کورونا وائرس :لاک ڈاون سے زیادہ مفلسی کو بھوک کا ڈر،گودی میڈیا سے زیا دہ پھیل رہا ہے کورونا وائرس

اختر خان (نامہ نگار) دیولگاوں ماہی ضلع بلڈانہ
آج ملک میں لوگ بٹرے خوف میں زندگی بسر کررہیے ہیں۔ ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے،ہر ایک کو اب زندگی سے ڈرلگارہا ہیں۔اپنے عزیز بھی اپنوں سے دور ہیں،کیا یہ اللہ کا عذاب ہیں؟یہ دنیاوی آفت۔جب سےہم نے شعور کی منز ل میں قدم رکھا تب سے لیکر آج کوئی بیماری نے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کورونا وائرس وبائی بیماری نے متاثر کیاایسی وبائی بیماری جس نے لاک ڈاون کرنے پر مجبور کیا۔ کیوں اتنی تیزسے بٹررہا ہیں کورونا وائرس کیا ہیں اس کی حقیقت جانتے ہیں۔ ابھی حالیہ میں مودی سرکارنے ملک میں لاک ڈاون کرنے کا اعلان کیا۔ کہ، دینا میں ایک بیماری نے جنم لیا ۔جس کانام ”کورونا وائرس ” ہیں۔ اس بیماری کی وبہ سے اٹلی،چین،امریکہ جسے ملک میں لاکھوں لوگوں کی موت ہوگیئ۔اس بیماری نے پھر ملک ہندوستان کا روخ کیا ۔جس سے حکومت نے ملک کے اندار کرفیو،لاک ڈاون نافذکیا ۔بتایا جاتا ہیں کے اس میں بیماری نے لاکھوں کی تعدا د میں جانے لی ہیں۔اس بیماری کا جنم نومبر ڈسمبر میں چین جاپان اور امریکہ جسے ملکوں میں پھیل نے لگالیکن اس وقت ہمارے مودی سر کارنے نظر انذا کیا ۔ جس کی وجہ سے ملک کے اندار لاک ڈوان نافذ کیاگیا۔ اب میڈیا بار بار کورونا وائرس کو توڑ جوڑ کربیان کررہی ہیں۔ ملک میں اس بیماری کےکیسے حالات درپیش ہیں۔اس کی کوئی خبر نہیں لوگوں کو آمدرفت میں پریشانی کا سامنا پیٹ میں بھوک کی آگ گاڑی نہ ہونے سے لوگ پیدل سفر کرنے میں آمدہ ہوگیا اپنے فیملی سے دورجسے باتوں پر میڈیا کی کوئی بات نہیں۔آج ملک میں بٹرے سنگن حالات ہوگیا ہیں لوگ ہزار ہزار کلیومیٹر کا سفر کررہیے ہیں۔لیکن گودی میڈیا ان باتوں پر کوئی گفتگو نہیں کررہی ہیں ملک میں لوگ کورونا وائرس سے زیادہ بھوک سے ڈر ہیں۔ کیا ہیں کورونا وائرس کی سچی آئیے جانتے ہیں۔ چینی کے صوبے ہودبئی کے شہر ووہان سے پھیلنے والے مہلک ’کورونا وائرس‘ کے جنم لینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہےکہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے کھانے سے پھیلا ہے۔ چین میں پُراسرار ’کورونا‘ وائرس سے اب تک 500 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جس میں سے 25 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ووہان سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا گیا کہ چینی شہری چمگادڑ کا سوپ اور زندہ چوہوں کا کھانا کھا رہے ہیں۔ مذکورہ تصاویر سامنے آنے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ووہان کی مارکیٹ سے ملنے والی چمگادڑ کی ایک قسم’فروٹ بیٹ‘ ، ’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے کا سبب بنی جو اب ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو رہا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ سب سے پہلے جو افراد اس شکایت کےساتھ اسپتال پہنچے تھے ان کا تعلق مقامی ہول سیل مچھلی مارکیٹ سے تھا جہاں مرغیاں، گدھے، بھیڑیں، خنزیر، اونٹ، لومڑیاں، بیڈ جر، چوہے، کانٹوں والا چوہا، بلیوں کی ایک قسم civet، بھیڑیے اور دیگر رینگنے والے جانور دستیاب ہوتے ہیں۔ ووہان میں موجود اس مارکیٹ کو گزشتہ سال دسمبر میں بند کر دیا گیا تھا جسے اب سیل کرکے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب غذائی ماہرین بھی اس بات کا پتہ لگا رہے ہیں کہ چوہے اور سانپ کھانا اس وائرس کی وجہ ہو سکتا ہے کیونکہ بھی ووہان کی ان مارکیٹس میں با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائر س جنگلی چمگادڑوں سے سانپوں میں منتقل ہوا ہوگا جنہیں جنگلوں سے شکار کرکے لانے کے بعد ان کو مارکیٹس میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ اس بات کا پتا لگایا جارہا ہے کہ کیسے گرم خون کے جانوروں میں سے یہ وائرس ٹھنڈے خون کے جانوروں میں منتقل ہوا اور اس کورونا وائرس جیسی بیماری کا سبب بنا۔ طبی ماہرین کی جانب سے 3 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو اس وائرس سے بچاؤ اور اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں۔ کولیشن آف ایپی ڈیمک پری پیرڈنیس انوویشن (سی ای پی آئی) جو ایمر جنسی پروگرامز میں مدد بھی فراہم کرتی ہے ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جون ہی سے وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے کا سوچا گیا تھا جس کا انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کا بھی سوچا گیا تھا۔ سی ای پی آئی نے بتایا کہ اب اس وائرس پر ’یو ایس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز‘ کے ساتھ مل کر تحقیق کی جائے گی اور ویکسین بھی تیار کی جائے گی۔ اس بیماری سے بچنےکےلیے منہ پر مسک لگایا جارہیے ہیں،اچھی طرح ہاتھوں کو دویاں جارہاہیں،ایک دوسرےسےایکلومیٹر کا فصلہ راکھا جارہا ہیں۔مختصر اور جان لیتے ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب 100 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے سات لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 35 ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس بیماری کی علامات کیاہیں جانتے ہیں۔ یہ بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔ ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے کچھ مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے نوبت آ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔ مگر اس کورونا وائرس سےمفلسی،غریب لوگ بھوکے مررہیے ہیں۔ انہیں کورونا سے نہیں بلکہ بھوک سے ڈر لگارہا ہیں۔ملک لاک ڈاون ہوتے ہی ہر مزدور لوگ بھوک کی شدت میں ہیں۔وزیر اعظم نریندمودی نے اعلان کیا 3 ہفتوں کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن پر عوام سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات سخت ہیں مگر کورونا وائرس کے خلاف ’جنگ جیتنے کے لیے‘ ضروری ہے ۔ بھارت میں لاک ڈاؤن کا اطلاق 24 مارچ سے ہوا تھا جس کا مقصد ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی کو گھروں تک محدود رکھناتھا جبکہ اس دوران ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی مارکیٹوں کو استثنیٰ دیا گیا ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ شہری علاقوں جہاں لاکھوں لوگ بدتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں صاف پانی بھی میسر نہیں، میں مقامی سطح پر یہ وائرس پھیل سکتا ہے لاک ڈاؤن سے ہزاروں افراد بالخصوص یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور متاثر ہوئے ہیں لاک ڈاؤن سے ہزاروں افراد بالخصوص یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور متاثر ہوئے ہیں۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے بےتاب ہیں۔ملک غریبی کا طبقہ بٹرتے ہوئے نظر آرہا ہیں۔لاک ڈوان کے باوجود لوگ اپنی ضرورت کی چیزے لانے کےلیےباہر نکل رہیے ہیں لیکن پولیس ان پر لاٹی چاچ کررہی ہیں۔بھارت میں کورونا وائرس سے زیا دہ افوایئے ہورہی ہیں۔دیہی علاقے سے لیکرشہر تک افوا کا پرچار شروع ہیں۔خاص کر مسلمانوں کو زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہیں۔جن حضرات کو کورونا وائرس کی شکایت نہیں انہیں کوئی بخار نہیں کھانسی نہیں کسی چیز کوئی تکلیف نہیں پھر بھی انہیں کورونا وائرس کی بیماری سے جوڑا جارہا ہیں، گودی میڈیا کورونا وائرس سہارےلیکر مسلمانوں کو بدنام کررہی ہیں۔آج ملک کن حلاتوں سےگذار رہا ہیں لاک ڈاون ہونے کی وجہ سے غریب ومفلسی لوگ پریشان حال ہیں ان باتوں پر میڈیا کی کوئی چرچا نہیں ہیں۔کورونا وائرس کے اتنے فریض ہیں؟اتنے لوگ مر گیا ؟ہزار سے زیادہ لوگ اس مریض میں گرفتار ہیں۔اگر اس کو قابوں میں نہیں کیا گیا تو پورا ملک میں کورونا وائرس کا شکا ر ہوجایا گا۔یہاں بھوک کی آگ میں جل رہیے ہیں۔ حکومت نے کوئی منصوبہ بھی نہیں بنایا بغیر منصوبے کے لاگ ڈوان نافذکردیا۔باربار صبح شام ٹی وی چینل پر کورونا وائرس کے سیواکچھ بھی نہیں عام جنتا اس بیماری سے کیسے بچے وہ تو اپنی زندگی سٹرکوں پر کاٹ رہیے ہیں۔انہیں اس بیماری کوئی ڈر نہیں مریض اتنے بٹرگیے کہ ہسپتال کم پٹررہیے ہیں۔حکومت جس طرح کورونا وائرس پر توجہ دے رہی ہیں اس طرح حکومت لاچار مفلس وغریب پر توجہ دے ۔اور میڈیا نفرت کی آگ بجھانا بندکردے۔

Comments are closed.