کوڑے کی سزاکی منسوخی:وقت سے پہلے قیامت کرنہ دے برپا

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
اسلام ایک ایسامذہب ہے، جس کے تمام احکام عین فطرت کے مطابق ہیں، خواہ ان کاتعلق اوامر(Orders)سے ہویانواہی(Prohibits)سے، اورخواہ ان کاتعلق عقائد(Beliefs) سے ہویاجرم وسزا(Crime & Punishment)سے، اوریہ بات اہل بصیرت سے مخفی نہیں، اس کااندازہ سے آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ کوروناسے حفاظت کے لئے جوتدابیربتائی گئیں، ان میں ایک یہ تدبیربھی تھی کہ دن میں کم از کم چارپانچ مرتبہ ہاتھ دھویاجائے، اسلام نے اپنے پیروکاروں کودن ورات میں پانچ مرتبہ نمازپڑھنے کاحکم دیاہے اوراس کے لئے وضوکوشرط قرار دیاہے، جس کے بغیرنمازہی درست نہیں ہوگی، یہ حکم آج کادیاہوانہیں ہے؛ بل کہ جب سے نمازفرض ہوئی، اسی وقت سے ہے، اب جوشخص اس کی پابندی کرتاہے، اسے الگ سے ہاتھ دھونے کی ضرورت نہیں؛ چنانچہ برطانیہ کے دومحققین پروفیسررچرڈدیبرکاسٹل یونیورسٹی اورلیبرپارٹی کے سابق سیاست داںٹرویرفلپس کاکہناہے کہ برطانیہ میں مہلک وباکوروناوائرس کے متاثرین میں مسلمانوں کی انتہائی کم تعدادسے یہ ظاہرہوتاہے کہ مسلمانوں کی روزانہ پانچ مرتبہ وضو کرنے کی عادت کی وجہ سے ان میں وائرس کے خطرات کم سے کم پائے گئے ہیں، انھوں نے حیرت کااظہارکرتے ہوئے بتایاکہ برطانیہ کے ان علاقوںمیں، جہاں کوروناوائرس کے متاثرین کی خاصی تعدادہے اورجنھیں کورونا ہاٹ اسپاٹ قرار دیاگیاہے، ان علاقوں میں مکین مسلم طبقوں میں اس وائرس سے متاثرہونے والوں میں انتہائی کم تعدادہے، پھرانھوں نے ان علاقوں کے سرکاری اعدادوشمارکوبتاتے ہوئے کہا کہ متاثرین میں مسلمانوں کی انتہائی کم تعدادیقیناًروزانہ پانچ مرتبہ وضوکی عادت کی وجہ سے ہے(روزنامہ سیاست حیدرآباد:۲۳؍اپریل ۲۰۲۰ء)۔
اسلام نے شراب کوحرام قراردیا، یہ حکم عین فطرت کے مطابق ہے ؛ کیوں کہ اس حکم کے ذریعہ انسان کی جسمانی صحت کاخیال رکھاگیاہے، بہ ظاہرشراب میں تھوڑا فائدہ نظر آتاہے؛ لیکن اس کے ضمن میں کتنی بیماریاں پیداہوتی ہیں، آپ خوددیکھ سکتے ہیں، اس کے ذریعہ سے جسم کاپورادفاعی نظام کمزور ہوجاتاہے، معدہ، گردے اوردماغ کی خلیوں میں سوجن پیداہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے خطرناک قسم کے امراض پیداہوجاتے ہیں، جگراس حدتک متاثرہوجاتاہے کہ اپناکام کرناہی بندکردیتاہے، جسے(Liver Cirrohsis) کہاجاتاہے اوریہ بہت ہی خطرناک ہوتاہے، اعصابی تناؤ اورجنسی کمزوریوں کاباعث بھی ہوتاہے، انہیں نقصانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قراردیاہے۔
یہ دومثالیں نمونے کے طورپرہیں، ورنہ جتنے بھی احکام ہیں، وہ سب کے سب فطرت سے ہم آہنگ ہیں، کسی بھی حکم میں فطرت سے ٹکراؤنہیں؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ان احکام میں غورکرنے کے لئے ایساشخص چاہئے، جس کی فطرت خودمسخ نہ ہو؛ کیوں کہ جس کی فطرت مسخ شدہ ہوگی، اسے توہم جنس پرستی میں بھی کوئی قباحت نظرنہیں آئے گی، اسے تولواطت میں بھی کوئی برائی نظرنہیں آئے گی، اسے تواپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ بھی جسمانی تعلق استوارکرنے میں کوئی شناعت نہیں دکھے گی، اسلامی قانون کی فطرت سے اسی ہم آہنگی کانتیجہ ہے کہ غیربھی ان قوانین کے معترف ہیں؛ چنانچہ امریکہ کی ہارورڈیونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر فلڈمین(Noah Feldman)کہتے ہیں:’’ درحقیقت عالمی تاریخ میں اسلامی قانون سے بہتر، معتدل، کشادہ دلی اورانسان دوستی پرمبنی قانونی اصول کہیں نہیں پائے جاتے، ایسامعلوم ہوتاہے کہ مغربی دنیاکے لوگوں کواپنے نظام کی خرابیوں کوچھپانے کے لئے اس سازش کی ضرورت تھی کہ وہ اسلام اوراسلامی شریعت کوایک دہشت ناک چیزبناکردنیاکودکھائیں؛ تاکہ لوگ اسلام کوبرااورمغربی دنیا کو اچھا سمجھنے لگیں‘‘(zahidrashdi.org/2553)۔
اسلام کے یہ قوانین اس وقت تک نافذ العمل رہے، جب تک کہ صحیح مسلم حکومتیں قائم رہیں، پھررفتہ رفتہ اسلام پرعمل پیرالوگ اٹھتے گئے اوریہ قوانین بھی عملی طورپرختم ہوتے گئے، موجودہ عالمی اطلس میں سعودی عرب کوایسامسلم ملک سمجھاجاتاتھا، جہاںکے بارے میں یہ تصورتھاکہ یہاں اسلامی قانون نافذ العمل ہے؛ لیکن کچھ سالوں سے آہستہ آہستہ جوچنداسلامی قوانین نافذالعمل رہ گئے تھے، سب ایک ایک کرکے کالعدم قراردئے جارہے ہیں، ظاہرہے کہ یہ سب اپنے انکل سام کے اشارے پر کیاجارہاہے، آج بتاریخ۲۶؍اپریل ۲۰۲۰ء کے منصف کی خبرکے مطابق سعودی عرب کے سپریم کورٹ نے کوڑے مارنے کی سزاکی برخواستگی کااعلان کیاہے اورکہاہے کہ تازہ اصلاح کے ساتھ ہی مملکت سعودی عرب بین الاقوامی انسانی حقوق وضوابط کے معاملہ میں دیگرممالک کی ہم پلہ ہوگئی ہے اورمستقبل میں ججس کوجیل یاجرمانہ کی سزاکومنتخب کرناہوگا۔
جرم کی بعض سزاؤوں میں اسلام نے کوڑے کی سزارکھی تھی اوریہ سزااس جرم کے مقابلہ میں بالکل درست تھی، مثلاً: غیرشادی کے ناجائزجنسی تعلق پریاشراب پینے پریہ سزائیں متعین کی گئی ہیں، شراب کی خرابیوں کے تعلق سے اوپرکچھ باتوں کا ذکر ہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کوڑے کی سزااس کے لئے باکل درست تھی، دراصل اسلام کا نقطۂ نظراس سلسلہ میں یہ ہے کہ جرم جس قدرسنگین ہو، سزابھی اسی لحاظ سے بڑی ہو نی چاہئے اورسزاایسی ہونی چاہئے، جودوسروں کے لئے ترغیب کاکام نہ کرے, بل کہ وہ عبرت بنے اوراس سزاکودیکھ کردوسرے جرم کرنے سے سہم جائیں۔
آج تقریباً پوری دنیاکے قوانین بالخصوص زناکے قانون کا جائزہ لیجئے توسب سے پہلے توہمیں یہ معلوم ہوگاکہ بہت سارے ممالک میں یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے، ہاں دونوں کی رضامندی سے ہوناچاہئے، اب ظاہرہے کہ جب یہ جرم ہی نہیں ہے توپھراس پرسزاکی ضرورت بھی نہیں؛ لیکن بغیررضامندی کے اسے جرم قراردیاگیاہے؛ لیکن اس کی سزاکیا؟ وہی جرمانہ یاپھرجیل، ظاہرہے کہ یہ سزا’’تازیانۂ عبرت‘‘ ہونے کے بجائے مجرم کے اندر ’’جرأتِ رندانہ‘‘پیداکردیتاہے، ایک شخص ایک لڑکی کی پُربہارزندگی کوخزاں رسیدہ کرکے زندہ درگورکردیتاہے اوراس کی سزامحض چند سالوں کی قید اورجرمانے کے نام پرایک حقیر اورمعمولی رقم! پھرعام طوراس طرح کے گناہ ’’بڑے‘‘ لوگ کرتے ہیں، جن کے لئے جرمانہ دیناکوئی مشکل کام نہیں ہوتا اوران کے نزدیک اس جرمانہ کی حیثیت بس ایسی ہی ہوتی ہے، جیسے رات رنگین کرنے کے لئے کوٹھے میں جاکرقیمت اداکرنا، اس کے سواان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں، اورجہاں تک جیل کاتعلق ہے ، ان بڑوں کے لئے جیل’’داد عیش ‘‘کی جگہ ہوتی ہے، لہٰذا یہ دونوں سزائیں کسی کام کی نہیں، خودہمارے ملک میں اس کامشاہدہ کرلیجئے، یہاں بھی جرمانہ اورجیل کی ہی سزاہے؛ لیکن اس سزاکی وجہ سے جرم میں کمی آئی یا آرہی ہے یا دن بہ دن اضافہ ہی ہورہاہے؟خودحکومت کاڈیٹاہے کہ ہرروزہرپندرہ منٹ میں ایک ریپ ہوتاہے (asiatimes.com)، جس کامطلب یہ ہواکہ ہرایک گھنٹہ میں چارریپ ہوتے ہیں اورہرچوبیس گھنٹہ میں۹۶؍ ریپ ہوتے ہیں، اس لحاظ سے پورے سال میں35,040ریپ ہوتے ہیں، پھریہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ وہ تعدادہے، جودرج کرائے جاتے ہیں، جب کہ سماجی خوف سے یہاں بہت سارے کیس درج ہی نہیں کرائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب نے کوڑے کی سزاختم کرکے دراصل عیاشی کی راہ ہموارکی ہے، پہلے عیاشی کے لئے دوسرے ملکوں کاسفرکرناپڑتاتھا، اب اس کے بعددوسرے ملکوں میں سفرکی ضرورت نہیں، جرمانہ دے کرجرم کرتے رہو، کوڑے کی سزا کی برخواستگی کے ساتھ ہی بچے کھچے اخلاقی قدروں کازوال شروع ہوگیااوروہ دن دورنہیں، جب ان کے یہاں بھی زنااوردیگربرائیوں کی شرح میں اضافہ ہی نہیں ہوگا؛ بل کہ شمارکرنادشوارہوجائے گا، وہاں کی سپریم کورٹ کواس پرفخرہورہا ہے کہ وہ اب بین الاقوامی انسانی حقوق وضوابط کے معاملہ میں دیگرممالک کی ہم پلہ ہوگئی ہے؛ لیکن اس پرافسوس نہیں کہ اللہ کی طرف سے متعین کردہ قانون کاقلع قمع کیاجارہاہے، وہ شایدیہ سمجھتے ہیں کہ ’’چلوتم ادھرکو، ہواہوجدھر کی‘‘کے اصول کواپناکرسرخ روہوجائیں گے، یہ غلط فہمی ہے، اس غلط فہمی کودورکرلینی چاہئے، حرم کے متولی ہونے کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ شریعت میں بھی تبدیلی کاحق حاصل ہوگیا اوریہ بات یادرکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت غیرت مند ہے اورسب سے غیرت اس وقت آتی، جب اس کے محارم کی پامالی کی جاتی ہے ۔
Comments are closed.