موجودہ حالات میں تعلیم کی ضرورت

 

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

آج کے دورمیں تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے پاس ریڑھ کی ہڈی نہیں، یا ہڈی توہو؛ مگرکمزور، وہ چلنے پھرنے اوراٹھنے بیٹھے سے معذورہوتاہے،وہ سانس لیتی لاش کی مانندہوتاہے، ٹھیک اسی طرح جس قوم کے اندر تعلیم نہیںہوتی، وہ قوم سراٹھاکرجینے کے قابل نہیں ہوتی،آج کے زمانہ میں وہ بھی معذورسے کم نہیں، پوری دنیاکے اندر اگرآپ نظردوڑالیں تودیکھیںگے کہ معاشی، سماجی، تہذیبی ، ثقافتی ہرلحاظ سے وہ قوم آگے نظرآئے گی، جس نے تعلیم کے حصول کے لئے دن ورات محنت کی ، جس نے دوسری چیزوں کے مقابلہ میں تعلیم کوترجیح دی ؛ حالاںکہ چھٹی صدی سے قبل اس قوم کی حالت بالکل بدؤوںکی سی تھی، کرۂ ارض میںاس کی حیثیت یتیم کے دسترخوان پرلئیم(کمینہ)کی سی تھی، اُس زمانہ میںآسمان علم پرمسلم قوم کاقبضہ تھا، کوئی بھی ایسا موضوع نہیں تھا، جس پر ہمارے آبا واجداد نے بیش بہا کتابیں نہ لکھی ہوں،ریاضی ہو یافلسفہ،سائنس ہویاطب، منطق ہویا فلکیات،ہرہرموضوع پر گراں قدر تصنیفات کیں،اس کا اعتراف ان لوگوںکو خود بھی ہے، جوآج بحارفنون اورآسمان علوم پرغلبہ رکھتے ہیں ؛ چنانچہ مارش لائبریری کے مطبوعہ کیٹلاگ میں ابنِ سینا پر جو تبصرہ ہے ،وہ کچھ یوں ہے:ابنِ سینا نے طب،ریاضی،منطق،فلکیات اورفلسفہ پر سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں،اس کی مشہور کتاب’’قانونِ طب‘‘کو یورپ کی یونیورسیٹیوںمیں’’حکمت کاخزانہ‘‘قرار دیاگیااور وہ سترہویں صدی کے وسط تک نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھائی جاتی رہی(The wisdom of the East:Morsh’s oriental books,P:17بحوالہ: دنیامرے آگے،ص:۲۶۲)۔
اس وقت ہندوستان میںتقریباً ڈیڑھ ملین(1.5 million) اسکولس ہیں، جن میںسے تقریباً پچیس ہزاراسکولس آرایس ایس کے ہیں، اس کے علاوہ عیسائی اسکولوں کی لمبی فہرست ہے، ان کے بیچ میںاگرآپ مسلمانوںکے اسکولس ڈھونڈھیںگے توآٹے میںنمک کے برابرنظرآئیںگے، ان میںبھی کچھ مدارس ہوںگے اوراکثروہ اسکول ہوںگے، جہاںیاتودینیات کی تعلیم ہی نہیںہوگی یاپھربرائے نام تعلیم ہوگی، پھرمجموعی تعلیم کامعیاربھی ایسانہیںملے گا، جس کوآپ آرایس ایس اورعیسائی اسکولوں کے مقابلہ میں پیش کرسکیں گے۔
مدارس میںجوتعلیم ی جاتی ہے، وہ دین کے ایک یادو شعبہ کی تعلیم دی جاتی ہے، بقیہ شعبوں کی تعلیم پورے ہندوستان کے مدارس میں تلاش کرنے سے بھی شایدہی مل سکے، پھرنصابی کتابوںمیںداخل وہ کتابیں(بالخصوص مسائل سے تعلق رکھنے والی)ہیں، جوصدیوںپہلے اس وقت کے حالات کے اعتبارسے لکھی گئیںتھیں، جب کہ آج حالات بہت بدل چکے ہیں، پھرطریقۂ تدریس بھی وہی، جوپرکھوںنے رائج کیاتھا، اس میںسرموتبدیلی کے لئے بھی تیارنہیں، اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کو’’دین‘‘ اور’’دنیا‘‘کے نام سے ہم نے تقسیم بھی کردیا، جب کہ ہمیںمعلوم ہے کہ یہ تقسیم درست نہیں، اسی لئے مشہوراسلامی فلاسفرامام غزالی نے تعلیم کودوحصوںمیںتقسیم کیاہے: (۱) فرض عین: اس میںتین طرح کے علوم شامل ہیں:اعتقای، عملی اور ممنوعی(۲) فرض کفایہ: اس میںوہ تمام علوم داخل ہیں، جن کوہم نے’عصری تعلیم ‘‘کانام ے رکھاہے، جیسے:طب ، ریاضی ، کاشت کاری، سیاست؛ بل کہ حجامہ اورسلائی بھی(إحیاء علوم الدین:۱؍۳۱-۳۴)۔
علم کی د ینی اوردنیاوی یاعصری تقسیم کی وجہ سے امت کوبڑانقصان ہواہے؛ کیوںکہ جن لوگوںکے اندراعتدال سے تجاوز کرکے صوفیت؛ بل کہ رہبانیت کی حدتک دین کاغلبہ ہوا، انھوںنے ’’دنیا‘‘ کے نام سے کان میںہاتھ لگالیااورجن لوگوںکے اندردین بیزاری درآئی، انھوںنے ’’دین‘‘کے نام سے کام پکڑلیا، نتیجتاً دوگروہ پیداہوئے ، ایک دینی گروہ اوردوسرادنیاوی گروہ، دنیاوالوںنے ہرچمکتی چیزکوسوناسمجھ کرجائزکہا، جب کہ دین والوںنے اسے حلت کے دائرہ سے ہی باہرنکالنے کی کوشش کی؛ حالاںکہ یہ دونوں غلط ہیں؛ لیکن اگرعلم کی تقسیم فرض اورفرض کفایہ کے لحاظ سے کیاجاتاتوشایدنتیجہ اس وقت بلاخیزنہ ہوتا۔
آر ایس ایس نے تقریباً ایک صدی کے اندرمحنت کرکے اتنے سارے اسکولس پورے ملک میں پھیلادئے، پھران اسکولوںکے تعلیم یافتہ جہاںبھی گئے، انھوں نے اپنے نظریہ کی تعلیم دی، نتیجہ یہ ہے کہ آج بہت سارے مسلم منیجمنٹ والے اسکولس ایسے ہیں، جہاں کچھ نہ کچھ اسی نظریہ کی تعلیم ہوتی ہے، پھریہی نہیں؛ بل کہ ہمارے وہ بچے، جنھوں نے ان اداروں میں تعلیم پائی، وہ بھی یاتواسی نظریہ کے حامی ہوگئے یااپنے نظریات کے تعلق سے شکوک وشبہات میں پڑگئے، اسی کے ساتھ ساتھ عیسائی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے ذہن بھی اپنے نظریات کے تعلق سے بدل گئے، یہاںیہ بات یادرکھنے کی ہے کہ مدارس میںپڑھنے والے بچوںکی تعدادددوتین فیصدہی ہوتی ہے، اب آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے آپ کے کتنے بچے آپ کے ہاتھ میںرہیںگے؟ یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف شعبوں میں مسلم نام کے لوگوں کوپاتے ہیں؛ لیکن نظریاتی اعتبارسے وہ اپنی قوم سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ کسی بھی معاملہ میں خواہ حق ہی کیوں نہ ہو، ان کی طرف توجہ نہیں جاتی۔
ہمیں شکایت ہے اپنے اوپرظلم کا، ناحق ستانے کا، بے جاالزام لگانے کا، انصاف نہ ملنے کا، آپ کی شکایت بجا؛ لیکن آپ کی شکایت سننے کے لئے کون ہے؟ آپ کاعلاج کرنے والاآپ کی قوم کانہیں، آپ کامقدمہ لڑنے والاآپ کی قوم کانہیں، آپ کامقدمہ درج کرنے والاآپ کی قوم کانہیں، فوج میںآپ کی قوم کانہیں، پولیس میںآپ کی قوم کانہیں، وکیل آپ کانہیں، جج آپ کانہیں، اونچے عہدوںپرآپ کے لوگ نہیں، حتی کہ نیتابھی آپ کانہیں،پھرملک میں نفرت کی سیاست اس پرمستزاد، آپ کیسے جی سکیںگے؟ سوچئے اورگہرائی کے ساتھ سوچئے!
جب قوم میںتعلیم نہیںہوگی توقوم کوذلت کاسامناکرناپڑے گا، جب قوم میںتعلیم نہیںہوگی توقوم کوغلاموںکی سی زندگی؛ بل کہ اس سے بدترزندگی گزارنے پر مجبورہوناپڑے گا، ملک کی آزادی کے بہترسال تک ہم نے بھیڑجمع کرنے، جلسے جلوس کرنے اورنعرہ لگانے کاکام کیا، شادیوں میں لاکھوں روپے صرف کرنے کاکام کیا، اپنی پوری کمائی کھانے پینے اوردادعیش دینے میںلگائی، کروڑوںروپے مشاعروںکی نذرکردئے، ایسی تعلیم گاہیں کیوں نہیں بنائیں، جہاںفرض عین اورفرض کفایہ کی تعلیم ایک ساتھ ہوتی؟ آج ملک میں مدارس کاہمالیائی سلسلہ قائم ہے، یقینا یہ ضروری تھے؛ لیکن فرض کفایہ کی تعلیم گاہیں بھی توضروری تھیں، ان کی طرف کیوںتوجہ نہیں دی گئی؟
اب وقت آگیاہے کہ سوچ کوبدلاجائے اورتعلیمی نظام میں بھی تبدیلی لائی جائے، فرض کے ساتھ ساتھ فرض کفایہ کی تعلیم بھی دی جائے، علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ قانون، انجینئرنگ، ڈاکٹری، ایگری کلچر، سیاست وغیرہ کے باقاعدہ شعبہ جات بھی ہوں، بالخصوص وہ ادارے ، جن کوہم اصل اورجڑکی حیثیت سے دیکھتے ہیں، ان اداروںکو اس کی طرف ضرور توجہ دینی چاہئے، مدارس کی طرح اسلامک سوچ والے اسکولوں کابھی ہمالیائی سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے،اگرآج بھی توجہ نہ دی گئی توہماری حالت بھی یتیم کے دسترخوان پرلئیم(کمینہ)کی سی ہوجائے گی۔

Comments are closed.