زعفرانی صحافت کی بدولت ملک کا گرتا معیار؟

محمد قاسم ٹانڈؔوی
جب جب بھی ملک کے حالات کسی معمولی واقعہ کی بنیاد پر یا جزء وقتی رنجش کے چلتے لمحے بھر کےلئے مخدوش ہونے میں معمولی امکان بھی قائم ہوئے ہوں گے تو اس واقعہ کے بعد اس پہلو پر کیا آپ نے کبھی غور کیا ہےکہ:
"اس باہمی رنجش اور آپسی تکرار جس کا حل گفت و شنید کے ذریعے اور باہم مل بیٹھ کر بہت آسانی سے نکالا جا سکتا تھا؛ مگر عین وقت پر وہاں ملک کا متعصب ذہن اور تشدد پسند طبیعت کا حامل زردئی میڈیا وہاں انٹر ہوتا ہے اور اپنے خفیہ مقصد میں ہاتھ صاف کر کامیاب ہو جاتا ہے”۔
یہ مبنی بر صداقت حقیقت ہے، کہ آپس کی اس توتو میں میں اور لڑائی جھگڑا کو زہر بھری نفرت کا رنگ دے کر میڈیا نے سیاسی جماعتوں کےلئے حصول ووٹ کا اہم ذریعہ بنایا جس کی وجہ سے ہمارا یہ ملک بارہا عالمی برادری کی نظروں میں اپنی شناخت اور دبدبہ کھوتا رہا۔
جب کہ ہم دعوی اس بات کا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا سب سے اعلیٰ جمہوری نظام اور سب سے مستحکم آئین و دستور موجود ہے، جس کی پاکیزہ روح اور صاف شفاف روشنی ہم سب کو اس بات کا مکلف و مجاز ٹہھراتی ہےکہ: "ہم سب مل کر بلا تفریق مذہب و ملت اور علاقائیت اس ملک کی آن بان کی حفاظت کریں گے، اس کے سیکولر ڈھانچے کو تحفظ اور یقینی بنائیں گے، آپسی پیار و محبت کی فضا قائم کر ایک ساتھ ایک سماج میں برسوں پرانی روایات کی پاسداری اور مذہبی رواداری کا پاس لحاظ نیز قدیم زمانے سے جاری مشترکہ اس تہذیب و ثقافت کی رعایت و عملداری کریں گے جو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد سے وراثت میں ملا ہے، یہی نہیں بلکہ معاشرتی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور مصیبت و پریشانی کے وقت ایک دوسرے کو مالی معاونت پہنچا کر ہر ایک کے ساتھ جذبۂ خیرسگالی، مالی فراہمی کا بند و بست اور انسانیت کی عزت و آبرو کا خیال رکھتے ہوئے بہتر و مناسب طریقۂ کار آزمائیں گے، تاکہ کوئی بھی ہندوستانی خود کو تنہا اور بےیار و مددگا محسوس نہ کرے۔ لیکن افسوس ! ہمارا یہ ملک عزیز اس ڈگر اور خطوط پر قائم و برقرار نہ رہ سکا یا یوں کہئے کہ آزادی کے معاً بعد کچھ ایسے اسباب و عوامل در آئے کہ نفرت کے رسیا اور ہندو مسلم تفریق کے عادی ناہنجار و نامراد اشخاص نے دونوں فریقین کو ایسا بھڑکایا کہ ملک کی یہ "دو خوبصورت آنکھیں” سمجھی اور کہلانے والی برادریاں اس بات کو حاشیۂ خیال تک میں نہ لا سکیں اور جوش میں ہوش سے کام نہ لے سکیں۔
جس کا صاف نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ ہمیشہ معمولی سطح کی باتوں اور چھوٹے درجے پر رونما ہونے والے واقعات کو لےکر ملک کا بکاؤ میڈیا من مانے طور پر ذائقے دار خبروں کی ترسیل اور نمک مرچ لگی باتوں کو عوام کے چٹورے کانوں تک پہچانے میں کامیاب ہو گیا، جس کی بدولت ملک کو دن بدن نفرت کی بھٹی میں جھونکنے اور یہاں کے بھولے بھالے عوام کی سادگی اور سنجیدگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس زعفرانی میڈیا نے وہ کھیل کھیلا جہاں سے واپسی ہوتی مشکل نظر آ رہی ہے۔
یہاں آکر ایک سکتہ اور لمحہ کےلئے اس بات کا جائزہ لیجئے اور غور و تدبر کیجئے کہ: آخر وہ کونسی طاقتیں اور سرکش دماغ تھے جو پوری قوم کو یرغمال بنانے اور ہندو مسلم تفریق کو ہوا دے کر ملک کو ایک اور تقسیم کی ڈھکیلنے کی سازشیں کر رہے تھے؟ ساتھ ہی اس بات کا اندازہ بھی لگایا جائے کہ کس نے کہاں پر آگ میں گھی ڈال کر آگ کی لپٹوں کو مزید تیز سے تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے؟ تو تحقیق کا سرا اور قطب نما میں گھومنے والی سوئی اس بات کی شہادت پیش کرےگی کہ ان سب کی کہانی ناگپور میں واقع زعفرانی پرچم لگے گنبد تلے بیٹھنے والوں کے ہاتھوں لکھی جاتی تھی، جس کا پورا کردار "مسلمانوں کی نسل کشی کر یہاں سے اسلام کو مٹانے” کے ارد گرد گھومتا نظر آئےگا” تاکہ وہ دیرینہ خواب اور دل و دماغ میں جنمی خواہش کو پورا کرنا آسان ہو جائے۔ اسی لئے عرصۂ دراز سے دیکھنے میں آرہا تھا کہ ملک کا یہ بےلگام، دلال اور چاٹوکار میڈیا مکمل زعفرانی رنگ و سوچ میں ڈھل کر بالفاظ دیگر چاپلوسی اور خوشامد کر ہر موقع پر اپنی وفاداری اور غلامی کا ثبوت پیش کر رہا تھا اور خاص طبقہ کے سربرآوردہ افراد کی رضا اور حکمراں جماعت کی خوشنودی حاصل کرنے میں اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو پس پشت اور پریس کونسل آف انڈیا کے متعین کردہ رولس اور حد بندیوں کی خلاف ورزی کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر صحافت کے اصول و ضوابط کو بُری طرح سے کراس کر رہا تھا، ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر مسلسل ایک خاص طبقہ کے افراد کو نشانہ بنانے، اس کے متعلقہ اداروں، جماعتوں کو ہرمسئلہ کا مجرم ٹہھرا کر اپنی بھٹکتی آتما کو شانتی دلانے کی ناپاک و مذموم کوششیں کر رہا تھا، کبھی مدارس و مساجد کے انتظامات کو نشانہ بنا کر، کبھی اذان و نماز کی ادائیگی پر اور کبھی حجاب و نقاب کی پابندی کرنے والی ماؤں بہنوں کی کردار کشی کر انہیں بےعزت و رسوا کرنا، انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا، مسلمانوں کی خانگی زندگی میں تانک جھانک کر شام کو ٹی وی ڈیبیٹ کر انہیں مدعا بنا کر اچھالنا اور اس بات کی تشہیر کرنا کہ مسلمان نہ تو اپنے اور نہ اپنے اہل خانہ اور نہ ہی اس ملک کے تئیں وفادار ہے؟ یہی سب کچھ اس دوغلے میڈیا کا روزانہ کا پسندیدہ مشغلہ بن کر رہ گیا تھا اس کے علاوہ زرخرید میڈیا کا ایک محبوب کام یہ تھا کہ اس ملک کے عوام کو برابر ہندو مسلم کی تقسیم کرنے میں لگا تھا تاکہ برسوں سے قائم یہاں کی قومی یکجہتی کو مٹانے، آپسی اتحاد و اتفاق اور باہمی رواداری کا جنازہ نکالنے اور ملک کو خوشحالی و ترقی کی منازل سے دور کرنے کے بعد وہی دیرینہ خواہش یعنی ملک کو "ہندو راشٹر” میں تبدیل کیا جا سکے۔
اب کوئی اس دلال میڈیا سے یہ پوچھے؛ جس کا ایک وقت کا کھانا بھی اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا جب تک کہ وہ پردہ اور اسکرین پر آکر اپنی اسکرپٹ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے نت نئے طریقے اور وسیلے نہ شامل کر لے؛ یہاں تک کہ ماہرین سماج اور انصاف پسند طبقہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ:
"ان کی روزی روٹی یہی ملک کے مسلمان اور مذہب اسلام ہے، جن کی بدولت ان کی دوکانداری چل رہی ہے”۔
ماہرین سماج اور انصاف پسند طبقہ کے اس دعوی میں کتنی حقیقت ہے، اس کا اندازہ آپ خود اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ:
"ہر تخریبی حادثہ کے وقوع پزیر ہونے کے بعد بنا تحقیق اور بنا کسی جانچ پڑتال کے یہ ٹی وی چینل پر بیٹھے میڈیا کے دلال و نااہل کار سپاہی اول مرحلے میں اس کی جڑیں اور سوتے ‘اسلام اور اہلِ اسلام’ سے جوڑ دیتے ہیں اور لمحہ بھر کی تاخیر کئے بغیر پوری دنیا کو اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ اسلام تخریب کاری کو پسند اور مسلمان اس کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے، اور یہ سب اسی منظم سازش اور طےشدہ پلانننگ کے تحت ہوتا ہے جو ابھی اوپر ذکر کی گئی ہیں۔ اس طرح سے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ کو مسخ کرنے میں یہ گودی میڈیا اپنا ناپاک کردار ادا کرنے لگتا ہے”۔
مگر سب جانتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک حدِ فاصل ہوا کرتی ہے جس کی رعایت میں ہی اپنا اور اپنے کردار و پیشہ کا روشن مستقبل پنہاں ہوتا ہے لیکن شاید اس بات کو یہ دلال میڈیا اور شرم و حیا سے عاری فیک نیوز کی ترسیل کا عادی یہ ٹولہ ڈالر کی چمک اور سکوں کی کھنک میں اپنا حقیقی فریضہ فراموش کر بیٹھا تھا۔ جس کا واضح نتیجہ اب ظاہر ہو کر سامنے آ رہا ہے کہ جب سے مسلم ممالک کی طرف سے فیک نیوز اور ہرمسئلہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ردعمل پر وزیراعظم مودی جی کو اپیل یہ اپیل اور بیان جاری کرنا پڑا کہ:
"کرونا کا تعلق کسی ایک ذات، نسل، مذہب، زبان علاقے اور سرحد سے نہیں ہے”۔
اسے کہتے ہیں "عمل کا ردعمل” اور تعصب و تشدد کو ہوا دیتی زرد صحافت کی موشگافیوں کے چلتے عالمی سطح پر ہمارے اثر کا کم ہونا؟؟؟

Comments are closed.