اعمال رمضان کے سلسلے میں حرمین شریفین کے لیے ایک نا مبارک فیصلہ

مولانامحمد شاہد ناصری الحنفی
ادارہ دعوۃ السنہ ویلفیر ٹرسٹ ممبئی
میری طرح عالم کے تمام مسلمانوں کے لیے یہ خبر حیرت واستعجاب کا نہیں بلکہ انتہائی افسوس اور صدمے کا باعث ہے کہ خلیفئہ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمہور صحابئہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے اور اتفاق سے رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پورے عالم کے اہل ایمان کے لیے جاری کیا تھا اور اس وقت سے لے کر تادم تحریر پورے عالم کے اہل ایمان نے ہمیشہ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح کا اہتمام کیا، مسجد حرام ومسجد نبوی اور اسلام کی پہلی مسجد (مسجد قباء) میں بھی سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے لے کر گذشتہ رمضان المبارک تک بیس رکعت تراویح کا اہتمام ہوتا رہا ہے ۔
جزیرۃ العرب میں جب نظام مملکت آل سعود کے ہاتھوں میں آیا تو انہوں نے بھی بیس رکعت تراویح کے نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کیا، البتہ آل سعود نے حرمین شریفین اور دیگر مساجد میں تہجد کی نفلی نماز جو انفرادی عبادت کا عمل ہے اس کو جماعت سے پڑھنے کا لزوم اختیار کرلیا، اس طرح بالخصوص حرمین شریفین میں تراویح کی بیس رکعت بعد نماز عشاء اور تہجد کی دس رکعت دو دو کرکے رمضان المبارک کا معمول بن گیا، مگر تہجد کی باجماعت نماز کا سلسلہ آخری عشرہ میں شروع ہوتا۔
مسلمانوں نے رمضان المبارک کے اعتبار سے اس با جماعت عمل کو بھی قبول کرلیا گو کہ تہجد کی اس با جماعت نماز کا تصور عہد صحابہ میں نہیں تھا ۔
امسال 2020 ء کے آغاز سے قبل ہی ایک وبائی امراض بنام "کورونا وائرس” نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں کیا لیا کہ صنعتی موچی سے لے کر وزیرِ اعظم اور مذہبی مولوی سے لے کر مفتئ اعظم تک اس وبائی امراض سے اس قدر دہشت اور خوف میں ہو ہوگئے کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے، اور بعض لوگ تو اس وائرس کی دہشت میں اتنے روئے کہ زندگی میں اللہ کے خوف سے اتنے کبھی نہیں روئے ہوں گے۔
اور پھر اس پر طرہ یہ کہ بعض حضرات نے اس کو "تقدیر کا لکھا” کہہ کر قلت اعمال صالحہ کے لیے جواز پیدا کرنے کی بھی کوشش فرمانے لگے۔
اس صورتحال پر مجھے کسی کا یہ شعر یاد آیا کہ ۔ع
بنا کے تقدیر کا بہانہ
عمل سے فارغ ہوا مسلماں
کرونا کے اس خوف سے کہ یہ متعدی ہے سب سے پہلے حرمین شریفین کو بند کردیا گیا اور عمرے پر پابندی لگادی گئی، اور یہ اس ملک کے علماء کی ایماء پر ہوا جس ملک کے لوگوں نے ماضی میں جنگل کے شیر، چیتا اور درندوں کو جنگل خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔
جس ملک کے فرزند کے ایک خط پر بند دریائے نیل جاری ہوگیا تھا ۔
ان لوگوں نے اسی ملک کے مکہ مکرمہ میں اپنے خالق ومالک کے گھر (کعبہ) کے صحن میں بیٹھ کر ایک در یتیم اور اپنے خالق ومالک کے معصوم بندے سیدنا محمد بن عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر ایمان ویقین حاصل کیا تھا۔ اور اب بھی ان کے بعد ان کے نقوش موجود ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ اس سرزمین پر رہنے والوں کے دل وائرس کی وبا کے خوف سے اتنے دہل گئے اتنے لرز گئے کہ مشیت الہی کے خلاف اس مرض کو گویا اپنے اندر سرایت کرتا ہوا محسوس کرلیا اور اعمال شرعیہ کے تمام مراکز اور جمیع مسلمین وجمیع اہل عالم کے قبلہ کعبۃ اللہ شریف کو اور مرجع ومقتدی مسجد نبوی شریف کو بھی مقفل کردیا اور انہوں نے اپنے سے دور رہنے والے ابرہہہ کی اقتداء شروع کردی۔
کیا یہ مسلمانان عالم کی رسوائی نہیں ہے کہ روح شریعت کو احتیاط کے نام پر مجروح کردیا گیا اور اب حرمین شریفین کی انتظامیہ کے سربراہ اعلیٰ شیخ عبد الرحمن السدیس نے محض اس خوف کی بنیاد پر سبدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اور تمام اسلاف سے انحراف کرتے ہوئے اتباع ہوی ونفس میں رمضان المبارک کی بیس رکعت تراویح کو نصف کرکے دس رکعت تراویح پڑھنے کا اعلان کرکے روایات سلف سے انحراف کیا ہے اور خود حنبلی المسلک ہونے کے باوجود امام اہل سنت سیدنا حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک سے بھی منحرف ہوئے ہیں، دس رکعت کی تراویح کی دلیل وہ کہاں سے امت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں؟
خبروں کے مطابق تراویح کی نماز دو امام صاحب پڑھائیں گے، پہلے امام تراویح کی چھ رکعت اور دوسرے امام چار رکعت اور تین وتر ادا کریں گے، وتر کی تیسری رکعت میں بہت مختصر دعا ہوگی، اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ یعنی اکیسویں شب سے تہجد کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے گی۔
اسی طرح امسال مسجد حرام ومسجد نبوی میں افطار کا انتظام نہیں کیا جائے گا، دونوں مساجد میں ہر سال لاکھوں معتمرین وزائرین ضیوف اللہ وضیوف الرسول افطار کیا کرتے تھے۔
نیز مسجد حرام ومسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کی ایک اہم سنت اعتکاف ادا نہیں کیا جائے گا
مملکت سعودی عربیہ کے نامور عالم دین، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی شیخ عطیہ محمد سالمؒ (متوفی 1999) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح أکثر من ألف عام في المسجد النبوي) لکھی ہے، جس میں انہوں تاریخی شواہد کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ مسجد نبوی میں پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس رکعت سے کم تراویح ادا نہیں کی گئی ۔
مسجد حرام میں بھی بیس رکعت نماز تراویح ہی ہوتی چلی آرہی ہے ۔
خلفاء راشدین، خلافت بنو امیہ، خلافت بنو عباسی اور خلافت عثمانیہ میں ایک مرتبہ بھی رمضان کے آخری عشرہ کی ہر رات کو نماز تہجد کی جماعت کا باضابطہ التزام واہتمام نہیں کیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کے قول وعمل اور صحابہ کرام کے عمل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ پورے سال پڑھی جانے والی نماز تہجد اصل میں انفرادی نماز ہے، جس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش تو ہے، لیکن تعین وقت اور جماعت کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام کرنا صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عمل کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے طریق پر عمل کرتے ہوئے نماز تہجد کا انفرادی طور پر گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
اسی طرح اگر دس رکعت تراویح کے بجائے آٹھ رکعت تراویح کا فیصلہ کیا جاتا تو بھی سمجھ میں بات آتی کہ امت مسلمہ کی ایک جماعت کی رائے کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا گیا ہے، اگرچہ جمہور علماء وفقہاء وچاروں ائمہ نے بیس رکعت تراویح کی رائے کو اختیار کیا ہے۔
اسی طرح جب سن دو ہجری میں تیس روزہ مسلمانوں پر فرض کیا گیا اسی سال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ وفات تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور بڑے بڑے محدثین، مفسرین اور فقہاء نے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پر تا زندگی اہتمام سے عمل فرماتے تھے،
لہذا حرمین میں اعتکاف کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی اسی طرح باطل ہے اور اتباع ہوی میں ہے جس طرح تراویح کی دس رکعت کو ساقط کرنے کا فیصلہ ہے۔
چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کرونا وائرس جیسے وبائی امراض کا پھیلنا کوئی انہونی بات نہیں ہے، بلکہ متعدد مرتبہ اس قسم کے وبائی امراض پھیلے ہیں حتی کہ جزیرۃ العرب میں بعض وبائی امراض سے ہزاروں افراد کی موتیں ہوئی ہیں لیکن کبھی بھی حرمین شریفین یا دیگر مساجد کو بند کرنے یا کسی اہم عبادت میں تخفیف کرنے کا فیصلہ کسی اسلامی ملک کے سربراہان یا وہاں کے مفتیان یا مذہبی پیشواوں نے نہیں کیا، چونکہ وبائی امرض سے حفاظت کے لیے تدابیر اور احتیاط تو ضرور اختیار کرنی چاہیے کہ ہمیں اسلام نے اس کاحکم دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سبق بھی دیاہے کہ مشیت الہی کے بغیر کسی کا مرض نہ کسی صحت مند آدمی میں منتقل ہوسکتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے ۔
اس لیے اگر تخفیف افراد کے ساتھ حرمین شریفین میں نماز تراویح کی اجازت دی گئی ہے تو وہی افراد محض خوف کی بنیاد پر دس رکعت کیوں پڑھیں گے؟
کیا بیس رکعت تراویح کے دوران یہ افراد وائرس کے شکار ہوجائیں گے اور دس میں نہیں ہوں گے۔
اسی طرح آخری عشرہ کا تہجد تو اس وبائی امراض کے زمانے میں اس انفرادی عمل کو جماعت کے لزوم سے مستثنی کردینا چاہیے اس لیے کہ روزانہ اول شب اور آخری شب میں آمد ورفت کی شکل میں تو زیادہ خطرے کا امکان ہے، مگر کیا عرض کیا جائے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ہم انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ محترم شیخ عبد الرحمن السدیس صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا اپنی شرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ آپ کا یہ دس رکعت تراویح کا اور اعتکاف کے ساقط کرنے کا فیصلہ شرعا اور دیانتًا بھی درست نہیں ہے، مسلمانان عالم کے قلوب کو آپ نے اسلاف کی روایت سے انحراف کرکے مجروح کردیا ہے، آپ نے ہندوستان کے ابو الفضل فیضی کی تقلید کرکے اپنے منصب کو رسوا اور داغدار کیا ہے، آپ نے اقتدار اور حب جاہ ومنصب کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ واضح طور پر گویا شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف سلام) میں کتربیونت اور تحریف کے مترادف ہے۔
ہم اس سے براءت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور خادم الحرمین الشریفین سے اپیل کرتے ہیں کہ حرمین شریفین میں سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے تاحال جاری بیس رکعت پڑھی جانے والی تراویح کو پھر سے جاری کروا کر شریعت وسنت کو تحریف سدیسی سے محفوظ کروانے کی سعی کریں۔
وبا اللہ التوفیق۔

Comments are closed.