سماج کے ڈیڑھ سیانے (دوسری قسط)

مولانا راشد اسعد ندوی
(امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی)
آج کئی دنوں بعد کافی ڈھونڈنے کے بعد اپنے "بابا جی” ملے، دراصل بابا جی کا کوئی خاص روپ نہیں؛ کبھی وہ کلین شیو کیے پینٹ شرٹ میں رہتے ہیں تو کبھی داڑھی کرتا پائجامہ، صدری اور ٹوپی میں نظر آتے ہیں، کبھی عبا اور قبا زیب تن کرتے ہیں تو کبھی کوٹ پتلون پہنتے ہیں، کبھی انتہائی مفلوک الحال درویش کی شکل میں ملتے ہیں تو کبھی فارغ البال امیر آدمی کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں شاید بابا جی "جیسا دیس ویسا بھیس” کے اصول پر چلتے ہیں تاہم ہم جیسے خوش قسمت ہی ان کو پہچان پاتے ہیں
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شنا سم
(تو چاہے جس بھی رنگ کی پوشاک پہن لے، میں تجھے تیرے قد سے پہچان لوں گا)
خیر تو ہم نے سر راہ بابا جی کو پہچان لیا، دیکھتے ہی لپک کر شرف ملاقات حاصل کیا، علیک سلیک کے بعد پہلی ملاقات میں دیے گئے گیان کا آموختہ سنایا کہ ان دنوں کرونا وائرس سے حفاظتی تدبیر اختیار کرتے ہوئے سیانے لوگ گھروں میں رضاکارانہ محصور و مقید ہیں اور ڈیڑھ سیانے لوگ باہر سڑکوں پر پیدل و سوار داد شجاعت دے رہے ہیں بابا جی نے زور دار قہقہہ لگایا اور راز دارانہ انداز میں گویا ہوئے کہ سماج میں ڈیڑھ سیانوں کی صرف یہی ایک قسم نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ سیانوں کی پوری بارات ہے بارات!! بابا جی کی بات میں ہماری دلچسپی اور بڑھ گئی، اور ہم دستہ بستہ ٹکٹکی باندھے بابا جی کو دیکھنے لگے بابا جی نے بھی پورے اعتماد کے ساتھ اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھا کہنے لگے کہ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ موجودہ لوک ڈاؤن میں جبکہ عموماً لوگ گھروں میں ہیں کچھ لوگ دیوانہ وار بیڑی سگریٹ پان اور تمباکو کی تلاش میں یہاں وہاں مارے مارے پھر رہے ہیں، دس روپے کی سگریٹ سو سو روپے میں خرید رہے ہیں، عجیب لت ہے، بڑی کافر ادا ہے، منہ کو لگ جاتی ہے تو قبر تک ساتھ دیتی بلکہ قبر تک لے جانے کا ذریعہ بنتی ہے، کورونا وائرس سے زیادہ اموات تو تمباکو نوشی سے ہو رہی ہے، تمباکو کسی بھی شکل میں کھایا پیا یا سونگھا جائے موذی اور جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتا ہے کینسر تو ہے ہی ، دل کے امراض اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں بسا اوقات اسی لت کی وجہ سے کتنے لوگ خود کشی کر لیتے ہیں بابا جی کی یہ بات سن کر ہمارے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے، ہم دم بخود رہ گئے. ہم نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ دراصل لوگوں میں جہالت اور ناخواندگی ہے اس لیے ان عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بابا جی نے ہماری بات کو مانا ہی نہیں بلکہ ناگواری کا بھی اظہار کیا، پھر شفقت بھرے لہجے میں فرمانے لگے اس میں خواندگی اور ناخواندگی کی کیا بات ہے! سگریٹ کی ڈبیہ پر تو قانونا لکھا ہوتا ہے تمباکو نوشی مضر صحت ہے کہنے لگے دراصل یہ تمباکو نوشی کرنے والے ہمارے سماج کہ وہی ڈیڑھ سیانے لوگ ہیں جو سب جانتے ہوئے بھی اپنی صحت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بیماریوں کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں ہم نے بابا جی کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہی پان، تمباکو، بیڑی سگریٹ اور حقہ میں مبتلا ہیں یہی چیزیں ان کے لیے زینت محفل ہیں اور اعلی معیار زندگی کی نشانی ہے،ہم نے مزاحا یہ بھی کہ دیا کہ جو لوگ سگریٹ حقہ نہیں پیتے ہیں ہم ان کو پڑھا لکھا سمجھتے ہی نہیں، بابا جی نے مسکراتے ہوئے ہماری بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی تمباکو در حقیقت شراب نوشی تک پہنچانے کا زینہ ہے شراب نوشی میں عموماً وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو پہلے کسی اور ہلکے نشے خصوصاً بیڑی سگریٹ کے عادی رہ چکے ہیں
بابا جی یہ کہ کر رخصت ہو گئے
آج کی ملاقات نے ہمیں بہت متاثر کیا اور سماج میں پھیلی ہوئی تمباکو نوشی کی برائی کے سد باب کی بڑی فکر لاحق ہوئی سوچا کہ لوگوں کو متوجہ کروں مگر ماضی میں مختلف شہروں میں چلائی گئی "نشہ مکت مہم* کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے مایوسی ہو رہی تھی کہ ہماری دو چار سطروں سے کیا ہوگا کیوں کہ موجودہ لوک ڈاؤن نے ہمیں یہ آئینہ بھی دکھا دیا ہے کہ ہمارا سماج قانون کی پنجہ کشی اور ڈنڈے کے زور کے بغیر کوئی بات مانتا نہیں ہے الا ما شاء اللہ مگر ایک راہ گیر کے چھوٹے سے ایک جملہ” بھائی ماسک ناک پر چڑھالو،، سے امید جاگی اور ہمت بندھی، احساس ہوا کہ موجودہ آئی ہوئی آفت اور پھیلی ہوئی وبا کی وجہ سے لوگوں میں حفظان صحت کے سلسلہ میں زبردست بیداری پیدا ہوئی ہے اور طرز زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے، اسی وجہ سے تو لوگ راستہ چلتے ایک دوسرے کو ماسک پہننے کو کہ رہے ہیں یقیناً ہمارے سماج میں حفظان صحت کے بارے میں بیداری کے یہ لہر ہمارے لیے بڑی خوش آئند اور فال نیک ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے بھائیوں اور دوستوں کی خدمت میں خیرخواہانہ عرض گزار ہیں کہ خدارا پان بیڑی سگریٹ سے باز آجاؤ، اس عادت کو چھوڑ دو اور اپنی صحت کی حفاظت کرو کہ ہمارے دین و مذہب میں صحت کی حفاظت کی بہت اہمیت بتائی گئی ہے، اس کے بنیادی اصول سکھائے گئے ہیں اور بیماری آنے سے پہلے صحت کی قدر کرنے اور اسکو غنیمت جاننے کا حکم دیا گیا ہے
لہذا ہمیں اب پختہ ارادہ کرلینا ہے کہ اس مرتبہ ہم اپنی صحت کی حفاظت کے لیے کمر کس لیں گے اور تمباکو نوشی کی عادت چھوڑ کر رہیں گے یوں بھی موجودہ لوک ڈاؤن میں تمباکو سگریٹ وغیرہ بہت مہنگے داموں میں مل رہے ہیں اور آگے تین چار دن میں رمضان کا مبارک مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے گویا ہم کو ڈبل چانس منجانب اللہ مل رہا ہے واقعی یہ سنہری موقع ہے تھوڑی ہمت و توجہ سے ایک بہت بڑی مصیبت سے نجات مل سکتی ہے بس شرط یہ ہے کہ مضبوط قوت ارادی سے کام لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق کا سوال کیا جائے۔

Comments are closed.