ملک میں سادھو، سنت، مولوی یا مسلم ہونا کیا گناہ ہے؟

عاقل حسین ،مدھوبنی (بہار)
موبائل: 9709180100
کیا ملک میں انسانیت نام کی چیز ختم ہوچکی ہے؟ کیا انسانوں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے؟ ملک میں سادھو، سنت، مولوی یا مسلم ہونا کیا گناہ ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر 16؍ اپریل کی شب ایک بھیڑ کے ذریعہ مہاراشٹر کے پال گھر ضلع میں جونا اکھاڑہ کے 2؍ سادھو 70؍ سالہ مہاراج کلپ ورکش گیری اور 35؍سالہ سوشیل گیری مہاراج اور ان کے ڈرائیور 30؍ سالہ نیلیش تیل گرے ممبئی سے گجرات اپنے گروہ کے آخری رسم ادائیگی میں شامل ہونے کے لئے کار سے جارہے تھے۔ لاک ڈائون کے سبب ہائیوے پر پولیس نے گاڑی روک دی اس کے بعد وہ گائوں کے راستے جانے لگے۔ اسی دوران پال گھر ضلع کے ایک گائوں کے پاس روکا گیا۔ وہاں بھیڑ نے بچہ چور کے شک میں کار سے باہر نکالا اور لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر قتل کرڈالا۔ 2؍ سادھو اور اس کے ڈرائیور کا پیٹ پیٹ کر قتل ہونے کے بعد ملک کے ان بھکتوں کی آنکھیں کھل گئیں جو ماب لنچنگ میں مسلم کے قتل پر سیاست کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں‘ اب تو گودی میڈیا کا بھی انداز بدل گیا۔ شکر ہے کہ دونوں سادھو کے قتل کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ اگر ایک بھی مسلمان ہوتا تو سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ گودی میڈیا حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہی ہوتی کہ ملک میں ہندوئوں کے مذہبی رہنما محفوظ نہیں ہیں۔ جو بھی ہو‘ لیکن دونوں سادھو کے قتل سے ہمارے ملک کے سسٹم یا پھر قانون سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حکومت ایسا سخت قانون کیوں نہیں بناتی جس طرح عصمت دری کے معاملے میں سخت سزا دی جاتی ہے۔ ویسا ہی قانون حکومت کو بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ملک کی مرکزی حکومت سورہی ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں میں ملک میں ہجومی تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے اس کے بعد بھی حکومت کوئی سخت قانون نہیں بناسکی۔ کاش! بروقت حکومت ہجومی تشدد جیسےواقعات کو دیکھتے ہوئے قانون بناتی تو آج سادھوئوں کے قتل کا جو واقعہ پیش آیا ہے شاید ایسا دیکھنے کو نہ ملتا۔ یہ ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی ملک میں ہجومی تشدد کا کوئی واقعہ پیش آیا تو ہم لوگ اس واقعہ کو ہندو مسلمان کے نظریہ سے دیکھنے لگے۔ جس دن ملک سے ہندو مسلمان کی بیماری ختم ہوجائے گی اس دن ہی ملک میں اس طرح کی واردات انجام دینے والی بھیڑ بھی خود سے ڈرنے لگے گی۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کیوںکہ 2؍ بے قصور سادھو کا بے رحمی سے قتل ہوتا ہے اور ملک کے سیاسی رہنماء اس پر بھی سیاست کرنے لگتے ہیں۔ اگر یہ رہنما انسانیت کے قتل پر سیاست نہیں کرتے تو گذشتہ 4؍ سال میں 134؍ ہجومی تشدد کے واقعات ہوچکے ہیں ۔ اگر سیاست کی روٹی اس پر سینکی گئی ہوتی اور ایک سخت قانون بنانے کے لئے حکومت کو مجبور کیا جاتا تو آج ان سادھوئوں کو چور ہونے کے شک پر شاید نہیں مارا گیا ہوتا۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق ان معاملوں میں 2015؍ سے اب تک 68؍ افراد کی جان گئی ہے۔ ان معاملوں میں دلتوں کے ساتھ ہوئے مظالم بھی شامل ہیں مگر صرف گئو رکشا کے نام پر ہوئی غنڈہ گردی کی بات کریں تو سرکاری اعداد وشمار کہتے ہیں کہ 2014؍ میں ایسے 3؍ معاملے آئے۔ اس میں 11؍ افراد زخمی ہوئے۔ 2015؍ میں اچانک اس میں اضافہ ہوکر 12؍ تک تعداد پہنچ گئی اور اس میں 10؍ افراد کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا جبکہ 48؍ افراد زخمی ہوئے۔ 2016؍ میں گئورکشا کے نام پر غنڈہ گردی کی واردات دوگنی ہوگئی۔ 24؍ ایسے معاملے میں 8؍ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی جبکہ 58؍ لوگوں کو پیٹ پیٹ کر بدحال کردیا گیا۔ 2017؍ میں تو گئو رکشا کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والے بے قابو ہوگئے۔ 37؍ ایسے معاملے ہوئے جس میں 11؍ لوگوں کی موت ہوئی جبکہ 152؍ لوگ زخمی ہوئے۔ جب ہجومی تشدد کے معاملے میں اخلاق، پہلو خان، تبریز وغیرہم کا قتل ہوتا ہے تب جاکر ملک کے پردھان سیوک پارلیامنٹ میں بیان دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ماب لنچنگ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ ایسے معاملے میں سخت کارروائی ہو اور وزیر اعظم مودی پارلیامنٹ سے ہی ایسے واقعات کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اگر اسی وقت وزیر اعظم کوئی سخت قانون لانے کی بات کہہ دیتے اور ملک میں قانون بن گیا ہوتا تو ملک میں پال گھر میں ان 2؍ سادھو کے قتل کرنے سے پہلے بھیڑ ضرور ایک مرتبہ سوچتی اور ممکن ہے کہ اس طرح کا سنگین پیش نہ آیا ہوتا۔ قانون کا ہر کسی میں کچھ نہ کچھ ڈر ضرور ہے مگر وہاں ایسا نہیں ہوا اور دونوں سادھو کو پیٹ پیٹ کر قتل کرڈالا گیا۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی تعریف ہونی چاہئے جنہوںنے ملک میں پھیلائی جارہی ہندو مسلمان نفرت کے درمیان پورے واقعہ کو سنجیدگی سے لیا اور ماب لنچنگ کو انجام دینے والے 110؍ افراد پر ایف آئی آر کرتے ہوئے 101؍ ملزمین کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ملک کے سامنے ان سبھی ملزمین کا نام ظاہر کیا اور سیاسی رہنمائوں کو پیغام دیا کہ سادھوئوں کے قتل پر کم از کم سیاست نہ کریں۔ اتنا ہی نہیں‘ مہاراشٹر حکومت کے وزیر داخلہ نے ملزمین کا نام عام کرتے ہوئے بتایا کہ کوئی مسلمان نہیں ہے۔ کم سے کم اب سیاست نہ کی جائے۔ مگر سیاسی رہنماء خاموش کہاں رہنے والے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی پارٹی کے ترجمان سادھو کے قتل پر بھی سیاست سے لبریز بیان اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے گذشتہ 20؍ اپریل سے لگاتار جاری کرتے رہے۔ سیاسی رہنماء بیان بازی کر بے قصور سادھو کے قتل کی سیاست کررہے ہیں۔ ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کسی کی جان چلی جاتی ہے اور یہاں کے سیاسی رہنمائوں کو شرم تک نہیں آتی۔ وہ ہر حالت میں اپنی سیاست کی روٹی پکانے لگتے ہیں۔ اس کے لئے ملک کے عام لوگوں کو بیدار ہونا ہوگا کیوںکہ ملک میں سیاسی رہنمائوں کے ذریعہ نفرت کی بیان بازی جاری رہے گی اور ماب لنچنگ کے نام پر انسانیت کا قتل عام ہوتا رہے گا۔ کون ہیں یہ لوگ؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیسے اچانک اتنے لوگ ایک ہی مقصد سے جمع ہوجاتے ہیں؟ یا پھر یہ غنڈوں کی کوئی جماعت ہے جو سازشاً لوگوں کو شکار بنارہی ہے؟ اب تک ان ماب لنچنگ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوانے والوں کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو 20؍ مئی 2015؍ کو راجستھان میں میٹ شاپ چلانے والے 60؍ سال کے ایک بزرگ کو بھیڑ نے لوہے کے راڈ اور ڈنڈوں سے قتل کردیا۔ 2؍ اگست 2015؍ کو اُترپردیش میں کچھ گئو رکشکوں نے بھینسوں کو لے کر جارہے 3؍ شخص کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ 28؍ ستمبر 2015؍ کو اُترپردیش کے دادری میں 52؍ سالہ محمد اخلاق کو بیف کھانے کے شک میں بھیڑ نے اینٹ اور ڈنڈوں سے مارڈالا۔ 14؍ اکتوبر 2015؍ کو ہماچل پردیش میں 22؍ سالہ نوجوان کا گئو رکشک بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ 18؍ مارچ 2016؍ کو جھارکھنڈ کے لاتیہار میں مویشیوں کو فروخت کرنے بازار لے جارہے مظلوم انصاری اور امتیاز خان کو بھیڑ نے درخت سے لٹکاکر مارڈالا۔ 5؍ اپریل 2017؍ کو الور راجستھان میں 200؍ افراد کی گئو رکشک بھیڑ نے دودھ کا کاروبار کرنے والے پہلو خان کو مارڈالا۔ 20؍ اپریل 2017؍ کو آسام میں گائے چرانے کے الزام میں گئورکشکوں نے 2؍ نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ یکم مئی 2017؍ کو آسام میں گائے چرانے کے الزام میں پھر سے بھیڑ نے 2؍ نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ 12؍ سے 18؍ مئی 2017؍ تک جھارکھنڈ میں 4؍ الگ الگ معاملے میں کل 9؍ افراد کو ہجومی تشدد میں مارڈالا گیا۔ 29؍ جون 2017؍ کو جھارکھنڈ کے رام گڑھ کے بازار ٹانڈ میں بیف لے جانے کے شک میں بھیڑ نے علیم الدین عرف اصغر انصاری کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ 10؍ نومبر 2017؍ کو الور راجستھان نے گئو رکشکوں نے عمر خان کو گولی ماردی جس میں ان کی موت ہوگئی۔ 20؍ جولائی 2018؍ کو راجستھان کے الور میں گائے اسمگلنگ کے شک میں بھیڑ نے رقبر خان کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ 12؍ مارچ 2019؍ کو جھارکھنڈ کے پلامو ضلع کے حیدر نگر تھانہ حلقہ میں کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر وہاں کے وکیل خان اور دانش خان کی بہن سے چھیڑخانی کی۔ دونوں نے اس کی مخالفت کی تو بھیڑ نے دونوں کو پیٹ پیٹ کر شدید زخمی کردیا۔ اس میں وکیل خان کی موت ہوگئی۔ 10؍ مئی 2019؍ کو جھارکھنڈ کے گملا ضلع کے جرمو گائوں میں ایک مرے بیل کا گوشت کاٹ رہے 4؍ شخص کو پڑوسی گائوں کے متشدد بھیڑ نے اتنا پیٹا کہ اس میں سے ایک پرکاش نامی لڑکا کی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی موت ہوگئی۔ پرکاش مذہباً عیسائی تھا۔ 18؍ جون 2019؍ کو جھارکھنڈ کے سرائے قلعہ کھرساواں ضلع کے گھاتکی ڈیہہ گائوں میں بھیڑ نے 24؍ سالہ تبریز انصاری کو چوری کے الزام میں پکڑ کر پیٹ پیٹ کر شدید زخمی کردیا۔ 22؍ جون کو تبریز انصاری کی موت اسپتال میں ہوگئی۔ اسی طرح تازہ واقعہ 16؍ اپریل 2020؍ کی شب مہاراشٹر کے پال گھر میں پیش آیا۔ چوری کے شک میں 2؍ سادھوئوں کو سینکڑوں کی بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ ان اعداد وشمار کو دیکھنے کے بعد بھی کیا جمہوری نظام میں ایسی بھیڑ پر قابو نہیں کیا جانا چاہئے؟ ایسی بھیڑ جسے قانون، عدالت پر یقین نہیں ہے۔ یہ خود ہی عدالت اور خود ہی قانون بن کر سر راہ لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کردیتی ہے۔ ملک میں لگاتار ماب لنچنگ کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا۔ لیکن اب اس ہجومی تشدد سے سادھو سنت بھی محفوظ نہیں رہ گئے ہیں۔ اب ملک کے ہر فرد کو بیدار ہونا ہوگا تبھی ملک کی حکومت بیدار ہوگی اور ایک سخت قانون بن سکے گا۔ اگر آج ان سادھوئوں کے قتل پر بھی ملک کے عوام بیدار نہیں ہوئے تو یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ ہم سبھی کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔
Comments are closed.