رمضان کریم میں حرمین شریفین میں عبادات ومعمولات سے متعلق انتظامیہ کا اعلامیہ

مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
نبی کریم ﷺکے بعد ابوبکر اور ابوبکر کے بعد عمر اور دونوں خلیفہ عثمان وعلی ۔عشرہ مبشرہ اور پھر تمام کبار وصغار صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والا بڑے سے بڑا عالم اور کوئی فقیہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو اصحاب رسول کی دین فہمی ۔مزاج نبوت شناشی ۔منشا ٕ شریعت اور اس کے اسرارورموز کو سمجھنے میں ان کا مقابلہ کرے ۔اور دین وشریعت میں دوراول سے چلے آرہے عبادت وریاضت کے طریقوں سے ہٹ کر کوئی طریقہ ایجاد کرے ۔یا عبادات خواہ نفلی ہوں یا واجبی ان میں کسی طرح کی کمی بیشی کی جرأت کرے ۔اگر کوئی ایسی جرأت کرتا ہے تو یہ سمجھا جائےگا کہ وہ یہ بتانے اور جتانے کی جرأت کررہاہے کہ دین اور منشا ٕ دین۔ نیز شریعت کو وہ شاگردان رسول ﷺکے مقابلے زیادہ سمجھ رہاہے ۔اور اپنی فہم کو ان کے فہم دین پر ترجیح دینے کی کوشش کررہاہے ۔جس کو امت کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتی۔ خواہ وہ اپنے عہدہ ومنصب کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا انسان کیوں نہ ہو۔ شریعت اسلامی کا یہی وہ امتیاز ہے جس نے۔دین میں غلووتشدد کی راہ میں قدغن لگا رکھا ہے ۔سنن ونوافل کی ادائےگی میں اللہ کی طرف سے ملی ہوئی مراعات الگ شی ہے اور اللہ نے جو آسانیں دیں ہیں۔اسے کوئی لازم نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اس عمل کو کرتاہے تو اس پر کسی کو نکیرکا حق حاصل نہیں ہے یہ بندے اور رب کے درمیان کامعاملہ ہے اور سنن ونوافل قربات سے جڑا ہوا امر ہے ۔ اس وقت اس اعلامیہ کے تعلق سے سوشل میڈیا پر جوطوفان ہے۔ میں امام محترم کی نیت پر شک نہیں کررہا ہوں ۔مگریہ ضرور کہنا چاہتاہوں کہ اس کو اس انداز سے پیش کرنا اور نافذ کرنا کہ اس سے احکام میں تخفیف اورکسی ثابت شدہ حکم شرعی کے منسوخ کئے جانے کا پہلو نکل آئی یہ بات ہر صاحب ایمان کے لئے جو دین وشریعت کا شعور رکھتاہے بےچینی کاباعث ہوگی اور اس کو اس اقدام پر اعتراض کا حق ہوگا ۔جیسے قابل احترام امام حرم کے حرمین شریفین میں دوراول سے چلی آرہی تراویح کی 20 رکعات کی ادائےگی ۔ میں کمی کرکے 10رکعت کا اعلان ۔کرونا بیماری ۔جوابھی تک واضح ہی نہیں ہوپائی ہے کہ یہ ہے کیا۔اس کے تعدیہ کو بنیاد کر۔رمضان کے آخری عشرے کی حرمین میں اعتکاف کی منسوخی۔وغیرہ ۔اور وہ بھی اس وضاحت کے بغیر کہ یہ بیماری کی وجہ سے وقتی طور پر ایساکیاگیا ہے ۔اور شریعت کی طرف سے سنن ونوافل کی ادائےگی میں دی گئی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے پیش نظر ایساکیا ہے ۔یقینا امت میں تشویش پیدا ہونا ایک فطری بات ہے ۔اس اقدام کو لوگ اسی نقطہ نظر سے دیکھیں گے کہ گویا آج تک صحابہ سے لیکر امت کے سواد اعظم نے ۔احادیث۔ قران۔ شریعت ۔کو سمجھاہی نہیں ۔اور آج شریعت کی صحیح تصویر دور جدید کے چند ماہرین کی کدوکاوش سے نکل کر آئی ہے اور چلو تراویح تو دس ہی تھی دنیا نے اب تک بیس کے بھول بھلیا میں ہم لوگوں کو رکھا گیاتھا ۔جب اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو لوگ دونوں طرف سے دلائل اور کتابوں کا انبار لیکر بیٹھ جاتے ہیں ۔اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہے ۔بہت بحثیں آج تک ہوچکی ہیں ۔بہت بڑا ذخیرہ نصوص وشواہد کا جانبین سے موجود ہے ۔کسی کورد نہیں کیا جاسکتا ۔کسی کی راہ کو دوسرے پر تھوپا نہیں جاسکتا۔کسی کی نکیر نہیں کی جاسکتی۔امت دور اول سے جن ثابت شدہ اصولوں پر عمل کرتی چلی آئی ہے بلا کم وکاست ان پر عمل کرنے دیا جائے ۔امت کو اللہ کے واسطے امت رہنے دیا جائے ۔چند اشخاص کی فروعی مسائل میں اجتہادی آرا ٕ کی ترجیح وخوشنودی امت کو بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔قابل فہم اور جامع انداز میں شریعت کی رہنما علما ٕ امت کا فریضہ ہے۔اس وقت پوری امت چوطرفہ نشانے پر ہے ۔حرمین شریفین کی اجتماعیت اور مسجد اقصی کے تقدس کو پامال کردینے کے درپے ہیں ۔کون کس طرح عالم عربی اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کو نقصان پہونچانا اور دین سے دور کرنے کی سازش کررہے ہیں ۔اس کا ادراک بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو حق وسداد پر باقی رکھے ۔میں ذاتی حیثیت میں امت کا ایک ناقص فرد ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ۔امام محترم سے گزارش کروں گا چونکہ وہ حرمین کے امور کے ذمہ دار ہیں کہ وہ ۔اس اعلامیہ پر نظر ثانی کرتے ہوئےمناسب وضاحت فرمائیں۔ تاکہ عالم عربی کے باہر جو دیگر مناہج ومشارب شریعت کے پیروکار ہیں اور الحمدللہ اہل سنت ہیں ان میں جو غلط میسج اس موجودہ مبہم اعلامیہ سے جارہاہے اس کا ازالہ ہوسکے ۔امید کے اس پر فوری توجہ دی جائےگی ۔

Comments are closed.