رمضان المبارک میں کرنے کے کام

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
پورے گیارہ مہینوں کے بعدایک بارپھرہم رحمتوں، برکتوں اورسعادتوں سے بھرپورمہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ کے استقبال کے لئے کھڑے ہیں اورپوری فرصت کے ساتھ کھڑے ہیں، نہ افراتفری ہے، نہ بھاگم بھاگ، نہ جلد بازی ہے نہ رواروی، اس سے پہلے بھی رمضان آیاتھا؛ لیکن اس وقت وہ ہماراانتظارکرتاتھا کہ کب ہماری توجہ اس کی طرف ہو؟ کب ہم اس سے ہم کلام ہوں؟ کب ہم اس کی اس طرح آؤبھگت کریں، جس کاوہ مستحق ہے؟ لیکن اب ہم سراپااس کے منتظرہیں اورتقریباً ڈیڑھ مہینے پہلے سے اس کے انتظارمیں اپنے گھروں میں موجودہیں، اس مرتبہ رمضان بھی ہم سے خوش ہے کہ ہماری توجہ خوداس کی طرف ہے، اسے ہماری توجہ کاانتظارنہیں ہے، ہوناتوہمیشہ یہی چاہئے کہ ہم گیارہ مہینوں کے بعدآنے والے اس مہمان ذیشان کاہرسال اسی طرح خیرمقدم کرتے، جس طرح اس سال کررہے ہیں؛ لیکن ہماری غفلت اورکوتاہی اورمادیت کی محبت اس کے استقبال سے غافل کرتی رہی ہے۔
اب جب ہم نے پورے اہتمام اورسکون کے ساتھ گھربیٹھ کر اس کاخیرمقدم کرہی لیاہے تواس کی خاطرداری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، اس کی آؤ بھگت میں ذرہ برابربھی فرق نہیں آناچاہئے، ہرچیزمیں اس کے شایان شان کاخیال رکھناچاہئے، بالکل اس طرح، جس طرح آپ اپنے اس نئے مہمان کاخیال رکھتے ہیں، جس کے گھر آپ کی بیٹی کارشتہ ہونے والاہو، اس کی آمدپرکس طرح گھرآنگن کی صفائی کی جاتی ہے؟اڑوس پڑوس کواطلاع دی جاتی ہے، کھانے کے لئے مینوتیارکیاجاتاہے، رمضان المبارک کی آمد میں بھی ہمیں اسی طرح کاخیال رکھناچاہئے۔
مہمان کی خاطرتواضع کے لئے رقم صرف کیاجاتاہے؛ لیکن رمضان کی خاطرتواضع کے لئے رقوم خرچ کرنے کے بجائے مندرجہ ذیل کام کئے جانے چاہئیں:
۱- روزہ کااہتمام: روزہ ہرمکلف پرفرض ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’تم پرروزے اسی طرح فرض کئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوںپرفرض کئے گئے تھے؛ تاکہ تم تقوی والے بن جاؤ‘‘(البقرۃ: ۱۸۳)، یہ روزے توہرسال ہرمکلف پرفرض ہوتے ہیں؛ لیکن دوسرے سالوں میں مزدورطبقہ کے بہت سارے لوگ مزدوری کابہانہ کرکے روزہ رکھنے سے کتراتے تھے، اس رمضان میں خدائی فرصت نصیب ہوئی ہے، تمام طرح کے لوگ گھروں میں ہی ہیں؛ اس لئے کسی بھی قسم کی بہانہ بازی نہیں چل سکتی، لہٰذا روزہ کاہرحال میں اہتمام کیجئے؛ الایہ کہ کوئی شرعی عذرہوتومقامی معتبرمفتی صاحب سے رجوع کریں اوران کے کہنے کے مطابق عمل کریں۔
۲- ہرعضوکاروزہ رکھاجائے: روزہ صرف اس کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص صبح سے شام تک بھوک کی شدت کوجھیلے اور پیاس کی تپش کو برداشت کرے اوربس؛ بل کہ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا ہرہرعضوروزہ رکھے، ورنہ اسلامی اور غیر اسلامی روزہ (برت)میںکیافرق رہ جائے گا؟ بطن (پیٹ)اورفرج(شرم گاہ) کے رو زہ سے فرض کی ادائے گی توہوسکتی ہے؛ لیکن روزہ کے اعلیٰ مقاصدکاحصول نہیںہوسکتا، اعلیٰ مقصد تواُسی وقت حاصل ہوگا، جب اعلیٰ طریقہ سے روزہ رکھاجائے، حدیث پاک میںہے: ’’روزہ صرف کھانے پینے کے ترک کانام نہیں؛ بل کہ لڑائی جھگڑے اورلغوچیزوں کاترک بھی ضروری ہے، چنانچہ اگرکوئی تمہیں گالی دے یا اُجٹ پنے کے ساتھ پیش آئے توتم اس سے کہدوکہ میں روزہ سے ہوں،نہ گالی بک سکتاہوں اورنہ ہی جھگڑاکرسکتاہوں‘‘(سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر: ۸۳۹۶)، پیٹ اورشرم گاہ کے روزہ کے ساتھ ساتھ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پیراوردیگرتمام اعضاء کابھی روزہ ہو،حضرت جابرؓ کا قول ہے کہ جب روزہ رکھوتواپنے کان، اپنی نگاہ اوراپنی زبان کوجھوٹ اوردوسرے گناہوں سے بچاؤ( مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۸۹۷۳)، نگاہ ہرگزاللہ کے ذکرسے غافل کرنے والی چیز کی طرف نہ اُٹھے، کان ہرگزبے ہودہ اورفحش چیزیں نہ سنیں، زبان غیبت، چغلی، جھوٹ، ہرزہ سرائی اورگالی گلوج سے کوسوں دور رہے، آپ ﷺ کاارشادہے: ماصام من ظلّ یأکل لحوم الناس۔(المصنف لابن ابی شیبۃ، حدیث نمبر: ۸۹۸۳)، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا، جس نے غیبت کی، ہاتھ غلط کاموں کی طرف ہرگزنہ بڑھیں، پیرمکروہ اورناپسندیدہ امور کی طرف ہرگز نہ اُٹھیں، حدیث شریف میں منقول ہے: من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ۔(بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۰۳)، جوشخص جھوٹ بولنا اور غلط اعمال کرنا نہ چھوڑے، اللہ تعالیٰ کو صرف اس کے کھانے پینے کے ترک ضرورت نہیں، حرام غذا پیٹ میں ہرگز نہ جانے پائے؛ بل کہ مشتبہ چیزوں سے بھی بچاجائے، یہ ہے اعلیٰ درجہ کاروزہ! یہ ہے صالحین کا روزہ!
۳- فرائض کااہتمام: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پرجوچیزیں فرض کی ہیں، ان کی ادائے گی ہرحال میں ضروری ہے، ادانہ کرنے کی صورت میں گناہ ہوگا اوراس کی سزابھگتنی ہوگی، پھرفرائض میں بھی نمازکی بہت زیادہ اہمیت ہے اورقیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے اسی کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: ’’قیامت کے دن بندوں کے عمل میں سے جس چیزکاسب سے پہلے حساب لیاجائے گا، وہ نمازہے‘‘(ابوداود، حدیث نمبر:۸۶۴)، گیارہ مہینے اس میں ہم سے کوتاہی ہوتی رہتی ہے، رمضان میں کوتاہی بالکل بھی نہیںہونی چاہئے کہ رمضان میںایک فرض کاثواب سترگنابڑھادیاجاتاہے(المطالب العالیہ، حدیث نمبر: ۱۰۰۶)،اورظاہرہے کہ جب ثواب بڑھایاجاتاہے توگناہ میں بھی شدت پیداہوسکتی ہے؛ اس لئے فرائض کی ادائے گی میں ہمیں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، بالخصوص لاک ڈاؤن کے اس زمانہ میں توکوئی بہانہ بھی کام نہیں آئے گا۔
۴- تلاوت قرآن کااہتمام: قرآن مجیدکی تلاوت بڑے ثواب کاکام ہے، اس کے ہرلفظ پردس نیکیاں ملتی ہیں، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: من قرأحرفامن کتاب اللہ فلہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرأمثالہا، لاأقول الم حرف؛ ولکن ألف حرف، ولام حرف، ومیم حرف۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۹۱۰) ’’جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور(اللہ تعالیٰ کے اصول کے مطابق ہر)نیکی دس گناہواکرتی ہے، میں نہیں کہتاکہ الم ایک حرف ہے؛ بل کہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے‘‘، دوسرے سالوں میں بہت سارے بھائیوں کوتلاوت کاموقع نہیں ملتاہے، اس سال یہ موقع ہے، اس کافائدہ اٹھائیں اورجتناہوسکے، روزانہ تلاوت کامعمول بنائیں، اگرقرآن دیکھ کرپڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں، اگردیکھ کرنہیں پڑھ سکتے توجتنایادہے، اسی کودہراتے رہیں، اورجوقرآن کی تلاوت کرے، اس کے پاس بیٹھ کرسنیں، اس میں بھی ثواب ہے۔
۵- ذکرواذکارکی کثرت: عام دنوں عمومی طورپرذکرواذکارکااہتمام نہیں ہوپاتاہے، اس سال کوروناکے طفیل سے اس کاموقع ہمیں میسرہواہے، ہرشخص گھرپرموجود ہے، رمضان المبارک کے دنوں کی رعایت میں دوسرے الٹے سیدھے کاموں میں مشغول ہونے کے بجائے ذکرواذکارمیں مشغول ہوناکافی منافع بخش رہے گا، ذکرکی وجہ سے دلوں کوسکون محسوس ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’سن لو! اللہ کے ذکرسے دل مطمٹن ہوتے ہیں‘‘(الرعد:۲۸) اورآج کے کورونائی دورمیں اس کی ہرشخص کوضرورت ہے، نیزلایعنی اوربے کارچیزوں میں مشغول ہونے کے بجائے ذکرمیں مشغول رہناباعث ثواب بھی ہے، اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: جوشخص’’ لاإلٰہ إلااللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمدوہوعلی کل شیٔ قدیر‘‘دن میں سومرتبہ کہے تودس غلام آزادکرنے کے برابرثواب ہے اوراس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اورسوگناہ مٹادئے جائیںگے اوراس دن شام تک شیطان سے وہ محفوظ رہے گا‘‘(بخاری، حدیث نمبر: ۶۴۰۳، مسلم، حدیث نمبر:۲۶۹۱)؛ اس لئے ہمیں ذکرکاکثرت سے اہتمام کرناچاہئے۔
۶- توبہ واستغفارکااہتمام: ہرانسان سے غلطی اورچوک ہوتی رہتی ہے، ان غلطیوں کی معافی مانگتے رہناچاہئے، خوداللہ کے رسول ﷺ دن میں سترمرتبہ سے زائد استغفار کیا کرتے تھے(بخاری، حدیث نمبر: ۶۳۰۷)، جس طرح نبی کریم ﷺ خوداستغفارکرتے تھے، اسی طرح لوگوں کواس کاحکم بھی فرماتے تھے؛ چنانچہ حضرت اغربن یسارمزنیؓ حضرت ابن عمرؓ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: توبوا إلی اللہ واستغفروہ، فإنی أتوب فی الیوم مائۃ مرۃ۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۷۰۲)’’اللہ سے توبہ اوراستغفارکرو، میں دن میں سومرتبہ توبہ کرتاہوں‘‘؛ اس لئے رمضان جیسے مبارک مہینے میں کـثرت سے توبہ واستغفارکرناچاہئے، بالخصوص آج کل کے کورونائی دورمیں کہ یہ وباء کہیں ہمارے بداعمالی کی وجہ سے تودنیاپرنہیں آئی؟
۷- تہجدکی پابندی: رات میں نمازپڑھنے کی بڑی فضیلت واردہوئی ہے،قرآن مجیدمیں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے(المزمل:۲۰)، اس نمازکی خاص فضیلت یہ ہے اللہ تعالیٰ سے قربت کاذریعہ ہے، ایک تونفل کے اہتمام کی وجہ سے، دوسرے نیند میں خلل پیداکرکے رب کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی وجہ سے، تیسرے ایسے وقت میں اس کی ادائے گی کی وجہ سے، جب کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپراترآتاہے اورچوتھے اس وجہ سے کہ اس کی ادائے گی اس وقت ہوتی ہے ، جب کہ پوری دنیاخواب خرگوش میں رہتی ہے، جوشخص اس نماز کی پابندی کرتاہے، اس کاشمار’’عبادالرحمن‘‘میں ہوتاہے، اللہ کے رسولﷺ اس نماز کابہت اہتمام فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ سفرمیں بھی ترک نہیں فرماتے تھے؛ چنانچہ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سفرمیں (نمازقصر)دورکعتیں پڑھاکرتے تھے ؛ البتہ رات میں تہجد بھی پڑھتے تھے(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۵۵۹۰)، تہجد کی پابندی کرناخاص طورپررمضان المبارک میں ہمارے لئے مشکل نہیں ہے کہ ہم سحری کے لئے اٹھتے ہی ہیں، بس دس منٹ پہلے اٹھ جائیں اورتہجدبھی پڑھ لیں، اس سال رمضان میں کوروناجیسی وباء سے حفاظت کی غرض سے بھی خاص اہتمام کرناچاہئے۔
۸- تراویح کااہتمام: رمضان المبارک میں قیام لیل(تہجد)کے علاوہ ایک اور نماز کا اہتمام کیاجاتاہے اوراس نماز کااہتمام تسلسل کے ساتھ ساڑھے چودہ سوسال سے ہوتاچلاآرہاہے، آپ ﷺنے اپنے عہدمیں تین دن اہتمام فرمایاتھا اورلوگوں پرفرض ہونے کے اندیشہ سے پھرترک فرمادیاتھا(بخاری، حدیث نمبر:۲۰۱۲)، اس کے بعدلوگ اپنے اعتبارسے پڑھا کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدمیں تمام لوگوں کوایک امام کے پیچھے بیس رکعت پرجمع کردیاتھا، آج تک وہی اہتمام چلتاچلاآرہاہے، لہٰذا اس کی پابندی کرنی چاہئے اوررمضان المبارک کا مہینہ توبرکتوں اوررحمتوں کاہی مہینہ ہے ، پھرہرنفل کاثواب فرض کے برابرکردیاجاتاہے تواس ثواب کوحاصل کرنے کی ہمیں سعی کرنی چاہئے اوراس رمضان میں توکوئی دوسراایساکام بھی نہیں، جس کابہانہ کرکے اسے ترک کرنے کی صورت نکل آئے توکیوں نہ ثواب ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے؟
۹- روزہ افطارکرانے کااہتمام: معاشرہ کے اندرکچھ لوگ غریب بھی ہوتے ہیں، دولت مندوں کوچاہئے کہ رمضان میں ان کے افطارکابندوبست کریں، ایساکرنے سے افطارکرانے والوں کواتناہی ثواب ملے گا، جتناکہ روزہ رکھنے والے کوملتاہے، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: ’’جس کسی نے روزہ دارکوافطارکرایا تواس کواتناہی ثواب ملے گا، جتناکہ روزہ رکھنے والے کوملتاہے اوراس کے اجرمیں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی‘‘(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۸۰۷)، لہٰذاجولوگ صاحب استطاعت ہیں، انھیں اس موقع کافائدہ اٹھاناچاہئے ، خاص طورلاک ڈاؤن کے زمانہ میں اس کی بڑی ضرورت ہے، محلہ میں گھوم پھرکرتلا ش کرکے باالخصوص روزہ افطارکراناچاہئے۔
۱۰- صدقہ وخیرات: صدقہ وخیرات کرنے کاحکم عام دنوں میں بھی ہے، اس سے غریبوں کی مددبھی ہوتی ہے اورخیرات کرنے والابلاؤں سے محفوظ بھی رہتاہے؛ لیکن رمضان میں چوں کہ نفل کاموں کاثواب فرض کے برابرہوجاتاہے(المطالب العالیۃ، حدیث نمبر:۱۰۰۶)؛ اس لئے رمضان میں کثرت سے صدقہ وخیرات کرناچاہئے، خودرسول اللہ ﷺکے بارے میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت ہواؤں سے تیزہوجاکرتی تھی(مسلم بشرح النووی، حدیث نمبر:۲۳۰۸)، ہم آپﷺ کی امتی ہیں، لہٰذاہمیں بھی استطاعت کے بقدرسخاوت کرنی چاہے۔
۱۱- اعتکاف : رمضان المبارک کاایک اہم عمل ’’اعتکاف‘‘ بھی ہے، یہ حکم کے اعتبارسے سنت علی الکفایہ ہے، یعنی محلہ کی پنج وقت نمازوالی مسجد میں محلہ کے کسی فردنے بھی اعتکاف کرلیاتوتمام محلہ والوں کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، بہ صورت دیگرسارے محلہ والے گناہ گارہوں گے، رمضان المبارک کے اس اعتکاف کی مدت دس دن ہے، جس کی ابتداء بیس تاریخ کے سورج ڈوبنے کے بعدسے شرو ع ہوتی ہے اورشوال کاچاندنظرآنے تک اس کاوقت چلتارہتاہے، رمضان المبارک کے اس دس دن کااعتکاف خودرسول اللہﷺ بھی کیاکرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺرمضان کے اخیرعشرہ کااعتکاف کرتے تھے(مسلم، حدیث نمبر:۱۱۷۱)، دوسرے سالوں میں کوئی مسجد اعتکاف کرنے والوں سے خالی نہیں رہی ہے، اس سال بھی خالی نہیں رہنی چاہئے کہ حکومت کی طرف سے اس کی کوئی پابندی نہیں ہے؛ بل کہ کم از کم پانچ لوگوں کومسجد میں ہرنماز کے لئے آنے جانے کی اجازت ہے، اسی اجازت کافائدہ اعتکاف میں اٹھاناہے اوراگرپہلے کسی مسجدمیں صرف ایک ہی فرداعتکاف میں بیٹھاکرتاتھاتواس سال چوں کہ فراغت ہے؛ اس لئے کم از کم ہرمسجدمیں پانچ آدمی توبیٹھ ہی سکتے ہیں، ورنہ سنت علی الکفایہ کی ادائے گی کے لئے ایک شخص کاتوبیٹھنابہرحال ضروری ہے، ورنہ سارے محلہ والے گناہ گار ہوں گے۔
۱۲- لیلۃ القدرکی تلاش: رمضان کے اخیرعشرہ کاایک اہم کام’’شب قدر‘‘کی تلاش ہے، یہ عددکے اعتبارسے ہے توایک رات ہے؛ لیکن قدروقیمت کے اعتبارسے ہزار مہینوں سے افضل ہے، قرآن مجیدہے: ’’ لیلۃ القدرہزارمہینوں سے بہترہے‘‘(القدر:۲)، اللہ کے رسولﷺ نے رمضان کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں (21,23, 25,27,29)میں اسے تلاش کرنے کاحکم فرمایاہے، ارشادفرمایا: ’’اس رات کورمضان المبارک کے اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘(الجمع بین الصحیحین، حدیث نمبر: ۱۲۷۱)، اس ایک رات میںاگرکوئی عبادت کرلیتاہے تواسے ہزارمہینوں یعنی ۸۳؍سال ۴؍مال کی عبادت کاثواب ملتاہے، یہ تو’’کم خرچ بالانشین ‘‘والاہوا، عبادت صرف ایک رات کرنی ہے اورثواب تراسی سال کاحاصل کرناہے، اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ اس رات کوتلاش کرنے کازیادہ مواقع ہمارے پاس میسرہیں؛ اس لئے اس سے ضرورفائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
۱۳- صدقۂ فطرکی ادائے گی: محتاجوں کے تعاون کی جن شکلوںکوصاحب نصاب بندوں پرلازم کیاگیاہے، ان میں سے ایک صدقۃ الفطر بھی ہے، ’’صدقۃ الفطر ‘‘اس صدقہ کوکہاجاتاہے، جورمضان المبارک کے روزہ افطارکی وجہ سے لازم ہوتاہے، یعنی اس کے واجب ہونے کاسبب افطار(شوال کاچانددیکھ کرروزہ کھولنا)ہے، اس کی دوبنیادی حکمتیں ہیں:(۱) محتاجوں کاتعاون: صدقۃ الفطرکااہم مقصد یہ ہے کہ محتاج لوگ بھی اسی طرح خوشیاں منائیں، جس طرح مالدارحضرات عید کی خوشیاں مناتے ہیں، ان کے گھرمیں بھی اسی طرح سویاں اورلچھاتیارہوں، جس مالداروںکے گھرمیں تیارہوتے ہیں اور ان کے بچوں کے لباس بھی اسی طرح خوش منظرہوں، جس طرح مالداروںک ے بچوں کے ہوتے ہیں۔(۲) لغووبرائی سے پاک کرنے کاذریعہ: اس کادوسرامقصد یہ ہے کہ یہ صدقہ روزہ دارکے لئے ان برائیوں اورلغوامورسے پاک کرنے کاذریعہ بنے، جواس سے سرزد ہوگئے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اللہ کے رسول ﷺ کاارشادنقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ نے لغوورفث سے روزہ دارکوپاک کرنے اورمسکینوں کی غذا کے طورپرزکات فطرکوفرض کیا، جس نے (عید)کی نماز سے پہلے اسے اداکیاتویہ مقبول زکات ہوگی، اورجس نے نماز کے بعد اداکیاتو(اس صورت میں) یہ عام صدقات کے مثل ہے‘‘(ابوداود،حدیث نمبر: ۱۶۱۱)، اب ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ صدقۃ الفطر کی ادائے گی کن چیزوں کے ذریعہ سے کی جائے گی؟اس سلسلہ میں پانچ اشیاء کاذکراحادیث میں مذکورہے:(۱)شعیر( جو)(۲) تمر(کھجور)(۳) زبیب(کشمش) (۴) اقط(پنیر)(۵) طعام(غلہ)، حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہم ایک صاع غلہ، یاایک صاع جو، یاایک صاع کھجور، یاایک صاع کشمش ، یاپھرایک صاع پنیرزکات فطر(صدقۂ فطر) میں نکالتے تھے‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۶۷۳، صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۵۰۶)،جوشخص جَو، کھجور، کشمش اورپنیرسے اداکرناچاہے تووہ ایک صاع (تقریبا: 3.180grmsتین کلوایک سواسی گرام)کے حساب سے اداکرے؛ البتہ اگرگیہوں سے اداکرناچاہتاہے تونصف صاع(تقریباً:1.590grmsایک کلوپانچ سونوے گرام) کے حساب اداکرے۔یہ ہیں کچھ وہ کام، جو ہمیں رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ کرناچاہئے، اللہ تعالیٰ ہم سب کواس کی توفیق عطافرمائے، آمین!

Comments are closed.