ممکنہ خیر کی شکل پہ عمل کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔زندگی کے تمام مسائل کی طرح بیماریوں کے متعلق بھی اسلام کی رہنمائی یہی ہے کہ قرآن کریم کی واضح تعلیمات اور صحیح حدیثوں کی پیروی کی جائے، اور اطباء اور حفظان صحت کے ماہرین کی ہدایتوں پر عمل کیا جائے، سعودی عرب، قطر، بحرین، امارات، ترکی، ملیشیا وغیرہ ممالک نے اس بیماری کی روک تھام کے لئے جہاں دوسری بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں وہیں غیر متعینہ مدت کے لئے مسجدوں کے بند کرنے کے احکام بھی جاری کئے ہیں، ان ممالک کے فقہاء اور مفتیان کرام نے متفقہ فتوی دیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں جماعت سے یا تنہا نماز پڑھیں، اور جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر ادا کریں، یورپ اور امریکہ میں بہی علماء کی ایک بڑی تعدادکی رائے یہی ہے، جس کے نتیجہ میں ان ممالک میں بہی بہت سی مسجدیں بند کردی گئی ہیں۔مسجدوں کا بند کرنا کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو لیکن اس بیماری کو روکنے کے لئے یہ ایک مؤثر ذریعہ ہے، مشرق وسطی اور مغربی ممالک کے عام علماء وفقہاء کا فتوی یہی ہے کہ عارضی طور پر مساجد بند کردی جائیں، کیونکہ مسجدوں میں آنے سے نمازیوں کے اندر اس بیماری کے پھیلنے کا اندیشہ بہت زیادہ ہے۔جن ملکوں نے ان ہدایات پر سختی سے عمل کیا ہے وہ نسبتًا محفوظ ہیں، اور جن ممالک نے ان ہدایتوں کو اہمیت نہیں دی ان ممالک میں اس وبا کا اثر بہت زیادہ ہے، اور اموات کی تعداد بہی خوفناک حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ رمضان میں روزہ فرض ہیں لیکن موجودہ وباء کی ہلاکتوں کے پیش نظر روزہ سے متعلق بعض کی رائے یہ بھی ہے کہ روزے میں مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے، جو کورونا وائرس کے خلاف زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا،ماہرین کا کہنا ہے کہ روزے کی وجہ سے جسم پر پڑنے والا بوجھ موجودہ صورت حال میں اس لیے خطرناک ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہ وائرس کے حق میں جاتا ہے، ایسے میں اس مرتبہ رمضان کے روزوں کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق روزہ صرف اس وقت رکھا جا سکتا ہے، جب وہ صحت یا زندگی کو خطرات میں نہ ڈالتا ہو۔ اسلامی احکامات کے مطابق حاملہ خواتین، بیمار اور کم زور افراد پہلے ہی روزے سے مستثنیٰ ہیں۔دوسری جانب طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ روزے میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسانی جسم ایک تناؤ کا شکار ہوتا ہے، جس کا فائدہ کورونا وائرس کو پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ تاہم موجودہ حالت میں تمام مسلمانوں کے لیے یہ استثنا ایک بالکل نئی بات ہو گی۔کورونا وائرس کے اثرات کے دنوں میں افطاربھی ایک اہم مسئلہ ہوگا، روایتی طور پر لوگ افطار میں خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ دوستوں کو بھی مدعو کرتے ہیں اور عبادات بھی ساتھ کرتے ہیں۔ اب جب کہ سماجی دوری کی ہدایات پر عمل درآمد ہو رہا ہے، یہ ناممکن بات ہے کہ افطاری روایتی انداز سے ممکن ہو گی۔پھر رمضان میں افطار فقط اہل خانہ اور دوستوں ہی تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات بڑے بڑے افطاری اجتماعات منعقد ہوتے ہیں، ابھی سے ایک ساتھ سحر اور افطار کیے جانے کے بارے میں گفتگو شروع ہو چکی ہے لیکن یاد رہے کہ اس بار ایسے تمام اجتماعات منسوخ کرنے کے پہلے ہی اعلان کیے جا چکے ہیں۔ تاہم دوسری جانب ایسے بھی ہیں، جو نماز اور تراویح کے اجتماعات اور روزوں کو کسی صورت موقوف کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بعض مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے جاری بندشوں سے بنیادی اسلامی شعار متاثر ہو رہے ہیں۔واضح رہیکہ کئی مسلم اکثریتی ممالک میں موجودہ صورت حال میں تمام طرح کے اجتماعات روک دیے گئے ہیں، جب کہ وہاں فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی پر بھی پابندی ہے اور مساجد بند کی جا چکی ہیں۔سعودی حکومت بھی مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں عمومی اجتماعات پر پابندی عائد کر چکی ہے، ایران نے بھی اعلان کیا ہیکہ ، "اس مرتبہ رمضان عوامی اجتماعات کے بغیر منایا جائے گا، اس میں نماز اور افطار دونوں طرح کے اجتماعات شامل ہیں۔”جرمنی نے بھی واضح کیا کہ اس بار رمضان کسی صورت ماضی کی طرح سے نہیں منایا جا سکتا کیوں کہ وبا کے انسداد کے لیے نہ تو نماز کے اجتماعات ممکن ہیں، نہ مشترکہ افطار اور نہ ہی نماز تراویح۔ مصر کی جامعہ الازہر نے بھی اس معاملے پر مسلمانوں کو عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کو مدنظر رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔بہر حال اس مرتبہ رمضان بھی خطرے کی زد میں ہے اوراسلامی دنیا میں فی الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ رمضان کس انداز سے منایا جائے گا اور لگتا یوں ہے، جیسے اس بار لوگ انفرادی طور پر طے کریں گے کہ وہ رمضان کس انداز سے گزاریں گے۔ مسلمانوںمیں باجماعت نماز ادا کرنا اور خاص طور پر جمعے کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے بارے میں زیادہ فکرہے۔تاہم ہنگامی صورت میں مسجدیں بند کرنے کی روایت پہلے سے موجود ہے اور موجودہ علماء نے بھی انہی روایات کا سہارا لیا۔جمعہ تو گزر رہے ہیں اور زیادہ تر ممالک میں اکثریت نماز گھر ہی میں ادا کر رہی ہے ، لیکن ابھی ایک اور امتحان باقی ہے۔ رمضان کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور ابھی سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس ماہ مبارک میںوبا کی صورت حال کیا ہو گی۔
یہ مسائل اپنی جگہ ہیں ان معاملات میں علماء کے فیصلوں پر عمل کریںگے اورکوئی بھی ذاتی فیصلہ لے کر پریشان نہ ہوںگے،ان مسائل سے ہٹ کر اس وقت اللہ آپ کے کس عمل کو مقبولیت دے سکتا ہے اس طرف بھی توجہہ کریں،روزانہ کی آمدنی والے خاندان اس لاک ڈاون کے سبب مشکلات میں ہیں ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی خاندان ہیں جنہیں اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا لوہے کے چنے چبانا جیسا لگ رہا ہے ایسے لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئیں اور حتی الامکان ایسے لوگوں کی مدد کریں،عام طور سے مالدار مسلمان ، جن پر زکوٰۃ فرض ہے اور وہ فرض جانتے ہوئے اسے نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں ، ان کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ ہر سال ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں ، اسی میں اپنی تجارت ، دوکان اور پس انداز کیے ہوئے مال کا حساب کرتے ہیں اور جتنی زکوٰۃ ان پر واجب ہوتی ہے اسے مستحقین اور ضرورت مندوں کو دیتے ہیں ۔ احادیث کی رو سے رمضان میں ہر عمل کا اجر سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے ، بلکہ بے حدّوحساب ہوجاتا ہے ، اس شوق میں زکوٰۃ نکالنے والے زیادہ اجر و ثواب کے لالچ میں رمضان کا انتظار کرتے ہیں ۔یقیناً ماہِ رمضان کو دیگر مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے ۔ اس میں اعمالِ خیر کا اجر بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اجر دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ، ایک بندہ کب ، کس کی ، کس حالت میں مدد کر رہا ہے؟ یہ دیکھتے ہوئے وہ غیر رمضان میں نکالی جانے والی زکوٰۃ و صدقات کا اجر بہت زیادہ بڑھا کر دے سکتا ہے ، اتنا ہی جتنا رمضان میں نکالنے پر ملتا ، بلکہ ، ممکن ہے ، اس سے بھی زیادہ ۔اور اب تو رمضان آگیا ہے جتنا دینا فرض بنتا ہے اگر اس سے زیادہ دے سکتے ہیں تو ضرور دیں اس کا اجر اللہ بے حساب دے گا ،انشاء اللہ۔صرف دیار ہند میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی متوسط طبقہ اور غریب طبقہ اس وباء سے اس کے سبب نافذ لاک ڈاوٗن سے اس قدر متاثر ہوا ہیکہ فاقوں کی نوبت آگئی ہے ،اس لئے اس یقین کے ساتھ کہ ایسے لوگوں کی مدد اس وقت میں اللہ کے یہاں بہت زیادہ مقبول ہوگی،بلا توقف مدد کے لئے آگے آئیں،اس وقت انسانیت کا امتحان ہے یہ وباء جیسے انسانیت کو آزما رہی ہے اپنے خیر امت ہونے کا ثبوت دیں ضرورت مندوں کی مدد کی فکر کریں اور وہ بھی اس ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے ایسے مدد کریں،آج کل مدد کم ہورہی ہے مدد کی تشہیر زیادہ ہورہی ہے،اس سے خاص طور سے بچیں،اس سے متاثرین کی غیرت مجروح ہورہی ہے اپنا یہ عمل سوائے اللہ کے کسی کو نہ بتائیں اور اللہ اس کا جو اجر دے گا وہ ہر یقین وگمان سے بالا ہوگا انشاء اللہ۔یہ اصول ذہن میں رکھیں کہ عبادت سے اللہ کوراضی کرنا ہے، اطاعت سے رسول اللہﷺ کوراضی کرنا ہے اور خدمت سے اللہ کے بندو ں کوراضی کرنا ہے،اور خدمت خلق بھی اللہ کے یہاں بہت محبوب عمل ہے جس کی وضاحت حقوق اللہ اور حقوق العباد میں مل جائے گی،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے، اس سنگین وبا کو ختم کردے اور ہمیں صحیحطرح سے اپنی بندگی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق دے، آمین۔

Comments are closed.