ہیں فرض شناس بھی اسی ہنگامہ میں

مولانا محمد نجیب اللہ خان گیاوی
امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
آج وقتی طورپرملک میں چھائی نفرت کی تاریکی، شرکے اٹھتے دھوئیں اور چلتی برفیلی ریت کے بیچ کچھ فرض شناس وخوددارایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھیں دیکھ کرخوشگوارحیرت ہوتی ہے کہ وہ اس سخت ترین لمحے میں بھی رخ شام کو صبح میں ڈھالنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں اور شب تاریک میں رہ رہ کر جگنوؤں کی طرح چمکتے ہوئے لمحاتی طورپرفضاکوضیاء پوش کرانسانیت کے سردجسم میں گرم خون کی اک روح دوڑانے ،نبض میں حرارت اور اعضاء میں جنبش پیداکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اوراپنی تمام ترصلاحیتیں مفسدذہنیت،غلط نفسیات کی عکاسی کرتی فضاکامداوائے پیہم کرنے پرجھوکے رہتے ہیں،وہ نہیں چاہتے کہ اس گھنگھور میں گلیوںکی گھومتی بلاؤوں اورماتم کرتی ہواؤں کا کسی شخص کے پاس سے ہرگزبھی گذرہو،وہ یہ جانتے ہیں کہ سماج ترقی ونموداری اورامن و سلامتی کی راہ پرمضبوط تانے بانے کے ساتھ چلتا چلا آرہاہے مگریہ خرمست میڈیاو بات فروش عنصراپنی دولتّی وجملہ فروشی کے ذریعہ اسے ڈھیرکرناچاہتاہے ،نفرت وفرقہ واریت کے خونی پنجے معاشرے کے دل ودماغ میں پیوست کرناچاہتاہے ،اخوت وبھائی چارگی کا دامن تارتاراوراتحاد پارہ پارہ کرناچاہتاہے ،وہ چاہتاہے کہ فرقہ پرستی کا عفریت دیوانہ واربرہنہ رقص کرے اورنفرت کی تاریکی پھیل جائے یہاں تک کہ مہذب وتعلیم یافتہ طبقہ بھی اپنی تہذیب،اپنی ثقافت،اپنے اقداراوراپنی روایات کاچہرہ نوچنے کوعظیم ترین کامیابی تصورکرنے لگے ،اور مشترکہ وراثت کا آبگینہ پاش پاش ہوجائے وہ مغزپاشی کے ذریعہ جذبۂ اخوت کوالفاظ میں قیدکرتے ہیں توکبھی سازنفس کی لہروں میں اسے تیرانے لگتے ہیں تاکہ محبت کی نئی لرزشیں پیداہوں اورفراق کے عرصہ میں بھی وصال کا لطف باقی رہے ،رنج آشناحالات،بتدریج بوسیدہ وکمزورہوتے جمہوری نظام کی بنیادوں کودیکھ کرانہیںاک درد ہوتاہے جو خوں بن کرآنکھوں سے بہتاہے توکبھی جنوں بن کردل میں رہتاہے وہ سوچتے ہیں کہ دنیاجب کہ نیوکلیر ٹکنالوجی، بایوٹکنالوجی،مائیکروٹکنالوجی کے میدان میں مسابقہ کررہی ہے ،دفاعی صلاحیتوں کوبروئے کارلاکراپنے مقاصداورنصب العین کے مطابق افرادسازی کے ذریعہ اپنی مشکلات پر قابو پانے کی کدوکاوش کررہی ہے تو ہمارا ملک آپسی کشمکش کا مسکن بنناچاہتاہے ۔
وہ بے کردار،بے روح،بے مقصدسیاست کارخ دیکھتے ہیں وہ اس کے منفی مرتب ہوتے اثرات کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کے توڑ کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ عوامی طورپر بہی خواہی اور تعمیری کاموں میں اشتراک وتعاون کا ماحول بنارہے ،لوگوں کے شعوروکردارکی بہتری اور مزید ترقی کے لئے راہ اعتدال اختیارکی جائے ،مظلوموں کی دادرسی کی جائے ،یکساں اور مساوی طورپرتمام افراد و طبقات کے جائزحقوق بلاامتیازاداکئے جائیں تاکہ ایک توازن کے ساتھ حقیقی ترقی کی راہ پردوبارہ گامزن ہواجائے ،یہی اہل نظر ہیں جو حال کے عکس سے مستقبل کے پردے میں وہ طوفان دیکھ رہے ہیں جوقلزم زور وجبرکی گہرائیوں میں پرورش پارہے ہیں،انھیں وہ بجلی کی کڑک سنائی دے رہی ہیں جو غربت کدوں پرکل کوگرنا چاہتی ہیں،انھیں وہ ہنگامے بے حجاب نظرآرہے ہیں جوسماج میں لاکھوں محشر برپاکرسکتے ہیں اوروہ فتنے دیکھ رہے ہیں جوجمہوریت کا محاصرہ کرناچاہتے ہیں،ان کے دلوں کویہ احساس بے قرارکئے رہتاہے کہ آج وطن جو بہت سی راحت وعافیت سے لبریز،پرسکوں قدرتی حسن وجمال سے مال ومال،کثرت معدنیات اور پیداوار میں نام آور،ہرطرف قدرت کے مناظر اپنی جمال آرائیوں پر نازاں وفرحاں،شاخ درشاخ اٹکھیلیاں کرتے شوخیوں میں مست پرندے ،دلوں کواپنی روح افزاو قلب انگیزخنکی سے پرامنگ کرتی ہوائیں،زمیں پرسبزوں کافرش اوراس پرچاندنی کی بچھی جازمیں،کیف آگیں وصحت بخش فضا،باغہائے دلکشاں اورسبزہ زارطراوت افزاکاہرجانب جلوہ،پتی،پتی،سبزہ سے نہال،پھلوں سے لدی شاخیں،آبشاروں کی آبداری اوران سے کشیدہ قندیلیں،گنگ وجمن کی سطح پربادنسیم کے جلو میں دھیرے دھیرے تیرتی کشتیاں،گھنے باغات اور اس کے نغمہ ریزگلستاں،جھیلوں کے خوبصورت ساحل یاپہاڑوں وصحراء کے قدرتی جنگلات،ترنم ریزپارکوں کی چھاؤں اوراس میں مہ سیماؤوں کی سیرونزاہت،چادرشب اوراس میں سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی لائٹوں کے قمقمہ ریزبوٹے ،رنگ برنگی تہذیب،قسم قسم کی روایات،مختلف اعتقادات،الگ الگ تعیشات،اپنے اپنے امتیازات کی جلوہ سامانیاں اس کی وجہ سے دوبارہ خرابے میں تبدیل نہ ہو جائے اوراس سے شوروگریہ ہزاراٹھنے لگے جس کی راہ میں نہ جانے کتنے کٹھن دن،کتنی صبرآزماں راتیں،کتنی دیدہ ریزساعتیں،کتنی آزمائشی گھڑیاں اور قیمتی جانیں لگی ہیں،وہ نقار خانہ میں پکارتے ہیں کہ ساجھی وراثت اور ساجھی شہادت کی تاریخ مِٹتی اورمنزل کھوتی جارہی ہے جس کی پناہ میں ہماراماضی شاندار رہاہے ،یقیناان کی اس آواز کو وہی لوگ سن سکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنالہو نچوڑکروطن کے پھیکے پھولوں میں لالی ڈال دی ہیں،بقاء باہم اورشرافت وکرامت انسانی کاہمیشہ چراغ روشن کیاہے ،جو وطن کے ذرے ذرے میں جمہوری روح بن کرسمائے ہوئے ہیں اور خوشبوؤں کی طرح ہراہل وطن کی پزیرائی کرتے رہے ہیں،ایسے ہی لوگ گلشن جمہوریت کے گل ہوتے ہیں جن کے خاکسترسے خوشبوئے حریت کاخمیراٹھتاہے ،ان کی نگاہوں کو ایکتا میں شان وعظمت نظرآتی ہے ،ان کے کانوں کوکثرت میں وحدت کے ترانے سنائی دیتے ہیں،وہ تخریب کارذہنیت کو متنبہ کرتے رہتے کہ یہ بات آویزۂ گوش بنالینی چاہئے کہ نفرت کے اٹھتے شعلوں کی روشنی میں کھوکر رات ورات سکندراعظم بننے کاخواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا، البتہ دن کے ماتم سے اٹھتے اندھیرے اسے نگل ضرور لیتے ہیں واقعی یہی لوگ اصل ہندوستان ہیںاور ان پر ہی ہندوستانیت ناز کرتی ہے ۔
اس وقت خرمست میڈیاکی برہم زن اور عزت مآبوں کے اس عنصرکی نفاق انگیز حرکتیں اور دروغ گوئیاں وحماقت مآبیاں معاشرے کوسیہ بختی کی طرف لے جارہی ہیں جس کے شکنجوں نے کتنے ہی زمیں زادوں کوتہ نشیں اور قوموں کو زیر و زبر کرڈالاہے جو تاریخ کے فرسودہ اوراق میں دبی کراہ رہی ہیں پر ایساکیوں نہ ہوجب میڈیا رخ جمال آراپر رہ رہ کے قربان اورقدوم رفعت مکاں پرجبہ سائی و ناصیہ فرسائی کو اپنی معراج وفرض منصبی تصورکرنے لگے ،قیس کے نہ جانے کن کن صحراؤں اور بیابانوں میں بھٹکنے لگے ،خوبان روزگارکے مژگاں کو قلم اور مردمک کودوات بنابیٹھے تومخمل کی کچھ نزاکتیں اس میں بھی آجاتی ہیں مگر افسوس کے لیلئی وقت کے بال سفید اور چہرے پرجھریاں پڑچکی ہیں اور یہ بات طے ہے کہ نفرت وخون سے اس کاچہرہ دھوکر اب شباب لوٹایا نہیں جاسکتااور نہ ہی اس کی زوال آمادگی سے اسے بچایاجاسکتاہے۔
ہندوستان بہت عظیم ملک ہے اس کی وجاہت بہت پرکشش ہے ،لہذاان غوغاروائیوں،بدقماشیوں سے اس کی عظمت،ایکتاکابل،بھائی چارہ کی قوت نہ مٹ سکتی ہے نہ ہی اس کاخبط نگاہ حسن،اس کا فزوں ترنظارہ،دل ودماغ کوموہ لینے ،عقل و خرد کومسحورکردینے والے اس کے مناظراورصدیوں پرانی تہذیب و ثقافت،گنگاوجمناکاسنگم ختم ہو سکتاہے ،ہاں اگرہم اس تعلق سے سنجیدہ نہیں ہوئے اورآئین کی روح بحال کرنے ،دستورکی منشااوراس کی ہدایات کے نفاذ کے ذریعہ ہرافتاد سے بچنے اورجمہوریت کے مستقبل پرکوئی آنچ نہ آنے پائے اس کی فکر،ثمرکوش جدوجہدکرنے کی کوشش نہیں کی تاکہ اخوت و حریت کی نسیم صبح کا گلوں کونویدتہنیت اورشبنم کوتبسم کاچلن سکھانے کی روایت باقی رہے تو علمی تہی مائیگی وسیمابیت کے مرکب یہ بداندیش اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گے اورٹکراؤ وتصادم کے جراثیم قوم کی وسیع سوچ وفکر میں سرایت کردیں گے اور یہ نازاختران دوراں چکورں کواسی طرح اپنے جلوے پرنچھاورکرتے رہیں گے جوقوم و ملت کی پرامن فضامیں گزرتی زندگی اور ملک کی سالمیت کے لئے نہایت ہی مہلک وتباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
Comments are closed.