میڈیا کے ذریعہ کی گئی مسلمانوں کی بدنامی کا ازالہ کیوں اور کیسے…؟

مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی
چیرمین اینڈین کونسل آف فتوی اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور
اس وقت بعض میڈیا والوں نے مسلمانو ں کو بدنام کرنے کے لئے ایک طوفان مچا رکھا ہے،جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے ملک کے حالات دن بدن کشید ہ ہوتے جارہے ہیں ،اس لئے میڈیا کے ذریعہ کی گئی بدنامی کے ازالہ کے لئے چند ایسی صورتیں پیش کی جارہی ہیں،جو انتہائی قابل توجہ ہیں۔
(1)پہلی صورت یہ ہے کہ اس شروفساد کے پیچھے جوافراد یا ادارے ہیں ،ان کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے،اور یقین جانئے یہ کاروائی جمہوریت میں مجرموں کے تعاقب اور حالات کی تبدیلی میں ایک سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔
(2)دوسری صورت یہ کہ ہندوستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ بنیادی طور پر متعصب نہیں ہے،وہ بقائے باہم میں یقین رکھتا ہے ،اور امن پسند تقریباً 95فیصد ہندو عوام جو اس طرح کی حرکت کو ہرگز پسند نہیں کرتے ،اگران کو اعتماد میںلے کر ان کے ساتھ اس بدنامی کے خلاف پُرزور آواز اٹھائی جائے تو اس بدنامی کا ازالہ ممکن ہوسکتا ہے،بڑی خوشی کی بات ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی طرف سے بلاتفریق مذہب وملت رفاہی خدمات اور غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ہمدردی ،غم خواری اور دلجوئی کی بنیاد پر ہندوبھائیوں کا ایک بڑا طبقہ میڈیا کے ذریعہ کی گئی مسلمانوں کی بدنامی کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردیاہے،اور عالم عرب میں بھی کرونا وائرس بحران کے درمیان لوگوں کی توجہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہراساں اور بدنام کئے جانے پر مبذول ہوگئی ہے،اور چند دنوں سے سوشیل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے۔
(3)تیسری صورت یہ ہے کہ آج جب کہ جھوٹے ،بناوٹی اور مصنوعی ویڈیوز مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے سوشیل میڈیا پر پلاننگ کے تحت وائرل کئے جا رہے ہیں ۔ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پوری حکمت وبصیرت اور شعور و سنجیدگی کے ساتھ ان جھوٹے اور بناوٹی ویڈیوز اور افواہوں کا پول کھولیں،اور حقائق کو پوری دنیا کے سامنے لائیں۔اس لئے کہ مسلم دشمنی کا یہ ماحو ل کسی غلط فہمی یا انجانے پن کی وجہ سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے،اور اگر اس پر روک نہ لگائی گئی تو یہ مہم بند یا کم نہیں ہوگی بلکہ تیزتر ہوسکتی ہے۔
(4)چوتھی صورت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان ہرمعاملہ میں ہمیشہ اس طرح چوکنا ،ہوشیار اور محتاط رہیں کہ اسلام اورانسانیت دشمن طاقتوں کو کسی بھی طرح اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کاموقع ہاتھ نہ آئے۔
(5)پانچویں صورت یہ ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اندر بلاتفریق مذہب وملت رفاہی خدمات کے انجام دینے کے جذبات کو فروغ دیا جائے اور غیرمسلم بھائیوں سے خوشگوار تعلقات رکھنے اور قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے اوران میں اسلام کے تعارف کاکام اس طریقہ اور نہج پر انجام دیا جائے کہ ان میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کم از کم مثبت اورپازیٹیو رویہ اختیار کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔اس موقع پر تمام مسلمانوں سے خصوصی اورمخلصانہ گزارش ہے کہ اپنوں اوربیگانوں کے ہمدرد ،غم خوار اور خیر خواہ بننے کی کوشش کریں،تاکہ اللہ کی طرف سے ہماری حفاظت کے بندوبست کے ساتھ اہل وطن بھی ہماری مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
(6)چھٹی صورت یہ ہے کہ مسلمان تقوی وطہارت کی زندگی گزارنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار کو لازم پکڑیں۔ان صورتوں میں میڈیا کے ذریعہ کی گئی مسلمانوں کی بدنامی کے بم کو ناکارہ بنادینے کی طاقت ہے،خواہ بظاہر وہ کیسا ہی خطرناک بدنامی کا بم کیوں نہ ہو۔اس لئے کہ ہمارا کام بم مارنا نہیں ہے بلکہ پوری حکمت عملی کے ساتھ بم کو ڈیفیوزکرنا ہے۔موجودہ حالات میں سب سے ضروری کام یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو باشعور بنایا جائے اور ان میں مسائل ومشکلات کو حل کرنے کی عمدہ صلاحیت اور صحیح شعور پیدا کیا جائے۔
اسی طرح اس حقیقت سے بھی تمام مسلمانوں کو واقف ہونا بہت ضروری ہے کہ اپنی اصلی حیثیت کے اعتبار سے ،مسلمان داعی ہیںاور دوسری تمام اقوام مدعو،یعنی مسلمان دین خداوندی کے امین ہیں ،اور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کو تمام مسلمانوں ہی تک نہیںبلکہ تمام انسانوں تک پہنچائیں،اسی فرض کی ادائیگی میں ان کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے ،دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی ۔یہ کوئی سادہ بات نہیں ،یہ ایک انتہائی نازک ذمہ داری کا معاملہ ہے،مسلمان اپنی اس ذمہ داری کوصرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں،جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس کو اپنی زندگی میں بھرپور استعمال کریں۔
موجودہ حالات میں تین نکاتی پروگرام انتہائی قابل توجہ ہیں:
(1)مسلمانوں کے اندر ایمانی شعور اور دینی جذبہ پیداکرنا ،ان کو اس قابل بنانا کہ اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو سمجھیںاوران کوذمہ دارانہ طور پر ادا کریں۔
(2)مسلمانوں میں اخلاقی بیداری پیدا کرنا ،ان کے اندر سچائی ،امانت داری،انصاف اور شرافت کی صفات ابھارنا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان بہترین انسان بن کر رہ سکیں۔
(3)مسلمانوں میں باہمی اتحاد کا جذبہ ابھارنا ،ان کے اندر یہ مزاج پیدا کرناکہ وہ اختلاف رکھنے کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہوکر رہ سکیں۔
اخیر میں تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ حالات خواہ کنتے ہی سنگین،خطرناک،تشویش ناک ،دحشت ناک اور قیامت خیز کیوں نہ ہوں ،ہمیں ہرگزگھبرانا نہیں چاہئے ،کیونکہ ابتلاء وازمائش اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اللہ ہی اپنی اس سنت کی حکمت ومصلحت کو خوب بہتر جانتا ہے۔
Comments are closed.