یہ وقت امتحان ہے ۔تو مرحلہ امتحان سے گزر۔۔۔!

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
آنےوالے وقت میں دنیا میں کیا ہوگا اور کیسی ہوگی دنیا ایک ایمان والے کا کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ پوری ایمانی قوت کے ساتھ یہ کہے کہ کل کیا ہوگا وہ صرف اور صرف میرا رب جانتاہے ۔کیونکہ اسی نے فرمایاہے غیب کی خبر تو صرف ہمیں ہے کسی انسان کو نہیں ہے ۔اسوقت دنیا میں خوف اور یقین کی جنگ جاری ہے ۔ایک طرف دنیا کوپوری دجالی قوت کےساتھ موت کا خوف دلایا جارہاہے۔ اور دوسری طرف یقین ہے کہ وہ یہ بات لوگوں کے دلوں بٹھانے کی کوشش میں ہےکہ نہیں نہیں زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے موت دے ۔چاہے جسطرح دے بستر پہ دے۔ بیماری سے دے اور جسے چاہے زندہ اور مصیبت سےمحفوظ رکھے ۔ زمین میں خلافت آئے گی یاجمہوریت یا ڈکٹیٹر ۔اللہ کی ذات پر ایمان اور یقین رکھنے والوں کو کسی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت کیاہے ؟ہمیں سوچنا اور ایمان کو جانچتے رہنا ہے کہ اس میں نوذ باللہ کمی توواقع نہیں ہورہی ہے ؟ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیاہم نے اگراپنے آپ کو گھروں قید کرلیا تو ہم موت سے بچ جائیں گے ؟ جیساکہ دنیا میں خوف کا جھنڈا اٹھائے ہوئے لوگ کہ رہے ہیں۔ اور ہمیں دنیا ہر چیز یہاں تک کہ عبادت ریا ضت ۔ اللہ کو یاد کرنے سے بھی عملا روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ پورے دن گھروں میں قید رہنے اور پوری رات چین سے اپنے بستروں پر پڑے رہنے کا نسخہ بتارہے ہیں تاکہ اپنے وجود کی حقیقت تک کوفراموش کرجائے ۔ اور یہ یقین کرلو کہ یہ دنیا ہے یہاں صرف کھانا پینا مرجانا انسان کا وظیفہ حیات ہے۔ قیامت کی حقیقت تک سے غافل کردینے کی چالیں چل رہے ہیں۔ تمہارا کوئی رب ہے جو آخرت میں تم سے اس زندگی کے بارے میں پوچھے گا۔ یہ سب ایک بھول بھلیا ہے۔ یہ موجودہ دنیا کےدلوں میں بٹھایا جارہاہے ۔آپ غور نہیں کرہے ہیں کل تک باجماعت فجر کی نماز پڑھنے والوں کی کتنی تعداد تھی اور آج کتنے لوگ باقی رہ گئے ہیں ۔ جب انکی نیند کھلتی ہے اور فجرکا وقت نکل چکا ہوتاہے تب اٹھ کر سورج نکلنے کے بعد جی چاہتاہے تونماز پڑھ لیتے ہیں ۔ورنہ وہ بھی نہیں اور پھر بغیر رب کو یاد کئے کھانے پینے چائے ناشتے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔جو شیطان چاہتاتھا لوگ اس راہ پر چل چکے ہیں۔ اورمرنے کا خوف ہے کہ سینہ ٹھوک کر اپنے غلبے اور فتح کا ڈنکا بجا رہاہے ۔ آپ نہیں دیکھ رہے کہ وہ قوم جوکل تک قیامت کے آنےکی تبلیغ کر رہی تھی اور دنیا کو سنارہی تھی ”وکذلک اعثرنا علیھم لیعلموا ان وعد اللہ حق وان الساعۃ لاریب فیھا“سورہ کہف۔آیت21۔اور یہ یقین دلارہی تھی ”قل اللہ اعلم بما لبثوا لہ غیب السماوات والارض ، ابصربہ واسمع۔ط۔مالھم من دونہ من ولی ولایشرک فی حکمہ احدا“ سورہ کہف۔آیت۔26۔اور اس کی تعلیم دنیا کو دے رہی تھی ”ولاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا“سورہ کہف آیت۔28۔سب بھول کر زندگی کی بقا اور موت کے خوف کا شکار ہوگئےہیں ۔موت سے بچنے کی ہر تدبیر میں کیا ایمان والا اور کیا غیر ایمان والا سب مبتلا ہے ۔کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے اور اللہ کی قدرت کااحساس جگانے والا نہیں ہے کہ دنیا کو بتا سکے کہ تم کہاں جارہے ہو۔ کس طرف بھاگ رہے ہو ۔اس رب کی طرف آئے جو ہر چیز کا خالق ومالک ہے۔آپ دیکھئے نا ہر کوئی عبادتوں میں ڈسکاونٹ اور کٹوتی کی تودلیلیں ڈھونڈ رہا ہے۔ چاہے تراویح ہو۔ نوافل ہو۔ اجتماعی اور انفرادی عبادات ہوں۔ اللہ سے قربت کے ذرائع اور مواقع ہوں ان میں کمی کس طرح ہوجائے اور کن کن دلائل سے ان میں کمی آسکتی ہے اور لوگوں کو جھٹکارا مل سکتاہے۔ قیام لیل کے نام پر بیس سے آٹھ ہوجائے اور اس سے بھی کم تین تک محدود ہوجائے۔اس کی اجتماعی سنیت مجروح ہوجائے ۔یہ صرف اسلام کا انفرادی عمل بن کر رہ جائے ۔یہ عبادت مسجدوں میں نہیں گھروں میں افضل ہے۔جس کا جی چاہے پڑھے۔ جس کاجی چاہے نہ پڑھے اور دین کا یہ اجتماعی تانابانا بکھر جائے ۔ اس پرتو خوب زور صرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بات بہت سخت ہے کسی کو برا لگے تو معاف کردینا ۔چونکہ اس طرح کے میسج سوشل میڈیا پر آرہے ہیں اس لئے میںنے برسبیل تذکرہ ذکر کردیا ہے۔ مگر اس پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ آج کی بھٹکی ہوئی انسانیت اپنے رب حقیقی کو کیسے پہچانے؟ اس سے کیسے قریب ہو ؟اس کارشتہ رب سے کیسے مضبوط ہو ؟اسلام کا اجتماعی نظام عبادت مفلوج ہوکر رہ گیا ہے اور خود امت کے افراد اس کی وجہ سے اپنے رب سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس پر ہماری توجہ نہیں ہے ۔اوران دجالی افکار واذہان کو اپنی ذہنی ورزشوں سے تقویت ضرور پہونچانے کی کوشش ہورہی ہے جن سے اسلام کاروحانی اوراجتماعی نظام جتنے لمبے عرصے تک مختل رہ سکے رہے۔دنیا کا اللہ سے اور اپنے رب سےجڑنے اس کی ذات پر ایمان ویقین پختہ رہنے کا نعوذ باللہ رجحان اورسوچ بدل جائے ۔کیونکہ انسان کی توفطرت ہے کہ جب زیادہ عرصہ تک کسی چیز سے دور رہتاہے تو اس کو بھولنا شروع کردیتاہے اور اس کو بالکل فراموش نہیں کرتا تو اس میں کمی ضرور واقع ہوجاتی ہے ۔جس کو اہل دل آج بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ اسکی سازشوں میں اولیائے ٕ شیاطین مصروف ہیں۔اس کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔خیر بات بہت لمبی ہوگئی ۔
میں تو صرف علما ،اہل فکر ودانش ، مبلغین دین اسلام اور شریعت کے رمزشناس حضرات سے صرف یہ درخواست کرنا چاہتاہوں کہ رمضان جیسے مقدس مہینے کی برکت سے انسانیت کو اور بالخصوص مسلمانوں کو جتنا اللہ سے مربوط کرنے کی کوشش ہوسکے اس پرصلاحیت صرف کی جائے ۔جزوی اور فروعی موشگافیوں سے اجتناب دانشمندی ہے۔یہ اہل ایمان کے لئے چوطرفہ امتحان کامرحلہ ،فضول چیزوں میں خود کو اور امت کو نہ الجھائیں ۔ اس وقت سائنس اور مذھب آمنے سامنے ہے،مذھب اور مذھب نہیں ہے اور دجال وقت طب و سائنس کے کندھے پر سوار ہوکر اپناکھیل کھیل رہی ہے۔ کیونکہ انسان ہر تکلیف دینے والی چیز سے خوف زدہ ہوتاہے وقت کادجال اس کمزوری کوجانتاہے۔وہ اس راستے سے دنیا پر غلبہ پانے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہے ۔اس کو معلوم ہے کہ مسلمان ہی وہ قوم ہے جو اللہ پر یقین رکھتی اور دنیا کےاسباب کو موثر بالذات نہیں سمجھتی وہی ہمارے منصوبہ کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔باقی کو تو ہم ایک جھٹکے میں لےلیں گے۔اس لئےوائرس اور انفیکشن کے موقف کو طبی تھیوری کے ذریعہ جتنی قوت کے ساتھ ہوسکے دنیا کےسامنے بنائے رکھاجاسکے تو بہتر ہے ۔رہے ہماری ہمنوائی کرنے والے وہ تو ہمیں مل ہی جائیں گے اور مل بھی رہے ہیں ۔اللہ تعالی انسانیت کو انسانی شروروفتن سے محفوظ رکھے ،ہمارے ایمان کو اپنی ذات پر مضبوط سے مضبوط کردے آمین۔

Comments are closed.