رمضان کا استقبال کس طرح ؟

نثار احمد حصیر القاسمی
(شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ حیدرآباد)
[email protected] 0091-9393128156

اللہ تعالیٰ نے بندوں پر جو بے شمار انعامات و احسانات کئے ہیں ، ان میں سے ایک بڑا احسان و انعام یہ ہے کہ انھیں بعض ایسے بابرکت لمحات و اوقات عطا کئے ہیں ، جن میں دُعائیں قبول کی جاتیں اور اعمال صالحہ کے ثواب کو خوب بڑھا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی اوقات میںسے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے ، یہ توبہ و انابت کا زریں موقع ہے کہ بندہ اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگ کر معاصی سے پاک وصاف ہوسکتا ، اور اپنے ایمان کی تجدید کرکے اس میں نکھار پیدا کرسکتا ہے ۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ رمضان کی پہلے سے تیاری کریں جیساکہ خود رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور سلف صالحین کیا کرتے تھے ، اللہ کے نبی ﷺ دُعاء فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ ہمارے لئے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچادے ، پھر جب رمضان آجاتا تو وہ پہلے سے زیادہ طاعت و بندگی میں لگ جاتے ، عمل خیر کے ذریعہ اس کا والہانہ استقبال کرتے اور شب و روز کی ان کی مشغولیت یکسر بدل جاتی تھی ، صحیح الترغیب والترہیب کی روایت ہے ، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس رمضان آئے اور اس سے پہلے کہ اس کی مغفرت ہوتی وہ گذر جائے اور اس شخص کی ناک خاک آلودہو جس کے پاس اس کے والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کرسکیں ۔ ( الترغیب والترہیب ، حدیث نمبر : ۱۶۸۰)
بلا شبہ بندہ خطاکار ہے ، گناہ ہوتے رہتے ہیں ، حدیث میں ہے کہ : ’’ کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون‘‘ ہر اولاد آدم خطاکار ہے اور سب سے اچھا خطاکار توبہ کرنے والا ہے ، اللہ تعالیٰ نے رمضان کا موقع اسی لئے دیا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کو اس ماہ میں معاف کرانے کی کوشش کریں ، اس بابرکت گھڑی کو ضائع نہ ہونے دیں ، ورنہ ہمیں کف ِافسوس ملنا پڑے گا اور اس وقت پچھتانا پڑے گا جب کہ ہمارا پچھتانا کام نہیں دے گا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے : اے میرے پروردگار مجھے لوٹادے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ۔ ( المؤمنون : ۹۹)
اللہ کے نبی ﷺ نہایت خوشی و مسرت اور شادمانی سے اس ماہ صیام کا استقبال فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام کو اس کی آمدکی خوشخبری دیا کرتے تھے ، حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آیا ہے ، یہ بابرکت مہینہ ہے اس کے روزے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کئے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے اور سرکش شیطانوں کو ہتھکڑیاں لگادی جاتی ہیں ، اس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے ، جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ سراپا محروم رہا ۔ ( صحیح الجامع : ۵۵)
اس کا تقاضہ ہے کہ ہر مومن فرحت و انبساط اور بشاشت قلبی کے ساتھ اس ماہ مبارک کا استقبال کرے ، اس کی آمد پر اپنے اندر شادمانی محسوس کرے اور خیال کرے کہ یہ خیر و برکت ، نیکی و بندگی ، عفو و درگذر اور طاعت و عبادت کے ایام ہیں ؛ لہٰذا اس کے پانے پر جس قدر خوشی ہو کم ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’’ واذا انزلت سورۃ الخ ‘‘ ( التوبۃ : ۱۲۴) اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے ، تو جو لوگ ایمان والے ہیں تو اس سورت نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبارک ومسعود گھڑی کی آمد اور بابرکت چیز کے حصول پر اظہار مسرت محمود و مستحسن اور صحابہ کا طریقہ ہے ۔
ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا اور اس فضل خداوندی پر اس کی حمد و ثنا بیان کرنی چاہئے کہ اللہ نے اس کا موقع عطا فرمایا ، مسند احمد کی روایت ہے حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ بنو قضاعہ کے دو شخص رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہوئے ، ان میں سے ایک شخص شہید ہوگئے اور دوسرے کی وفات ایک سال بعد گھر میں ہوئی حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا جنھوں نے ایک سال بعد بستر مرگ پر وفات پائی وہ شہید ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل کئے گئے ، اس پر مجھے بڑا تعجب ہوا ، جب صبح ہوئی تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
کیا بعد والے نے اس کے بعد رمضان کے روزے نہیں رکھے ؟ اور چھ ہزار رکعت نماز نہیں پڑھے ؟ یا آپ نے فرمایا کہ پورے سال اتنی اتنی رکعتیں نماز اس نے اس کے بعد نہیں پڑھا ؟ (مسند احمد : ۱۶؍۱۷۰)
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر اخلاص و للہیت پیدا کریں ، اپنی نیت درست رکھیں ، ماں باپ ، بیوی بچوں کے حقوق ادا کریں ، نگاہ و زبان کی حفاظت کریں ، اور گناہوں سے توبہ کرنے کے بعد رمضان میں داخل ہوں اور زیادہ کھانے پینے کا اہتمام کرنے سے پرہیز کریں ، کچھ لوگ اس پر کچھ زیادہ توجہ دیتے اور دن بھر کی تلافی رات میں کرنا چاہتے ہیں ، یہ مناسب نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہئے ، ابن ماجہ کی ایک صحیح حدیث ہے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار کیا تو آپﷺ نے فرمایا :
ہمارے پاس ڈکار کرنے سے پرہیز کرو ؛ کیوںکہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ طویل بھوک اس کی ہوگی جو دنیا کے گھر میں سب سے زیادہ پیٹ بھرنے والا ہوگا ۔ ( صحیح ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۲۷۲۱ )
ہمیں یہ بھی چاہئے کہ ہم نماز ، روزہ تراویح اور دیگر اعمال کے احکام و آداب سے واقفیت حاصل کریں ؛ کیوںکہ بسا اوقات احکام و شرائط اور آداب سے عدم واقفیت کی وجہ سے انسان بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنے ے اور عبادت میں وقت لگانے کے باوجود ثواب سے محروم رہ سکتا ہے ۔
اس سال رمضان اس طرح آیا ہے کہ ہم گھروں کی چہار دیواریوں میں بند ہیں ، آنے جانے ملنے جلنے اور احباب کی زیارت سے محروم ہیں ، باہر کرفیو کا سماں ہے ، سڑکیں اور گلیاں سنسان ، مسجدیں مصلیوں سے خالی اور بازار و دوسرے مقامات ویران ہیں ، کورونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے ۔
خیر کا پہلو یہ ہے کہ لہو و لعب اور برائیوں کے اڈوں سے بھی انسان دُور ہے ، خوفِ خدا سے نہیں تو کم از کم خوف وبا ہی سے انسان بہت سے معاصی سے بچا ہوا ہے ،گھر ہی ہماری مسجدیں بن گئی ہیں ، ہم یہیں اپنے افراد خانہ کے ساتھ نماز پنچگانہ باجماعت ادا کررہے ہیں ، اور اب تراویح بھی اسی طرح انشاء اللہ ادا کریں گے ۔
ہمارا پورا وقت عبادت و ذکر الٰہی کے لئے خالق کائنات کی جانب سے فارغ کردیا گیا ہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو رمضان المبارک کی مسعود گھڑیوں کو کام میں لانے کی تیاری کریں اور خود کو اور افراد خانہ کو اس کے لئے تیار کریں ہمیں منجانب اللہ موقع دیا گیا ہے کہ ہم اس رمضان کے پورے وقت کو اللہ کی یاد میں گذاریں ، زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھیں ، پورے خشوع و خضوع اور توجہ کے ساتھ عبادت کریں ، یکسوئی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں اور فارغ وقت کو کام میں لاتے ہوئے بچوں کو کچھ قرآن کی سورتیں یاد کرائیں ۔
ہمیں اس رمضان کا افسوس و مایوسی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری خوشی و انبساط کے ساتھ استقبال کرنا چاہئے ، رشتہ داروں کے پاس نہیں جاسکتے تو کوئی حرج نہیں ، فون پر ان کی خیریت معلوم کرتے رہیں اور دُور ہی سے صلہ رحمی کا ثبوت دیتے اور ایک دوسرے کو تسلی کے کلمات کہتے رہیں اور صبح و شام اور مختلف اوقات بالخصوص تہجد کی دُعا میں اس وباء کے زائل ہونے ، سارے مسلمانوں کی اس سے حفاظت کرنے اور اسلام و مسلمانوں سے عداوت و دشمنی اور نفرت کرنے والوں کی بربادی کی دُعا فرماتے رہیں اور کوشش کریں کہ اگرچہ ہم مساجد کی حاضری اور دوسرے اجتماعی اعمال سے محروم ہیں ، مگر چوںکہ وقت فارغ ہے ، اس لئے ہمارا یہ رمضان دیگر سالوں کے رمضان سے زیادہ بہتر گذرے ۔
ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے اور ہمیں اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہئے ، ہم اپنے آپ کو اخلاق حسنہ اور عمدہ صفات سے آراستہ کریں ، اپنے ایمان کو پہلے کے مسلمانوں کے ایمان کی طرح مضبوط کریں ، صبر و شکر کو اپنائیں اور اللہ کی اطاعت و بندگی کو اپنا شعار بنائیں اور یقین جانیں کہ کوئی مصیبت دائمی ہے اور نہ کوئی خوشی ، یہ آزمائش کی گھڑی بھی دیر یا سویر گذر جائے گی اور اپنی یاد ہمارے اندر چھوڑ جائے گی ، کامیاب انسان وہ ہے جو صبر و شکر اور عبادت و طاعت کے ساتھ ان لمحات کو گذارے ۔
= = =

Comments are closed.