ہندوستان، کورو نا اور اِنسانیت کا اُٹھتا جنازہ

 

 

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں صدیوں سے ہرمذہب اور ہرطبقے کے لوگ بلاتفریق شیروشکر کی طرح رہتے آرہے ہیں۔ یہ ملک چوں کہ رشیوں،منیوں، صوفیوں اور سنتوں کا دیش ہے اِس لیے یہاں کی مٹی میں انسان دوستی اور آپسی بھائی چارہ کی خوشبو اِس قدربسی ہوئی ہے کہ دشمن بھی ہم ہندوستانیوں کے اخلاق وکردارکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور ہزارکوششوں کے باوجود نفرت کی ہوا نکل جاتی ہے۔  اِس کی زندہ مثالیں خواجہ اجمیری، گوتم بدھ،مہاویرجین اور گرونانک جیسی عظیم ہستیاں ہیں جو زندگی بھر انسانیت، اُخوت ومروت اور اَمن وآشتی کا پیغام دیتی رہیں۔ مثال کے طورپر خواجہ اجمیری ایک پریشان اور بے حال کسان کی مدد کے لیے اجمیر سے سیکڑوں میل دور دہلی صرف اِس لیے چلے جاتے ہیں کہ کسان  کا دل نہ ٹوٹنے پائے اور اُسے اِس بات کا احساس نہ ہوکہ اُس کاساتھ دینے والاکوئی نہیں،جب کہ اُس کسان کی پریشانی دور کرنے کے لیے بادشاہِ وقت کے نام خواجہ اجمیری کا ایک پرچہ لکھ دینا کافی تھا۔ گوتم بدھ ایک جنازہ کو دیکھکر اِس قدر رَنجیدہ ہوئے کہ اُنھوں نے شہزادوں والی زندگی اورعظیم ترین سلطنت اور بادشاہت کو ہمیشہ کےلیے چھوڑدیا اور عمربھر لوگوں کے دکھی لوگوں کے دکھ اور درد کو بانٹنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ مہاویرجین نے اپنی ساری زندگی اِس پیغام کو عام کرنے میں گزاردی کہ ’’جیو ہتھیا پاپ‘‘ ہے، یہاں تک کہ اُنھوں نے کیڑوں  اور مکوڑوں کے مارنے کو بھی پاپ قراردیا اور اُس سے روکا۔اُن کے پیروکار آج بھی ماسک اِسی لیے استعمال کرتے ہیں کہ کہیں کوئی مچھر/مکھی اُن کے منھ میں نہ گھس جائے اور پھر اُس مچھر/مکھی کی ہتھیا ہوجائے۔گرونانک کا یہ پیغام آج بھی اُن کے ماننے والے پھیلا رہے ہیں کہ خبردار! کوئی بھی انسان کبھی بھوکا نہ رہنے پائے، اور اِس بات کا واضح ثبوت سکھوں کے یہاں برابرلنگر کاجاری رہنا ہے۔ چنانچہ اب جب کہ کورونا جیسی مہاماری نے پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہمارا ملک اور دیش بھی اس خطرناک مہاماری سے اچھوتا نہیں ہے،تو ایسے ماحول اور پریشانی کے عالم میں ہم تمام ہندوستانیوں کو ایک ساتھ اِس مہاماری سے لڑنا چاہیے اورہم سب کو اِس بیماری سے کیسے نجات اور چھٹکارہ ملے اِس کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف تخریب کاری ۔ ایسی گھڑی میں بالخصوص ہم میں سے ہرایک شخص پر لازم ہے کہ ہم سبھی اپنے اپنے مذہبی اوردھرم گروؤں اور مہاپُرشوں کے اخلاق وکردارکے مطابق اپنا اپنا فریضہ انجام دیں اور جو جس حیثیت اور صلاحیت کا مالک ہے وہ اُسی اعتبار سے مہاماری کے شکار لوگوں کو اور دیش کوفائدہ پہنچائیں اور اِمداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اور یہ خیال رہے کہ ہمیں اِس وقت یہ نہیں دیکھنا ہے کہ سامنے والا کس مذہب کا ہے، کس سماج کا ہے اورکس ذات/برادری سے اُس کاتعلق ہے بلکہ صرف یہ دیکھنا ہےکہ سامنے والاکس قدرضرورتمند ہے اور ہم اُس کی ضرورت کیسے پوری کرسکتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نہیں دیکھنا ہے کہ ریاست اور حکومت کے اہل کاروں کی طرف سے کمک اور راحت فنڈ آرہا ہے کہ نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم لوگ اپنے طورپر اپنے دیش اور اپنے سماج کے کمزوروں اور مزدوروں کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں وہ ہم ضرور کریں۔ اس کے بعد ہی ہم، ہمارا ملک اور ہمارا سماج اِس مہاماری پر قابو پاسکےگا۔ مثلاً ہم اپنے ملک و سماج کے متأثرین کو اِس طورپر سہولت پہنچاسکتے ہیں کہ اپنے پاس پڑوس پر نظر رکھیں کہ اِس مہاماری میں کوئی بھوکا تو نہیں سورہا ہے۔ اگر ہم چوبیس گھٹنے میں تین وقت کھانا کھاتے ہیں تو اِس وقت ہم دوہی وقت کھائیں اور ایک وقت کا کھانا علاقے کے اُن لوگوں تک پہنچائیں جن کے گھر کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں، جن کے بچے بھوک کے سبب مررہے ہیں اور جولوگ بھوکے سبب خودکشی کرنے پر مجبورو بے بس ہیں۔ اگر ہمارے علاقے میں کوئی دوا وغیرہ کا اِنتظام نہیں ہے تو مالدار افراد آگے آئیں اور دوا وغیرہ کا انتظام کریں تاکہ دوا بروقت بیمار لوگوں تک پہنچ سکے۔  ماسک وغیرہ دستیاب کرائیں اور لوگوں کو بیدار کریں کہ اگر اُنھیں کہیں باہر جانا ہوتو ماسک کے بغیر بالکل نہ نکلیں، ورنہ یاد رکھیں کہ اگر یہ بیماری علاقے کے کسی ایک فرد کو بھی لگ گئی اور اُس کا علاج بروقت نہ ہوسکاتو یہ بیماری نہ صرف متأثرہ شخص کو اپناشکار بناسکتی ہے بلکہ علاقے کے لوگوں کو بھی اپنی چپیٹ میں لے سکتی ہے،جیساکہ آج حالات اِس کے شواہد بھی ہیں۔

 راحت رسانی اور کمک پہنچانے کے تعلق سے دہلی میں شیخ عبدالحمید ایک بڑی مثال کے طورپر سامنے آرہے ہیں جو ایک کھلاڑی ہیں اور اِس مصیبت کی گھڑی میں اُنھوں نے تقریباً دس لاکھ لوگوں تک راشن-پانی پہنچانے کا بیڑہ اُٹھایا ہے اور اپنے کام میں بڑی تیزی سے مصروف بھی ہیں۔  مزید دوسری مثال سکھوں کی جماعت ہے جولاکھوں لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام روز کررہی ہے اور روز بھوکوں تک کھانا پہنچارہی ہے۔ممبئی اور دیگر ریاستوں کی بیشترتنظیمیں بھی اِس تعلق سے پیش پیش ہیں اور اپنے شہروعلاقے کے ضرورتمندوں تک ضرورت کی اکثرچیزیں پہنچارہی ہیں، اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سبھی تنظیمیں ہرطرح کے بھیدبھاؤ اور ذات -برادری کو دیکھے بغیر تمام ضرورتمندوں کی مدد کررہی ہیں اور پوری انسانی برادری کو ہرسہولت پہنچانے میں مصروف ہیں کہ یہی ہم ہندوستانیوں کی پہچان اور ہماری گنگاجمنی تہذیب وتمدن ہے، اور اِسی کے لیے ہمارا دیش پوری دنیا میں مشہور ومعروف بھی ہے۔ 

چنانچہ اِس مہاماری میں جب کہ ہم سبھی ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہیے اور اِنسان دوستی اور اُخوت ومروت کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے کورونا وائرس جیسی بیماری کے خاتمے کا کوئی کامیاب حل تلاش کرنا چاہیے، لیکن افسوس کہ کچھ ناعاقبت اندیش اور وحشی لوگ آج بھی اِنسانیت کا جنازہ نکالنے پرتُلے ہیں اورنفرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں، اور اِس کےلیے آئے دن  یہ لوگ کوئی نہ کوئی نیاشوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور ہم ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے اور بھڑانے کے فراق میں رہتے ہیں۔مثال کے طورپر یہی دیکھ لیجیے کہ کوروناوائرس پھیلنے کا سبب ایک خاص کمیونیٹی کو بتایاجارہاہے اوراِس بنیادپراکثریتی علاقوں میں اقلیتوں کو جانے سے روکاجارہاہے،یہاں تک کہ بعض ریاستوں میں اُس کے ساتھ بدسلوکی اور وحشیانہ برتاؤ بھی کیا جارہا ہے۔ پھرمنظم طورپراقلیتوں کو اکثریتی علاقوں میں سامان بیچنے سے روکاجارہاہے اورپہچان کے لیے ٹھیلوں پر بھگوا جھنڈا لگادیا جارہا ہے۔ غریبوں اورمزدوروں تک راحت فنڈ پہنچانے کی بجائے اُن کی پٹائی ہورہی ہے بلکہ آج پسماندہ طبقے کی حالت دھوبی کے کتے والی ہوگئی ہے کہ وہ نہ گھرکے ہیں اورنہ گھاٹ کے۔ حدتو یہ ہوگئی ہے کہ اُنھیں بھوکوں مرنے پر مجبورکیا جارہا  ہے۔ اِس بھیانک گھڑی میں نہ ہی اُن کے ساتھ دو میٹھے بول بولنے والا کوئی ہے اورنہ ہی اُن کے علاج ومعالجے کا کوئی معقول انتظام ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں میں حفاظتی دستوں کے ہاتھوں کئی موتیں ہوچکی ہیں۔ یوپی کے اکثریتی طبقے سے متعلق ایک بائیس سالہ لڑکے کو پولیس نے اِس قدر ماراکہ اُس نے تنگ آکر خودکشی کرلی۔  ایک شخص رضوان بھی پولیس کی پٹائی سے دم توڑچکا ہے،اور ایسے ہی جبل پور میں ایک ادھیڑ عمر شخص پولیس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترچکا ہے۔ایک بوڑھا شخص جس کے پاس راشن کارڈ نہیں تھاتو اُسے راشن نہیں دیا گیا، وہ بھوک کی مار نہ جھیل سکا اور چل بسا۔ یوںہی دہلی سے بیگوسرائے پیدل جاتے ہوئے ایک شخص نے صرف اِس لیے دم توڑ دیاکہ اُسے کئی دنوں تک کھانے کو نہیں ملا۔  ایک عورت نے اپنے پانچ بچوں کو صرف اِس لیے گنگا ندی میں پھینک دیا کہ اُس کے پاس بچوں کے کھلانے کے لیے کچھ نہیں تھا، اور یہ سب ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں کے امیروں اور حکومتی اہل کاروں کے کتے برانڈید کیک اور بسکٹ کھاتے ہیں اور برانڈید صابون سے اسنان کرتے ہیں ۔یہ تمام باتیں حکومت کے ساتھ ہم سبھی ہندوستانیوں کے لیے بھی انتہائی شرمناک اور ڈوب مرنے والی ہیں۔

غرض کہ آج انسانیت کی ساری حدیں پارکی جارہی ہیں حالاں کہ یہ وقت ایک دوسرے انسان کے کام آنے کا ہے اور ایک دوسرے کو اِمداد پہنچانے کاہے، لیکن ہم ہندوستانیوںکا ضمیر اِس قدر مردہ ہوچکا ہے کہ آئے دن یہ تمام حالتیں دیکھنے کے باوجود صرف اِس لیے خاموش بیٹھے ہیں کہ کوئی سانحہ ہمارے ساتھ پیش نہیں آرہا ہے جب کہ ہم سبھی لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب آگ لگتی ہے تو آگ یہ نہیں دیکھتی کہ کس کا گھر جل رہاہے، دوست کا گھر ہے /پھر دشمن کا۔  کیوں کہ آگ کا کام توجلانا ہے اور لگ جانے کے بعد وہ جلاکے ہی دم لیتی  ہے، اِس لیے ہمیں پڑوسیوں کے گھر میں آگ لگنے پر خوش ہونے کی بجائے اُسے بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کہیں ہمارا گھر بھی اُس آگ کی چپیٹ میں نہ آجائے کہ یہی عقلمندی ہے، اور بدقسمتی سے اِس طرح کا ایک دہشتناک سانحہ پیش بھی آچکا ہے جس کا تعلق مہاراشٹر کے ایک ضلع پال گھر سے ہے، جہاں کے دو سادھوؤں اور اُن کے ڈرائیو کوصرف شک اور غلط فہمی کی بنیاد پر ماب لنچنگ کے ذریعے بڑی بے رحمی سے قتل کردیاگیاہے۔ شرپسندوں کا یہ فعل بلاشبہہ وحشیانہ ہے اورسخت مذمت کے لائق ہے۔کسی بھی صورت مجرمین کی جاں بخشی نہیں ہونی چاہیے  بلکہ سبھی مجرمین کوفوراً پھانسی ہونی چاہیے کہ اِس طرح کے شرپسندافرادپورے ملک اورسماج کے قاتل ہیں۔مگر تھوڑی دیر کے لیے ہم ٹھہریں بھی، اور اِس پہلو پر دلجمعی سے غور کریں کہ اے کاش!پچھلے تمام ماب لنچنگ جیسے سانحے کے خلاف ہم سبھی ہندوستانی ایک سُراور تال میں آواز اُٹھائے ہوتے اور ماب لنچنگ کے مجرمین کو پھانسی کے تختے پر چڑھوادیے ہوتے،تو آج یہ نوبت دیکھنے میں نہیں آتی، کیوں کہ جب بھیڑیوں کے منھ کوخون لگ جاتا ہے تو وہ اپنی خونی پیاس بجھانے کے لیے یہ نہیں دیکھتا ہے کہ کس کا خون ہے بلکہ وہ صرف اپنی پیاس بجھاتا ہے، کیوں کہ اُسے تو بس اپنی پیاس بجھانے سے غرض ہوتا ہے۔لیکن ابھی بھی بعض انسان دشمن اور ملک دشمن عناصر اِس دردناک سانحے کے شکاراَفرادکے ساتھ ہمدردی اور اُن کے مجرمین کو کیفردکردار تک پہنچانے کی بجائے اِس سانحے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں کررہے ہیں، کیا دیش بھکتی کا  راگ الاپنے والے اِتنا گرچکے ہیں کہ اُنھیں اپنوں کی لاشیں بھی نظر نہیں آرہی ہے اور ایسے موقع پربھی اپنی نفرت اور وحشیانہ فعل سے باز نہیں آرہے ہیں!!

ایسے انسانیت سوز حالات میں آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ہندوستانی ایک بار پھر سے اُسی ہندوستانی سماج کو ترقی دیں جس کو خواجہ اجمیری نے تیار کیا تھا اور جس کا خواب گرونانک نے دیکھا  تھا۔ نیز جس کی تمناگوتم بدھ اور مہاویرجین جیسی مہاپُرشوں نے کی تھی کہ بھارت میں کوئی بھی انسان دکھی نہ رہنے پائے اورنہ ہی کوئی انسانی کسی انسان کی جان لینے پائے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ایک بار پھر ہمارا ہندوستان کوہِ نور کی طرح پوری دنیا میں انسانیت کے ماتھے پرگنگاجمنی جھومربن چمکے گا،تو آئیے ہم سبھی ہندوستانی ایسے تمام ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کے خلاف صف آرا ہوجائیں اور اِنسان دشمنوں کے اُن تمام حربے کو ہم ناکام کردیں جوہمارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہمارے دیش ہندوستان کو برباد کرنے کے درپے ہیں،چاہے وہ ہمارا بھائی ہی کیوں نہ ہو؟

 (ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد،9910865854)

Comments are closed.