امت مسلم جاگ ذرا !!

اُم کلثوم، حیدرآباد
آج امت کے نو نہالوں کے دلوں میں جدید ترز زندگی کی اس قدر کشش پیدا کردی گئ ہے کہ اب انہیں اسلامی طرز فکر میں ڈھالنا والدین اور سرپرستوں کو ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔اور ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش میں امت کا ایک کثیر طبقہ ایسے عناصر کو بھی اپنانے پر رضامند ہو گیا ہے جو بظاہر اسلامی ذہن سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن درپردہ ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ تاریخ اسلامی سے روشناس کرانے کا دعویٰ کرکے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے والی فلمیں اور سیریل بھی دراصل اسی دام فریب کا ایک حصہ ہے۔ جدید تہذیب سے متاثر بہت سے مسلمان ایسے شیطانی ہتھکنڈوں میں پھنس چکے ہیں ۔ حال ہی میں خلافت عثمانیہ کی تاریخ اور مسلمانوں کے کارناموں سے واقف کروانے کا ڈھونگ رچاکر سچ اور جھوٹ کی آمزش کرکے ارتغرل سیریز کے نام سے سیریل تیزی سے مقبول عام ہوئے ہیں۔ وہ مسلمان مرد و خواتین جو اسلاف کے کارناموں سے نئ نسلوں کے محروم ہوجانے کا بڑا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں وہ ان بےپردگی،عریانیت ، عشق و محبت کی کہانیوں، موسیقی اور غیر اسلامی تہذیب کو فروغ دینے والی سیریل کو دیگر ڈراموں کی نسبت بہتر متبادل سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اسلامی تاریخ سے جوڑ سکتے ہیں۔ یاد رکھیے مسلمان تاریخ سے پہلے اسلام سے جڑتا ہے۔ اور جب وہ حقیقی معنوں میں اسلام سے واقف ہوجاتاہے تو خود بخود تاریخ سے اُس کا رشتہ جڑجاتا ہے بلکہ وہ خود ہی ایک تاریخ رقم کرلیتا ہے۔ تعلیمات اسلامی سے صحیح طور سے واقف ہوجائیے تو اپنی نسلوں کی رہنمائی کے صحیح طریقے بھی آپ کی سمجھ میں آ جائیں گے ،لیکن احکام الٰہی سے آنکھیں چراکر خواہشات کی پیروی میں اس طرح کے فرضی کرداروں میں اسلام کی روح تلاش کروگے تو سوائے نقالی کے کوئ اسلامی جذبہ آپ اپنے اندر پیدا نہ کرسکیں گے۔
افسوس کہ اُمت کی جن ماؤں کی گود میں اسلام کو پلنا تھا وہاں اب اداکار پل رہے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب مسلمان والدین بے پناہ قربانیاں دیکر اسلامی نقوش پر تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیتے تھے لیکن آج اولاد کی تربیت کے لیے عصری تعلیم گاہوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے اور جب مسلماں کو مسلمان کرنے کی بات آتی ہے تو پھر ایسے جدید ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے جو اُن کی دانست میں اُن کے بچے آسانی سے قبول کرسکتے ہیں اور یہ طریقہ اب صرف بچوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ وہ افراد جو اپنی بے پناہ ، قیمتی مصروفیات کے سبب ماضی کے اوراق پلٹنے سے قاصر رہتے ہیں وہ بھی نہایت جوش و خروش سے اپنے بزرگوں کی جرات و شجاعت کا مشاہدہ کرنے اہل خانہ کے ساتھ اس ‘ کارِخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔
اے امت محمدیہ! کیا تم اب اس مقام تک گر چکے ہو کہ پیشہ ور اداکاروں میں اپنے اسلاف کے عظیم کرداروں کو تلاش کرکے ہو ؟ کیا یہ اداکاریاں واقعی تمہارے اندر اسلام کے لیے قربانیاں دینے کے جذبات پیدا کریں گی؟ کیا تمہاری عقلیں نامحرم اداکاروں اور اداکاراؤں کی طرف نگاہ کرتے وقت قرآن کی اُن آیات کو بھول جاتی ہیں جن میں ایمان لانے والوں کو اپنی نظریں نامحرم سے بچاکر رکھنے کا واضح حکم دیاگیا ہے؟ آخر تم کس خبیث چیز کو متبادل سمجھ بیٹھے ہو ؟ خباثت کو خباثت کے ذریعے نہیں بلکہ اچھائ کے ذریعہ پاک کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کیا تم بتاسکتے ہو کہ مدینہ کی گلیوں میں جب شراب بہائی گئ تو مسلمانوں نے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کس متبادل کا مطالبہ کیا تھا؟
انہوں نے کسی دوسری شراب کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اللّٰہ کی رضا کے طالب بن گئے۔تمہیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار بننے کا حکم دیا تھا، اور تم آج ایک شر کے کام میں پوری دلجمعی سے تعاون کررہے ہو ؟ اگرتمہارا یہ دعویٰ ہے کہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت، شجاعت و بہادری کے تمام گُر ٹیلی ویژن کے پردے سے تمہارے ذہن و دل میں منتقل ہو جائیں گے تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ مسلمان کی شجاعت اُس کے مضبوط ایمان پر منحصر ہوتی ہے پھر چاہے اُس کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئ تلوار اور جسم پر پیوند لگا کُرتا ہی کیوں نہ ہو۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ بہادری کا کوئی نمونہ بننے سے پہلے مسلمان حقیقت میں مسلمان بن کر ان حالات میں اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرے ۔ ماہ رمضان المبارک میں احکام الٰہی کو پامال کرتے ہوئے سیریل میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام کا ازسرنو مطالعہ کرنے میں لگ جائیں؟عزم پختہ ہو ،ارادہ نیک ہو تو راہیں بھی آسان ہوجاتی ہیں اور نسلیں بھی سنور جاتی ہیں۔ اللّٰہ رب العزت ہم تمام کو ھدایت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Comments are closed.