کورونا سے لڑائی میں طے ہو جواب دہی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
سماجی دوری یعنی فزیکل ڈسٹنسنگ کو کورونا انفیکشن کے خلاف کارگر مانا گیا ہے ۔ اسی کے پیش نظر حکومت نے 24 مارچ سے لاک ڈاؤن کیا، لاک ڈاؤن 1 اور 2 کا اعلان خود وزیراعظم نے کیا تھا ۔ مگر لاک ڈاؤن 3 کے لئے پریس ریلیز جاری کرنے پر اکتفاء کیا گیا ۔ ملک بندی کو چالیس دن سے زیادہ ہو چکے ہیں ۔ عوام نے تالی، تھالی بجا اور دیا، موم بتی، چارج جلا کر حکومت کے فیصلہ پر عمل کرنے کا پیغام دیا ۔ لیکن سرکار آج تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ عوام کی بہتری کیلئے کیا کر رہی ہے اور اس کے بعد کا منصوبہ کیا ہے ۔ مرکزی حکومت نے کورونا کی لڑائی کو عوام اور ریاستوں کے کندھے پر ڈال دیا ہے ۔ جسمانی دوری عوام بنائیں، گھروں میں عوام رہیں، ضرورت کے لئے بھی گھر سے نکلنے پر پولس کے ڈنڈے کھائیں، کرایہ داروں سے کرایہ عوام نہ وصولیں، پڑوسیوں اور غریبوں کی مدد عوام کریں، پی ایم کیئر میں چندہ عوام دیں، ملازمین کو نوکری سے عوام نہ نکالیں اور نہ ان کی تنخواہ کاٹیں ۔ کورونا کے مریضوں کا علاج، لاک ڈاؤن پر عمل ریاستی حکومت کرائے، پھنسے ہوئے مزدوروں اور طلبہ کو ریاستی سرکاریں واپس ان کے گھر تک پہنچائیں ۔ مرکزی حکومت نہ ضرورت کا طبی سازوسامان مہیا کرا پا رہی ہے اور نہ مالی مدد ۔ پھر بھی تالی، تھالی بجوا، دیا موم بتی، ٹارچ جلوا اور کورونا سے لڑنے والے سپاہیوں پر فوج کے ذریعہ پھولوں کی بارش کر واہ واہی لوٹنا چاہتی ہے ۔ جبکہ سابق فوجی افسران نے حکومت کے اس قدم پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔
کووڈ 19 نے ریاستوں کی حدود کو ہی نہیں ذات، مذہب اور طبقات کی تفریق کو بھی ختم کر دیا ہے ۔ اس وقت ملک ایک گاؤں کی طرح ہو گیا ہے ۔ جس کے سامنے زندگی بچانے کے ساتھ روزگار کے ذرائع کو باقی رکھنے کا چیلنج ہے ۔ مگر دشواری یہ ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے پورے ملک کو ایک ملک کی نظر سے نہیں دیکھا ۔ بلکہ ہمیشہ شمال، جنوب، مغرب، مشرق یا ذات برادری، ریاست اور طبقہ کی شکل میں دیکھا ۔ اسی کے لحاظ سے منصوبہ بندی کی گئی ۔ انتخابات کے منشور بھی اسی کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ۔ کبھی بھی قومی ایجنڈے میں غریب، بے سہارا، مہاجر محنت کش، دیہی علاقے، کسان اور جگی جھونپڑی میں رہنے والوں کو جگہ نہیں ملی ۔ لاک ڈاؤن میں جب سماج کا یہ اسی فیصد طبقہ اور اس کے مسائل سامنے آئے تو ملک اور حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے ۔
ملک میں 23 کروڑ لوگوں کے پاس راشن کارڈ ہے ۔ 11.5 کروڑ مڈ ڈے میل کھانے والے بچے ہیں ۔ 25 کروڑ لوگ من ریگا کے تحت رجسٹرڈ ہیں ان میں سے گیارہ کروڑ ایکٹیو ہیں ۔ 22 سے 23 کروڑ مہاجر مزدور ہیں جو کام کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں ۔ کسانوں کی تعداد 10.5 کروڑ ہے ۔ ان میں سے کئی ایسے ہو سکتے ہیں جو کسان ہوں، ان کے پاس راشن کارڈ ہو اور وہ من ریگا مزدور بھی ہوں ۔ اس لحاظ سے یہ تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے ۔ حکومت نے دو دن قبل اس بار مئی جون میں بھی مڈ ڈے میل دینے کی بات کہی ہے ۔ گزشتہ سالوں میں مئی جون کے دوران اسکول کی چھٹی ہونے کی وجہ سے مڈ ڈے میل نہیں دیا جاتا تھا ۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہو سکتا ہے کہ حکومت نہ راشن کارڈ رکھنے والوں کو راشن فراہم کر پاتی ہے ۔ نہ مڈ ڈے میل کھانے والوں کو کھانا اور نہ ہی من ریگا کے مزدوروں کو سو دن کام ۔ سینئر صحافی پرسون پرنے واجپئی کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 71 ہزار کروڑ روپے سے درج بالا تمام کسانوں، من ریگا، دہاڑی مزدوروں، بے سہارا غریبوں اور بچوں کو ایک ماہ تک کھانا فراہم کر ان سے کہا جا سکتا ہے کہ جو جہاں ہے وہیں رہے ۔ تین مہینے کے لئے پانچ لاکھ 13 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی ۔ اس سے ملک کئی پریشانیوں سے بچ سکتا ہے ۔ یہ رقم مرکزی حکومت اپنی وزارتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خرچ میں کٹوتی کرکے، لٹین زون، راشٹر پتی بھون کو اور خوبصورت بنانے کے منصوبہ، بلٹ ٹرین اور وزیراعظم کے بیرونی سفر کے لئے جہازوں کی خرید کو ملتوی کرکے فراہم کر سکتی ہے ۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار مہاجر مزدوروں کی گھر واپسی کے حق میں نہیں ہیں ۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس سے کورونا وائرس کی وبا گاؤں تک پہنچ سکتی ہے ۔ خود مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کہا تھا کہ گاؤں لوٹنے والے مہاجر دس مزدوروں میں سے تین کووڈ 19 سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔ ویسے بیماری کے ڈر سے لاک ڈاؤن کے دوران مختلف ریاستوں اور ان کے اندر اضلاع نے اپنی سرحدوں پر کڑی چوکسی لگا رکھی ہے ۔ لیکن کچھ ریاستیں اس معاملے میں اور آگے نکل گئی ہیں ۔ کرناٹک نے کیرالہ جانے والی دو شاہراہوں کو مارچ میں ہی بند کر دیا تھا ۔ اب خبر ملی ہے کہ تمل ناڈو نے ویلور کی سرحد پر پانچ پانچ فٹ کی دو مضبوط دیواریں کھڑی کر دی ہیں ۔ تاکہ آندھرا پردیش کے لوگوں کی آواجاہی روکی جا سکے ۔ تمل ناڈو کی اس کاروائی سے ویلور کے ملٹی اسپیشلسٹ اسپتال تک پہنچنے میں تو دشواری ہو ہی رہی ہے لگ بھگ 10 ہزار لیٹر یومیہ دودھ کی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے ۔ ادھر اڑیسہ نے آندھرا پردیش کی سرحد پر اپنی سڑک کو کھود دیا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں بیماروں خاص طور پر حاملہ خواتین کو بانس پر چادر باندھ کر لانا پڑ رہا ہے ۔ ویسے آندھرا پردیش نے تمل ناڈو اور اڑیسہ سے اس طرح کی کاروائی نہ کرنے کی گزارش کی ہے ۔ ادھر گوا کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی حکومت سے تین مئی کے بعد بھی کرناٹک اور مہاراشٹر سے لگنے والی سرحدوں کو بند رکھنے کی گزارش کی ہے ۔ اس بیچ ہریانہ نے دہلی سے لگنے والی اپنی سرحد کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ کاروائیاں کہیں لاک ڈاؤن کے بعد نئے مسائل پیدا نہ کر دیں ۔
اس وقت ملک انتہائی کمزور نظام صحت کے ساتھ کورونا وائرس سے مقابلہ کر رہا ہے ۔ ملک کے 720 اضلاع کے اسپتالوں میں کل 1.9 ملین بیڈ ہیں ان میں صرف 95 ہزار ہی آئی سی یو بیڈ ہیں اور 48 ہزار وینٹی لیٹر ۔ کتنے وینٹی لیٹر خراب ہیں یا ان اسپتالوں میں کتنے اسٹاف کی کمی ہے ۔ فی الوقت اس کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ البتہ جو ہیلتھ کارکنان کورونا کی مشکل لڑائی لڑ رہے ہیں ان کے اپنے تحفظ کا سازوسامان بھی انہیں نہیں مل پا رہا ہے ۔ اسی بنیاد پر دہلی کے ہندو راؤ اسپتال کے سبھی ڈاکٹروں نے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ کتنے ہی کورونا وائرس سے متاثر اضلاع میں آئی سی یو بیڈ اور وینٹی لیٹر نہیں ہیں ۔ پھر گاؤں میں صحت سہولیات کا حال اور بھی خراب ہے ۔ رہا سوال جانچ کا تو ہم بڑے پیمانے پر کورونا کی جانچ کرنے کی بھی حالت میں نہیں ہیں ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ 24 مارچ کو کووڈ 19 کے ملک میں قریب 564 مریض تھے ۔ جن کی تعداد بڑھ کر 46 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے ۔ مہاراشٹر، گجرات، مدھیہ پردیش، دہلی، تمل ناڈو، راجستھان اور اتر پردیش وغیرہ میں اب بھی نئے کیس سامنے آ رہے ہیں ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا جسمانی دوری کا فارمولہ ناکام ہے یا اس پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن سے پہلے جگی، جھونپڑ پٹی والے علاقوں کے بارے میں کوئی پلاننگ نہیں کی ۔ غیر منصوبہ بند ترقی کی وجہ سے پنپے زیادہ بھیڑ بھرے شہروں اور جگی جھونپڑی والے علاقوں کا کورونا سے برا حال ہے ۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 2613 ملن بستیاں ہیں ۔ جہاں 1.2 کروڑ خاندان بستے ہیں یعنی 6.5 کروڑ لوگ ۔ دہلی میں 15 فیصد، کلکتہ میں 30 فیصد، چنئی میں 29 فیصد، بنگلور میں 9 فیصد تو گجرات میں 2.48 فیصد جگی جھونپڑی بستیاں ہیں ۔ مہاراشٹر کے دھاراوی میں 13.11 لاکھ لوگ جگی جھونپڑی میں رہتے ہیں ۔ یہاں کورونا وائرس کے معاملے لگاتار بڑھ رہے ہیں ۔ کیوں کہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں پانچ سے آٹھ لوگوں کا خاندان رہتا ہے ۔ یہ جگیاں آپس میں اتنی سٹی ہوئی ہوتی ہیں کہ ہوا بھی مشکل سے پاس ہو پاتی ہے ۔ اس لئے یہاں رہنے والے زیادہ تر افراد پتلی گلیوں میں ٹہل کر یا فٹ پاتھ پر سو کر وقت گزارتے ہیں ۔ ملن بستیوں میں سماجی دوری کے فارمولہ پر عمل کرانا عملی طور پر مشکل ہے ۔ حکومت کی سب سے بڑی فکر ان ملن بستیوں میں رہنے والوں کو بچانے کی ہونی چاہئے ۔ اس کے لئے آس پاس کے اسکولوں میں منتقل کرکے ان کی زندگی کو بچایا جا سکتا ہے ۔
برسراقتدار جماعت کورونا کی لڑائی کو مل کر لڑنے کے بجائے کبھی اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے، تو کبھی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر ان کے خلاف نفرت پھیلا کر بچنا چاہتی ہے ۔ جبکہ کورونا وائرس سے مرنے والے غیر مسلموں کے گھر والوں یا رشتہ داروں کے میت کو ہاتھ نہ لگانے کی صورت میں ان کی آخری رسومات مسلمانوں کے ذریعہ ادا کرنے کی خبریں لگاتار آ رہی ہیں ۔ حکومت کی پلازما ڈونیٹ کرنے کی درخواست پر سب سے پہلے مسلمان ہی آگے آئے ۔ اتنا ہی نہیں غریبوں کو کھانا کھلانے اور راشن فراہم کرنے میں بھی مسلمان پیش پیش ہیں ۔ مل کر کام کرنے کے بجائے برسراقتدار جماعت ان سنگین حالات میں بھی نفرت کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہی ہے ۔ جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اقتدار کے زوم سے باہر نکل کر تمام سیاسی جماعتوں کے افراد، مختلف فیلڈ کے ماہرین اور سماجی سروکار کے لئے کام کرنے والوں کو اکٹھا کرکے ایک کمیٹی تشکیل دے ۔ یہ کمیٹی کووڈ 19 کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی کے لئے منصوبہ بندی کرے ۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں، ملک کے کاروباری گھرانوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر طبقہ کی جواب دہی مقرر کی جائے ۔ مرکزی حکومت کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرائے ۔ یہ لڑائی کتنی لمبی چلے گی کوئی نہیں جانتا ۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد ملک کے حالات کیا ہوں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن اگر سب مل کر کوشش کریں گے تو ملک کو جانی و کاروباری نقصان سے بچایا جا سکتا ہے ۔ ورنہ کورونا اور بھوک سے لوگوں کو مرتا ہوا دیکھنے کے لئے ملک کو تیار رہنا چاہئے ۔
Comments are closed.