مجبور

فریدہ بیگم
پی ایچ ۔ڈی ریسرچ اسکالر‘ عثمانیہ یونیورسٹی
ہیلو…
ہیلوکون؟
ہیلو …ہیلو ہاں بیٹامیں سکینہ بول رہی ہوں۔ جی آنٹی سب خیریت ‘کیسے فون کیا ؟عابد نے پوچھا ‘کچھ خیریت نہیں دیڑھ مہینے سے یہ لاک ڈان ہے بیٹا ‘ہم بہت پریشان ہیں‘ ناصرف پریشان بلکہ بے بس و مجبور بھی۔ عزت کی خاطر کسی سے اپنا حال کہہ نہیں سکتے….
جی آنٹی…. پر بات کیا ہے؟
بیٹے ‘تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ایک مریضہ ہوں‘ مجھے شوگر اور بی پی کا مرض لاحق ہے……
جی انٹی…بیٹا…انٹی بتائے نا کیا ہوا …آپ خاموش کیوں ؟…
بیٹا کیا بتاؤں… میری… میری…آنٹی آپ ہمت سے کام لیجیے… بتائے نا آنٹی ؟ . ..
بیٹا میری بی پی اور شوگر کی دوائیاں ختم ہو چکی ہیں… تم تو جانتے ہو نا بیٹے… دوائی اگر وقت پر نہیں کھائی تو صحت مزید بگڑ سکتی ہے…
اسی لیے مجبور ہو کر تمہیں فون کررہی ہوں…
یہ جملہ سن کرعابد کا دل ہل سا گیا اوروہ سکتہ کے عالم میں ماضی کو یاد کرنا لگا جب عابد چھوٹا سا تھا وہ اکثر سکینہ کے مکان کے سامنے کھیلا کرتا تھا‘ سکینہ کا شوہر فروٹ کا کاروبار کرتا تھا اور بہت ہی نیک اور مخلص انسان تھا۔ مکان ذاتی اور ہر چیز میسر تھی۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح بلا کر روز پھل دیا کرتی تھی‘ کبھی انگور تو کبھی آم کبھی جام تو کبھی سنترہ مگر وقت نے کیسی کایا پلٹی۔ پانچ سال کے اندر ہی پہلے اس کا شوہر ٹی بی کی بیماری سے متاثر ہوکر فوت ہوگیا اور تھوڑے ہی دنوں بعد سکینہ نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح کرنے کیلئے دل پرپتھر رکھ کر اپناگھر فروخت کردیا اور چھوٹا بیٹا محبت ولارڈ پیار سے بگڑ گیا‘ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکا ۔اب سکینہ اکیلے ہی سلوائی کرکے گھر کا خرچ چلاتی ہے مگر اس وبائی بیماری او اچانک ہوئے ر لاک ڈان کی وجہ سے ایک بھی کپڑے سلوانے والا گاہک نہیں آیا اور عید کے موقع پر وہ چند پیسے زیادہ کمالیتی تھی تاکہ سال بھر کا خرچ چل سکے لیکن اس بار وہ آمدنی بھی مشکل نظرآرہی ہے۔ اب کھانے کیلئے کچھ رہا ہی نہیں۔
پتہ نہیں کسی طرح مجبور وبے بس ہوکر اپنے دل کو تھام کر اس نے عابد کو آج فون کیا اور اس کی ہچکیاں بند نہ ہوسکی اور کال کٹ گیا…
عابد کا دل بہت غمگین ہوگیا تھا وہ فوراً اٹھا ‘ اے ٹیم پہنچ کر پیسے نکالے اور دوائی اور تھوڑا سا سامان خرید کر سکینہ کے گھر پہنچ گیا تو سکینہ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تھیلی لی‘ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ جب تک اس کا شوہر تھا کسی سے کچھ مانگنے کی نوبت نہیں آئی تھی مگر آج کی اس بیماری نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ پتہ نہیں۔شاید انسان کی کرموں کا پھل ہے یا اللہ تعالی کا بھیجا گیا عذاب ۔ ایک چھوٹے سے جراثیم نے ساری دنیا کو مجبور کر دیا۔
عابد‘ سکینہ کے یہاں سے آکر بھی اپنے دل ہی دل میں رو رہا تھا اس کی امی نے عابد کے آنکھوں کو دیکھ کر پچان لیا او ر کہا کیا ہوا میرے بچے سب خیریت سے تو ہے کیوں رورہاہے؟ کسی نے تجھے کچھ کہا کیا‘ مجھے بتا؟
عابد اپنی امی کا پیار دیکھ کر ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور سکینہ کے گھر کے معاشی حالات کا واقعہ سنایا وہ بھی بہت غمگین ہوگئیں اور افسوس کرنے ہوئے کہنے لگی۔ہم تو الحمدللہ ٹھیک ہیں‘ تین وقت کی روٹی نصیب ہورہی ہے۔بھر پیٹ اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کھلا رہا ہے۔کسی کے محتاج ہونے کی نوبت نہیں الحمدللہ ‘مگر بیٹا آج اس وبائی بیماری اور لاک ڈان سے بہت سارے لوگ بھوکے رہ کراپنی خوداری کے ہاتھوں مجبور ہوکر دم توڑ دے رہے ہیں… جس کی خبر کسی کو نہیں۔کئی گھروں میں چولھا تک نہی جل رہا ہے۔لوگ اتنے مجبور ہے اور بے بس ہیں۔ میں دودن پہلے تمہارے ابو کے ساتھ گاڑی پرترکاری لانے بازار جارہی تھی تو یہ دیکھ کر دل بیٹھ گیا ایک شخص کوڑا دان سے ٹماٹر نکال کر تھیلی میں دال رہا تھا… انسان آج اتنا مجبور ہوگیا کہ کسی سے کچھ مانگنے کی ہمت بھی نہیں‘ وہ کبھی روڈ پر گرا ہوا دودھ اٹھاکر پلاسٹک کی تھیلی میں جمع کررہا ہے یا پھر کچرہ کنڈی سے چوری چھپی کچھ کھانے کا سامان تلاش کررہا ہے۔
حکومت کی جانب سے جو بھی اناج دیا جارہا ہے ‘ اس کو بھی مختلف ٹولیاں الگ الگ جگہ جاکرجمع ہوکر حاصل کررہی ہیں ‘مختلف ادارہ اور تنظیمیں اور مالدار حضرات بھی اپنی طرف سے جو چھوٹی مدد کرتے ہیں وہاں بھی یہ ٹولیاں پہنچ کر ضرورت مندوں کا حق ماررہی ہیں‘ امید ہے کہ اللہ ایسے ضرورت مند اور مجبور لوگوں کا بھلاکرے گا۔ نا جانے کب یہ بیماری سے انسان کو نجات ملے گی ؟اورکب یہ لاک ڈاؤن کا قہر ختم ہوگا؟۔ اگریہ ایسے ہی جاری رہے گا تو لگتا ہے اس وائرس سے پہلے فاقہ کشی اور وقت پردوا نہ ملنے سے لوگ مارے جائیں گے۔
٭٭٭

Comments are closed.