ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی حمایت کیوں ضروری ہے؟

تحریر : ابھے کمار
انگریزی سے ترجمہ : عبدالرؤف قاسمی
پچھلے چند دنوں سے دہلی اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان فرقہ پرست ہندو طاقتوں اور گودی میڈیا کی جانب سے سخت حملوں سے دو چار ہیں، فرقہ پرست ہندو طاقتوں نے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو ان کے ایک ٹویٹ کی بنا پر نشانہ بنایاہے (اور دہلی پولیس نے ملک سے بغاوت کے الزامات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے)، ان فسطائی طاقتوں کا الزام ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے بھید بھاؤ ( ظلم و ستم) کے مسئلہ کو عالمِ عرب کے سامنے رکھ کر ان کو ( اور ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو ) خطرہ میں ڈال دیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر لگائے گیے یہ الزامات (نفرت انگیز) سیاست پر مبنی ہیں، ان کو صرف اور صرف ان کی شہرت و شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جبری اور فلسطائی طاقتیں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کی عمدہ کارکردگی اور کردار کی وجہ سے بے چین و پریشان ہیں، ظفر الاسلام خان صاحب نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے منسوب ہیں اور نہ ہی اپنے کسی آقاء کو خوش کرنا ان کی مجبوری ہے، بلکہ وہ ایک بہترین تعلیم یافتہ اور اپنے میدان کے شہسوار ہیں، فروری ٢٠٢٠ میں دہلی فسادات میں تباہ و برباد ہونے والے والے مظلوم و پسماندہ طبقات کو راحت اور رلیف پہنچانے میں انتہائی سرگرم اور متحرک و فعال نظر آئے، اور دہلی اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور قیامِ امن کے لیے ایک اہم غیر معمولی کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام ایک ممتاز صحافی، مصنف، ترجمہ نگار اور اسلامی اسکالر ہیں۔ وہ وسیع التجربہ شخصیت کے مالک ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک معزز شہری ہیں، ان کی زندگی اور ان کا عمل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا علمبردار رہا ہے، ان کی اس شناخت، زندگی، اور کارناموں نے نے ہندو فرقہ وارانہ طاقتوں کو مشتعل کردیا ہے، وہ انہیں اپنی نفرت کی سیاست کے لیے سنگ راہ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے کارہائے نمایاں اور خدمات کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے آپ کو دوسرے ذرائع کا سہارا لینا پڑے گا، یہاں تو میں صرف ان کی زندگی کے کچھ حصے اجاگر کرنے جا رہا ہوں کہ میں نے ذاتی طور پر ان کو کیسا پایا۔
یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ میں نے ذاتی طور پر ان کی طرح مختلف زبانوں میں روانگی اور سلاست کے ساتھ لکھنے اور بولنے والے کسی دوسرے شخص کو نہیں دیکھا، ایک مرتبہ وہ پندرہ روزہ انگریزی اخبار ملی گزٹ Milli Gazette -جس کے لیے انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ ادارت کے فرائض انجام دیئے ہیں- کے لیے کہانیاں ایڈٹ کر رہے تھے کہ اس درمیان ان کے پاس ایک فون آیا، تو میں ان کی سلاست سے بھر پور عربی کو سن کر حیران و ششدر رہ گیا۔
میں نے ذاتی طور پر ان کے ہم پلہ محنت و جدو جہد اور جانفشانی کرنے والا کسی دوسرے کو نہیں پایا، آفس میں میں نے ان کو رات دن کام کرتے دیکھا ہے، وہ ان چند ایڈیٹر اور عوامی دانشوروں میں سے ایک ہیں کہ جب بھی آپ ان کو ای میل کریں گے اسی وقت آپ کو جواب مل جائے گا۔
ظفر الاسلام خان روزانہ پنج وقتہ نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ مجھے ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ملا جس نے اپنے عقائد و ایمان اور اسباب کے درمیان، روایات اور جدت پسندی کے درمیان انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ توازن کو برقرار رکھا ہو۔ ایک مرتبہ جب میں ان کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کے موضوع پر گفتگو کر رہا تھا، تو انہوں نے مختلف قدیم روایتی علماء کے نظریات پر بہتر اسلوب میں تنقیدی تبصرہ کیاتھا، طلاقِ ثلاثہ کے استعمال و رواج کی انہوں نے نہ کبھی تائید و حمایت کی اور نہ ہی کبھی اس کے دفاع میں آئے۔ مسلم خواتین کے مسجد میں داخل ہونے کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے میرے سامنے ایک اہم حقائق کو بیان کیا جنہوں نے میری توجہ کو کھینچ لیا۔
میں نے ذاتی طور پر ان کی طرح محنت و جانفشانی سے کاغذات کو انتہائی مرتب و منظم انداز میں رکھنے والا شخص نہیں دیکھا، جو لوگوں کو درپیش مسائل اور واقعات کی عمدہ انداز میں فہرست بنا کر رکھتا ہو، ان کے آفس میں روزانہ نیوز پیپر کے تراشیدوں کو سنبھال کر رکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، اور وہ نوجوان اسکالرس کو دستاویز کاری، کاغذات کی ترتیب و تنظیم اور حوالہ نگاری کے فن سے آراستہ ہونے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ وہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں، اور مظلوم و پسماندہ طبقات کے مسائل اور ان سے متعلق خبریں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے سوال کیا، کہ کیا ہماری تحریروں سے کچھ فرق پڑتا ہے؟تو انہوں نے بہت ہی مثبت انداز میں جواب دیا کہ ہاں، بالکل فرق پڑتا ہے، اس لیے ریسرچ و تحقیق کرکے اس کو عوام کے سامنے رکھو، یقیناً کوئی اس پر ضرور توجہ دے گا۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب ان چند شخصیات میں سے ہیں جو مسائل کا ہر زاویہ سے تجزیہ کرتے ہیں، وہ باہمی تعاون، رواداری، اور آزادیِ آظہارِ رائے کے عظیم داعی و حامی ہیں، ایک مرتبہ میں نے ایک ایسے دانشور پر سخت تنقید کی، جن کتابوں کی طباعت ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب پہلے ہی کر چکے تھے، لہٰذا میں نے ان سے فون پر معلوم کیا کہ سر کیا آپ ایسا مضمون شائع کر سکتے ہیں جس میں آپ کے مکتبہ سے منسلک ایک قلم کار پر سخت تنقید کی گئی ہے؟ تو ان کا جواب یقیناً لائق ذکر ہے، انہوں نے جواب میں فرمایا کہ جیسے قلم کار میرے دوست ہیں ویسے ہی تم میرے عزیز ہو، لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رکھیے کہ افکار و خیالات کو دبانا نہیں چاہیے۔
ان سب خصوصیات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب ایک رحم دل اور شفیق انسان ہیں، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے ایک دوست کے پاس جے این یو میں رجسٹریشن فیس جمع کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور نہ ہی پیسے حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ تھا، حسنِ اتفاق سے میں نے ان کو فون کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی، وہ فوراً تعاون کرنے پر راضی ہو گیے، اگلے روز جیسے ہی ہم ان کے گھر پر پہنچے تو وہ ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے، انہوں نے رقم کو سفید رنگ کے لفافہ میں رکھا اور ہمارے سپرد کر دیا، اور پھر جوس پلا کر ہماری ضیافت بھی کی۔
ان پر تنقید کرنے والے اور نکتہ چیں بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ظفر الاسلام صاحب ایک مثالی قلم کار اور میدانِ صحافت کے شہسوار ہیں، وہ عربی اور اسلامی تاریخ کے ایک عظیم اسکالر ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مشہور مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے والدِ ماجد،عظیم اسلامی اسکالر مولانا وحیدالدین خان صاحب کی تالیفات اور خدمات کو عربی میں منتقل کرکے عالم عرب میں ان کو متعارف و مشہور کرایا ہے، اگرچہ باپ بیٹے، دونوں کی رائے بہت سے مسائل میں جداگانہ ہیں، خصوصاً ان مسائل میں جن کا تعلق سیاست سے ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان میدان صحافت کے مشہور شہسوار ہیں، انہوں نے عربی اور انگلش دونوں میں صحافت کرکے میدان صحافت میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ انہوں نے بہت سارے مشہور و معروف عربی اخبار میں کام کیا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بطور صحافی کے عالم عرب میں ان کا ایک مقام ہے، ان کی تحریریں متعصب و متشدد ہندوؤں کے دعووں کے برخلاف وطن عزیز کی نمائندگی کرتی ہیں۔
دہلی اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فرائض و خدمات ہمیشہ قوانین و ضوابط کی روشنی میں انجام دیئے ہیں، ہمیشہ اپنی ڈیوٹی اور ذمہ داریاں قانون کے مطابق بحسن و خوبی نبھائی ہیں، دہلی اقلیتی کمیٹی میں ان کی تقرری کی وجہ سے اقلیتوں کے لیے بڑے بڑے رلیف کے کام انجام دیے گیے، اور میٹی میں ایک نئی جان پڑی، ان کی خدمات اور کارناموں نے ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والے شر پسند عناصر کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا، ان شر پسند طاقتوں کے علاوہ ظفر الاسلام خان صاحب چند دوسرے اسکالرس، عوامی دانشوران، نوجوان لیڈر اور سماجی کارکنان کے بھی نشانہ پر رہے ہیں۔
واضح ثبوت و شواہد اور مثالوں کی بنیاد پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو فرقہ پرست طاقتیں ان کے خلاف نفرت انگیز مہم اور پروپیگنڈہ چلانے میں منہمک ہیں، جن کی پشت پناہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ذی اقتدار لوگ کر رہے ہیں۔ فسطائی طاقتیں ان کو اقلیتی کمیٹی کی صدارت سے برخاست کرنے کی سازشیں ایک عرصے سے کر رہی ہیں۔ یک طرفہ نفرت کے ماحول میں ہندو فرقہ پرست طاقتوں اور گودی میڈیا نے ان کے ایک سادہ سے ٹویٹ کو متنازع بنا کر پیش کیا ہے، اور اب ہندو فرقہ پرست طاقتیں ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہی ہیں، ایک عرصہ سے یہی ہو رہا کے کہ فرقہ پرست طاقتیں اور گودی میڈیا اسی طرح مسلمانوں کو بدنام کرتی ہیں اور پھر ان پر غدارِ وطن کا مقدمہ درج کر دیتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں، کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ٹویٹ سے پہلے ہی گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا کے خلاف کیمپین اور مہم زور و شور پر ہے۔
مجھے ہندوستان کے اس عظیم سپوت کے بارے میں بہت کچھ کہنا تھا، لیکن تحریر کی طوالت اور جگہ کی قلت سدِ راہ بنی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ اہم بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان پر حملے کا مطلب ان کی شہرت و شناخت، اور ان کے بے داغ کردار اور کارناموں پر حملہ ہے، ان کو صرف ان کی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر حملہ کرکے ہندو جبری قوتیں حقیقت میں سچے بھارتیوں کے احساسات و جذبات پر حملہ کر رہی ہیں۔
فسطائی طاقتوں کے ان منصوبوں اور سازشوں کو ہر حال میں ناکام بنانا ہوگا، ہر حال میں آگے آنا ہوگا، اور ہمیں ہر حال میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ان کا ساتھ دینا ہوگا، کیوں کہ وہ ہمیشہ ہمارے حقوق کے لیے لڑے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہمارے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے، امن، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور انصاف کے لیے غیر معمولی اور قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں، ایسے نازک وقت میں ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

(ابھے کمار جے این یو سے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، اقلیتوں کے حقوق، اور سماج کے لیے انصاف کی آواز اٹھانا ان کا مشغلہ ہے۔آپ ان سے مندرجہ ذیل ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں۔)[email protected]

Comments are closed.