نماز جمعہ كے بارے میں كچھ اور باتیں

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی
(عمید كلیۃ البحث والتحقیق جامعۃ العلوم ،گڑہا – گجرات)
بنیادی طور پر ذہن میں یہ بات ركھنے كی ضرورت ہے كہ ادلۂ شرع: قرآن ،حدیث، اجماع اور قیاس صحیح ، یہ جمہور علماء – جن میں مذاہب اربعہ بھی شامل ہیں – كے نزدیك متفق علیہ ہیں ، بقیہ آثار صحابہ ،عرف وعادت ، سدّ الذرائع، استحسان اورمصالح مرسلہ وغیرہ مختلف فیہ ہیں،جو اصول فقہ كےاہم مباحث ہیں، مقاصد شریعت بھی اصول فقہ كا ایك حصہ ہے ،قدیم فقہاء كے یہاں عام طور پر مصالح مرسلہ اوراستحسان كے ذیل میں ا س كی بحث ملتی ہے ، امام جوینی ؒ ، امام غزالیؒ ، امام شاطبیؒ اور علامہ عز عبد السلام ؒ نے خصوصیت سے اس پر بحث كی ہے ،ویسے مقاصد شریعت كا رشتہ قواعد فقہیہ سے بڑا گہرا ہے ، دور حاضر میں نئے مسائل كو حل كرنے اور نئی نسل اور روشن خیال دانشوارن كو شرعی مسائل سمجھا نے میں بڑا معین ومددگار ثابت ہوتے ہیں ؛جس كی وجہ سے عصر حاضر میں اس كی اہمیت دوبالا ہوگئی؛ اس لئے فقہی مسائل پر گفتگو كرتے وقت اس كو ضرور سامنے ركھنا چاہئیے ۔فقہی جزئیات یقینا ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ ہیں ؛ لیكن ان كی حیثیت ادلۂ شرع ہونے كی نہیں ہیں ؛ بلكہ یہ ادلۂ شرع سے مستنبط ومستخرج اور مستفاد ہیں ۔
پنجوقتہ نماز ہو یا جمعہ ان میں اصل یہی ہے كہ جماعت كے ساتھ ہو اور وہ بھی مسجدوں میں ؛ لیكن كورونا وائرس اور لاك ڈاؤن كی وجہ سے نماز ظہر گھروں میں ادا كرنے كی رخصت ہے ، خواہ جماعت كے ساتھ ہو یا بغیر جماعت كے تنہا تنہا ۔ اور جہاں تك جمعہ كا مسئلہ ہے تو گھروں میں جمعہ ادا كرنا درست نہیں ؛ كیونكہ اس كا بدل ظہر موجود ہے ، جو گھروں میں ادا كی جائےگی ، جیسا كہ اس سے پہلے بڑی تفصیل سے قرآن وحدیث ، اصول فقہ ، قواعد فقہیہ ، مقاصد شریعت اور فقہ اسلامی كی روشنی میں مختلف انداز میں بیان آچكا ہے ۔ یہاں گھروں میں نماز جمعہ كے بارے میں بعض لوگوں كی طرف سے بعض شبہات اٹھائے گئےہیں اور لوگوں میں غلط فہمیاں پید ا ہورہی ہیں ، اللہ تعالی كی مدد سےان كا ازالہ كرنے كی كوشش كرتا ہوں ، ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعا گو ہوں :“اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَأَلْهِمْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَأَلْهِمْنَا اجْتِنَابَهُ. فَمَنْ لَزِمَ الْحَقَّ لَمْ يَضُرَّهُ قِلَّةُ الْعَمَلِ، وَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الْحَقَّ لَمْ يَنْفَعْهُ كَثْرَةُ الْعَمَلِ” (شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين)۔
نئے مسائل كو حل كرتے وقت اس بات كو ذہن میں ركھنے بلكہ دل كے نہاں خانہ میں محفوظ ركھنے اور دامن دال سے باندھ ركھنے كی ضرروت ہے،كہ اسلام كا قانون فطرت انسانی سے یكسر ہم آہنگ ،ا س كے قانون كی خاص خاصیت: توازن ، اعتدال اور لچك ، اور لچك بھی ایسی كہ ہر زمانہ او ر ہر دور كے نِت نئے مسائل حل كرنے كی اس میں بڑی صلاحیت موجزن ہے ، وہ بھی دقت نظر اور توازن كے ساتھ حل پیش كرنے كی اہلیت ركھتا ہے ، یہ كوئی فرسودہ اور مردہ مذہب نہیں ہے بلكہ ہر دور میں زندہ ، تروتازہ اور اپڈیٹ ہے، اس میں كوئی شك نہیں ہے كہ زمانہ كی برق رفتار ی كے ساتھ چلنے كی صلاحیت ہی نہیں ركھتا بلكہ اس كی قیادت كی اہلیت ركھتاہے ۔اس پر واضح دلیل ایك یہ ہے كہ اسلام كے احكام كے دو طرح كے ہیں : ایك حالت اختیار اور معمول حالات كے ہیں ، دوسرے عذر ومجبوری ، اكراہ واضطرار اور اجباری حالات كے ہیں، اور دونوں كے احكام كے درمیان واضح فرق ہوتا ہے ،اور یہ مذہب اسلام كے ایك زندہ دین ہونے كی علامت ہے ، اس میں بڑی معقولیت ہے اور یہ عقل انسانی سے قریب تر بات ہے، ورنہ لوگوں كاا سلام پر عمل كرنا دشوار ہوجاتا اور شریعت باعث رحمت ہونے كے بجائے زحمت ، ناقابل عمل اور بوجھ بن جاتی ۔ ––– حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:«مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ، عُذْرٌ»، قَالُوا: وَمَا الْعُذْرُ؟، قَالَ: «خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى» (ابوداؤد، بَابٌ فِي التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ، حدیث:۵۵۱، مستدرك حاكم، حدیث:۸۹۶، سنن كبری از بیہقی، حدیث:۵۰۴۷)“ جس نےمؤذن كی پكار سنی اور اس كو نماز كے لئے (مسجد جانے سے ) كوئی عذر اور خوف مانع نہیں رہا ”، حضرات صحابہ كرامؓ عرض كناں ہوئے : عذر كیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا:“ خوف یا مرض ”۔ نیز امام بخاریؒ نے اپنی كتاب صحیح (باب الرخصۃ ان لم یحضر الجمعۃ فی المطر، حدیث :۹۰۱) اور امام مسلم نے اپنی كتاب صحیح (با ب الصلاۃ فی الرحال فی المطر ، حدیث: ۲۶ – ۶۹۹) میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل كیا ہے كہ انہوں نے اپنے مؤ ذن سے كہا : جب تم “ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ” كہہ لوگے تو تم “حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ” مت كہنا ، ا س كی جگہ“صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ” كہنا ، یعنی تم لوگ اپنے اپنے ٹھكانوں میں نماز پڑھ لو، لوگو ں نے اس كو برا سمجھا ، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایسا اس شخص نے كیا جو مجھ سے بہتر ہیں ، بیشك جمعہ واجبی عمل ہے ، لیكن میں نے ناپسند سمجھا كہ میں تم لوگوں كو مشقت وحرج میں ڈالوں، كہ تم لوگ كیچڑ اور پھسلائٹ میں آؤ”۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے كہ عذر ومجبوری كے وجہ سے نماز جمعہ اور دیگر نمازوں كی جماعت میں عدم شركت كی رخصت حاصل ہے اور لوگ معذور متصور ہوتے ہیں اور عدم شركت پر گناہ گار نہیں ہوتے ہیں ، حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے كہ مجبوری خواہ جسمانی ہو جیسے مرض ، اس میں كورونا وائرس وبائی مرض بھی شامل ہے ، جس میں سماجی دوری بے حد ضروری ہے اورمؤثر احتیاطی تدبیر وعلاج ہے ، یا خارجی ہو جیسے درندہ ، دشمن كا خوف ہو ، اس كے ذیل میں لاك ڈاؤن كے ماحول میں قانون شكنی كے پاداش میں پولیس كے ڈنڈے كھانے اور ایف آئی آر كیس كا ڈر وخوف ہو ، دوسرے الفاظ میں كہہ سكتے ہیں ہم اس ملك كے باشی ہونے كی حیثیت سے یہاں كے شہری ہیں ، اور شہری ہونے كی حیثیت سے ہم نےیہاں كے قانون پر عمل آوری كا عہد كیا ہے ، اور اس رو سے ہم یہاں كے قانون كی پاسداری اور اس پر عمل كے پابند ہیں ، اور شرعی نقطۂ نظر سے بھی ہم پر یہاں كے قانون پر عمل كرنا واجب ہے ؛ اللہ تعالی نے فرمایا : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ}[المائدة:۱]“اور اے لوگو جو ایمان لاچكے ہو! عہد پورے كیا ركرو”۔ اس كے بعد اگر ہم قانون كی خلاف ورزی كرتے ہیں یا اس كے علاوہ كوئی متبادل صورت پر عمل كرتے ہیں تو ایفاء عہد كے خلاف عمل ہوگا اورعہد كی خلاف ورزی كا گناہ ہوگا۔
دوسری عبادتوں كی طرح نمازبھی ایك ایسی عبادت ہے جس میں اعذار كی شدت كے لحاظ سے بتدریج تخفیف اور رخصت حاصل ہوتی ہے ، جس كی ترجمانی فقہ كا مشہور قاعدہ[ الْمَشَقَّةِ تَجْلِبُ التَّيْسِيرَ]كرتا ہے ، جو مختلف قرآنی آیات اور احادیث سے عبارت ہے۔ ایك حدیث شریف میں آیا ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمران بن حصین ؓ –جن كو بواسیر كی بیماری تھی – سے فرمایا :“ كھڑے ہو كر نماز پڑھو، اگر كھڑے ہونے پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ كر ، اور اگر بیٹھنے پر قدرت نہ ہو تو پہلو كے بل (لیٹ كر )”۔ (بخاري، تقصير الصلاة، باب إذا لم يطق قاعدة فصلى على جنب،حدیث:۱۱۱۷)۔ {فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ}[نساء: ۱۰۳]“پس جب تم نماز ادا كرو تو اللہ كو بیٹھے اور لیٹے ہوئے یاد كرو، ”۔ مريض كی نماز میں رخصت كے بارے میں نازل ہوئی ہے ، یہاں “ذكر” سے مراد نماز ہے ، مطلب یہ ہے كہ مریض اگر قیام پر قادر ہے تو كھڑے ہوكر نماز پڑھے گا ، ورنہ بیٹھ كر پڑھےگا، اگر بیٹھ كر پڑھنے پر قادر نہ ہو تو لیٹ كر پڑھے گا ، یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ،حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ سے منقول ہے (بدائع الصنائع:۱/ ۲۸۴، الجامع لأحكام القرآن للقرطبي :۴/ ۱۹۸)۔
اس سے واضح ہوگیا كہ موجودہ صورت حال میں كورونا وائرس كی وجہ سے سماجی دوری اور حكومتی قانون لاك ڈاؤن – جو كہ یقینا ایك معقول اور قرآن وحدیث ، اصول فقہ ، قواعد فقہیہ، مقاصد شریعت اورفقہ اسلامی كی روشنی میں معتبر عذر ہے – كی بناء پرلوگ مسجدوں میں جاكر نماز جمعہ اورپنچوقتہ نماز وں كی جماعتوں میں شركت سے معذور قرار پائے ، اب وہ اپنے اپنے گھروں میں جمعہ كے دن نماز ظہر ادا كریں گے ، جو كہ جمعہ كے دن نماز جمعہ كا متبادل ہے ، اوربلااختلاف تمام فقہاء قدیم اور حدیث اور معاصرین مفتیان كرام كے نزدیك اس كی نماز ظہر بغیر كسی كراہت كے درست ہوگی ، اور جن لوگوں كی نیت نماز جمعہ مسجد میں جاكر پڑھنے كی تھی لیكن كورونا وائرس اور لاك ڈاؤن عذر كی وجہ سے مسجد نہیں پہنچ سكے تو ان كو ان كی اپنی نیت كی بناء پر نماز جمعہ كا ثواب ملےگا "وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها المبيحة للتخلف” وكانت نيته حضورها لولا العذر الحاصل "يحصل له ثوابها” لقوله صلى الله عليه وسلم:”إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى” (مراقي الفلاح،ص:۱۱۳)۔
اب رہی بات گھروں میں نماز جمعہ كی بات تو جو لوگ گھروں میں نماز جمعہ پڑھ رہے ہیں ، ان كی نماز جمعہ مشكوك ادا ہورہی ہے؛ كیونكہ موجودہ حالات میں مالكیہ ، شافعیہ اور حنابلہ كے یہاں تو نماز جمعہ درست ہی نہیں ہوتی ہے ، اور احناف میں بھی اكثر معاصرین حنفی مفتیان كرام ناجائز ہی كا فتوی دے رہے ہیں(جیساكہ اس پہلے كے مضمون میں ذكر كرچكا ہوں مزید یو ٹیوب پر اس نام (Mufti Mustafa Nadwi)سےسرچ كیا جائے)، اورحدیث شریف میں آیا ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس میں شك وشبہ ہو اس كو چھوڑ كر غیر مشكوك اورمشتبہ كو اختیار كرو”۔ (ترمذى, أبواب صفة القيامة،حدیث:۲۵۱۸،بخارى موقوفا، باب تفسير المشبّهات)؛اسی وجہ سے فقہاء نے لكھا ہے كہ اشتباہ كے وقت خاص طور پرعبادات كے باب میں احتیاط كے پہلو كو اختیار كرنا واجب ہے “الْأَخْذَ بِالاحْتِيَاطِ عِنْدَ الاشْتِبَاهِ وَاجِبٌ”(بدائع الصنائع،فصل بیان ما ینقض الوضوء:۱/ ۲۷)، “الْأَخْذَ بِالاحْتِيَاطِ فِي بَابِ الْعِبَادَاتِ وَاجِبٌ”(رد المحتار:۲/ ۳۶۶، نیز دیكھئے: المحيط البرهاني :۱/ ۲۶۸، تبيين الحقائق: ۱/ ۲۶۲)۔
جو لوگ جمعہ كو گھروں میں جائز قرار دیتے ہیں ، ان كا كہنا یہ ہے كہ چونكہ جمعہ كی صحت كے لئے مسجد كا ہونا شرط نہیں ہے ؛كیونكہ حدیث میں مسجد كی شرط كی صراحت نہیں ہے ، توسوال یہ ہے كہ مسجد سے باہر نماز جمعہ صحیح ہونے كے لئےحدیث وقرآن میں كہاں ذكر ہے ؟ نیزسوال یہ ہے كہ عبادات كے باب میں خاص طور پر كسی حكم شرع كے ثبوت كے لئے نص چاہئیے یا عدم ثبوت كے لئے ؟ مسجد سے باہر نماز جمعہ درست ہونے كے لئے صریح نص یا كم ازكم عمل رسول یا آپ ﷺ كی وفات كےبعد عمل صحابہ چاہئیے،یہاں كچھ بھی نہیں ہے،اگر نص ضروری نہیں ہے تو بدعت اور جائز امر شرع كے درمیان فرق كیسے كیا جائےگا؟ اسی وجہ سے فقہاء اصولیین نے عبادات كے باب میں اصل ممانعت، توقیف اور تعبد قرار دیا ہے یہاں تك كہ كسی حكم كے ثبوت كے لئے نص مل جائے ،“الأصل في العبادات الحظر، وفي العادات الإباحة” (القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب للدكتور محمد مصطفى الزحيلي:۱/ ۱۱۲)،“الأصل في العبادات التوقيف”(الغرر البهية في شرح بهجة الوردية، فصل في بيان صلاة النفل للرملي ،ص:۷۹،القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب للدكتور محمد مصطفى الزحيلي:۱/ ۷۶۹)، “الأصل في العبادات التعبد،(نظرية المقاصد عند الإمام الشاطبي،ص:۱۸۷،۳۲۰،تيسير علم أصول الفقة للجديعي:۱/ ۱۷۵)۔––– نیز قابل غور امر ہے كہ آپﷺ اور حضرات صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے مواظبت كے ساتھ مسجدوں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے ، جس كو عملی متواتر كہا جاسكتا ہے ، متواتر سے وجوب وفرض ثابت ہوتا ہے ۔
موجودہ حالات میں گھروں میں جمعہ كے قائلین كا دعوی ہےكہ گھروں میں اذن عام پایا جاتا ہے ، اور اذن عام كی تعریف وتشریح كے لئے ماضی قریب كے ممتاز فقیہ حكیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ كی كتاب امداد الفتاوی (۱/ ۶۱۶، مطبوعہ :مكتبہ زكریا دیوبند) كا یہ اقتباس پیش كیا جاتا ہے :“اذن عام ہونا بھی منجملہ شرائط صحت جمعہ ہے، جس كے معنی یہ ہیں كہ خود نماز پڑھنے والے كو روكنا وہاں مقصود نہ ہو، باقی اگر روك ٹوك كسی اور ضرورت سے ہو ،تو وہ اذن عام میں مخل نہیں”۔ ––– سوال یہ ہےكہ اس تعریف وتشریح كے پیچھے كوئی نص یا اثر صحابی بھی نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے كہ یہ تعریف وتشریح یقینا معاصراكابر مفتیان كرام كی نظر سے گذری ہوگی ، اس كے باوجود انہوں نے عدم جواز كا فتوی دیا ، جن میں سرفہرست :مایۂ ناز فقیہ عصر، شہرۂ آفاق مفتی ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، حضرت مولانا رفیع عثمانی (صدر دارالعلوم كراچی ، پاكستان)، مشہور ومقبول عام وخاص حضرت مولانا مفتی طارق مسعود پاكستان،حضرت مولانا مفتی محمد پاكستان ( صدر دارالافتاء ، جامعۃ الرشید پاكستان)، حضرت محمود الحسن ؒ كے خلیفہ ارشدحضرت مولانا مفتی محمد طاہر (مظاہر العلوم سہارنفور) فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد، جنرل سكریٹری اسلامك فقہ اكیڈمی (انڈیا)، ركن مجمع الفقہ الاسلامی ، مكہ مكرمہ ) ، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی(شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مراد آباد)دامت بركاتہم اجمعین ہیں ۔ ان حضرات كے نزدیك موجودہ حالات میں گھروں میں جمعہ كی صحت كے لئے اذن عام كا تحقق نہیں ہورہا ہے ۔
غور كیا جائے! حضرت حكیم الامت نے كیا فرمایا : “ خود نماز پڑھنے والے كو روكنا وہاں مقصود نہ ہو”۔ یہاں خود نماز پڑھنے والے كواكھٹا ہو كر نماز پڑھنے سے روكا جا رہا ہے ، اور جمع ہوكر نماز پڑھنے سے روكنا مقصود ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تو پولیس نمازیوں پر لاٹھی نہیں چلاتی ، اور نہ ہی لوگوں كو گرفتار كرتی اور نہ ہی جمع ہوكر پڑھنے والے كے خلاف ایف آئی آر درج كرتی، اور یہ بات طے ہے كہ اگر مصلی كو جماعت قائم كرنے سے روكا جائے تو اذن عام نہیں پا یا جائے گا“لَا الْمُصَلِّي” (منحة الخالق على البحرائق، شُرُوطُ وُجُوبِ الْجُمُعَة:۲/ ۱۶۳)۔
قدیم فقہاء كے یہاں اذن عام كی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے كہ دروازہ كھلے ہوں ، لوگوں كو اندر آنے كی عام اجازت ہو، یہاں تك اگر كچھ لوگ جامع مسجد میں نماز جمعہ كے لئے جمع ہوجائیں اور اندر سے دروازہ بند كرلیں تو ان كی نماز جمعہ درست نہیں ہوگی، درج ذیل فقہی جزئیات پر غور كریں:“الإذن العام، وهو أن تفتح أبواب الجامع، ويؤذن للناس كافة حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا الأبواب على أنفسهم وجمعوا لم يجزئهم ذلك وكذلك إذا أراد السلطان أن يجمع بحشمه في داره، فإن فتح باب الدار، وأذن للناس إذناً عاماً جازت صلاته، شهدها العامة أو لم يشهدوها، وإن لم يفتح باب الدار وأغلق الأبواب كلها، وأجلس عليها البوابين ليمنعوا الناس عن الدخول لم تجزئهم الجمعة” ( المحيط البرهاني:۲/ ۸۶، الفصل الخامس والعشرون في صلاة الجمعة)۔
“ من شروط صحة الجمعة "الإذن العام” كذا في الكنز لأنها من شعائر الإسلام وخصائص الدين فلزم إقامتها على سبيل الاشتهار والعموم” (مراقى الفلاح، باب صلاة الجمعة ،ص:۲۹۴)۔
“الْإِذْنُ الْعَامُّ) أَيْ أَنْ يَأْذَنَ لِلنَّاسِ إذْنًا عَامًّا بِأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِمَّنْ تَصِحُّ مِنْهُ الْجُمُعَةُ عَنْ دُخُولِ الْمَوْضِعِ الَّذِي تُصَلَّى فِيهِ وَهَذَا مُرَادُ مَنْ فَسَّرَ الْإِذْنَ الْعَامَّ بِالِاشْتِهَارِ”۔ (رد المحتار:۳/ ۲۵)۔
اگرموجودہ حالات میں جو لوگ گھروں میں نماز جمعہ قائم كرتے ہیں تو مناسب ہوگا كہ وہ اذن عام كے تحقق كے لئے اپنے گھروں سے مائك سے اذان دیں“وَالنِّدَاءُ لِلِاشْتِهَارِ” (رد المحتار:۳/ ۲۵)؛ تاكہ لوگوں كو معلوم ہوجائے كہ فلاں صاحب كے گھر میں نماز جمعہ قائم ہورہی ہے ، یا اپنے باہر كے دروازہ پر جہاں سے لوگوں كا گذر ہوتا ہو ایك بینر آویزاں كردیں ،جس پر لكھا ہو كہ فلاں گھر میں ڈور نمبر اتنا غرضیكہ پورا پتہ لكھا ہو اور اپنے گھر كا دروازہ كھلے ركھیں؛ تاكہ وہاں تك لوگوں كا پہنچنا آسان ہو ،“وَلَيْسَ يُعْتَبَرُ لِلْإِذْنِ وُجُودُ صِيغَةٍ، بَلْ يَكْفِي مَا دَلَّ عَلَيْهِ مِنْ فَتْحِ الْأَبْوَابِ وَالتَّأْذِينِ، أَوْ كِتَابَةِ لَوْحٍ بِالْأَذَانِ”(مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى:۴/ ۲۷۲) یا آج كل پرنٹ میڈیا پر اشتہار واعلان دیدیں، یا مائك سے اعلان كردیں كہ میرے مسلم بھائیو! فلاں جگہ یا فلاں گھر میں نماز جمعہ كا اہتمام كیا جا رہا ہے ، اتنے وقت تك آپ لوگ پہنچ جائیں“الْإِذْنُ الْعَامُّ) أَيْ أَنْ يَأْذَنَ لِلنَّاسِ إذْنًا عَامًّا بِأَنْ لَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِمَّنْ تَصِحُّ مِنْهُ الْجُمُعَةُ عَنْ دُخُولِ الْمَوْضِعِ الَّذِي تُصَلَّى فِيهِ وَهَذَا مُرَادُ مَنْ فَسَّرَ الْإِذْنَ الْعَامَّ بِالِاشْتِهَارِ”۔ (رد المحتار:۳/ ۲۵) ۔اگر آپ ایسا كرسكتے ہیں تو آپ كی نماز جمعہ درست ہوگی ، ورنہ درست نہیں ہوگی ؛ اس لئے كہ جمعہ كی صحت كے لئے ایك شرط اذن عام مفقود ہوجارہی ہے ۔نیز حكومت كی طرف سے تادیبی كاروائی كے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔
نیز آخری بات اہل علم ودانش اور خصوصی طور پرارباب فقہ وفتاوی كی خدمت میں غور وفكر كے لئے پیش ہے : بعض محدثین كی تحقیق كے مطابق جمعہ مكی زندگی میں فرض ہوچكا تھا ؛ لیكن وہاں اذن عام كے لئے حالات ساز گار نہیں تھے؛كیونكہ مشركین كی طرف سے اذیت رسانی كا خوف تھا ، جس كی وجہ سے اذن عام كے ساتھ جمعہ پڑھنے كا موقعہ نہیں تھا؛ اس لئے گھروں میں جمعہ كی نماز نہیں پڑھ سكے (دیكھئے :نیل الاوطار:۳/ ۲۷۴، الدر المنضود علی سنن ابی داؤد:۲/ ۴۱۳)۔ اسی طرح آج كے حالات میں كورورنا وائرس كے پھیلنے كا خوف پایا جاتا ہے ، حكومت كی طرف سے لاك ڈاؤن نافذ ہے ، لوگوں كے اكھٹا ہونے پر پابندی ہے، قانون شكنی كے نتیجہ میں پولیس كی لاٹھی كھانے ، ایف آئی آر كیس اور سزا كا ڈر ہے ،جس كی وجہ سے اذن عام كے ساتھ نماز جمعہ گھروں میں ادا كرنا ناممكن ہے ۔
Comments are closed.