شراب کی ہلاکت خیزی اور ملک میں اس کی سرپرستی

 

مفتی شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

امام و خطیب مسجد انوار شیواجی نگر گوونڈی، ممبئی

 

روئے زمین پر بے شمار مخلوقات ہیں جو جسمانی حجم کے اعتبار سے ساخت وسائز کے اعتبار سے،طاقت وقوت کے لحاظ سے اور مضبوطی و توانائی کے حوالے سے انسانی مخلوق کے مقابلے میں کہیں فائق اور بڑھی ہوئی ہیں، باوجود اس کے یہ روشن حقیقت ہے کہ جسمانی ساخت کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کے باوصف ان تمام مخلوقات پر انسانوں کی حکمرانی آغاز آفرینش ہی سے قائم ہے، کارخانہ عالم کی تمام اشیاء ایک انسان کے آگے جھکی ہوئی ہیں ،خشکی سے لیکر تری تک، صحرا وبیابان سے لیکر وسیع وعریض دشت تک کو ن سی ایسی جگہ،کون سا ایسا مقام ہے جہاں اس نے اپنے تسخیری علم نصب نہ کئے ہوں،

 

جس طرح تمام مخلوقات پر انسانوں کی حاکمیت مسلم ہے اسی طرح اس کی فرمانروائی کا سبب بھی لوگوں کے سامنے سر بستہ راز نہیں بلکہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جس چیز نے اسے ساری چیزوں کے درمیان امتیازی شان عطا کی ہے اور جس صفت کی وجہ سے یہ دنیا کی تمام مخلوقات پر فائق ہے اور جس عنصر کے باعث کائینات میں اس کا تسخیری سفر تیز رفتاری سے ارتقائی منزلوں کی طرف گامزن ہے،وہ زندگی کی قیمتی شے،کائنات کا سب سے گراں مایہ سرمایہ،اور روئے زمین کا سب سے ان مول اثاثہ،عقل وخرد، اور شعور وبصیرت کی دولت ہے’،

 

یہی وہ سرمایہ ہے’جس کی وجہ سے انسان اس عالم رنگ وبو میں بلندیوں کی طرف کل بھی محو سفر تھا آج بھی تمام وسائل کے ساتھ رواں دواں ہے’اور یہی وہ دولت ہے’جس کے باعث وہ کائنات کی تمام اشیاء کی نہ صرف دریافت کرتا ہے بلکہ اپنے ارتقائی سفر میں ان کی نفع بخش خاصیتیوں سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے، وہ اپنے مختصر اور محدود فضا سے لیکر قبیلے ،خاندان

معاشرے اور ملکی پیمانے تک اسی روشنی کے سہارے سفر کرتا ہے اور ایک ترقی یافتہ ملک،پرامن سماج، خوشگوار معاشرہ،اور جدید وسائل و ذرائع سے آراستہ اجتماعی حیات اور اقتصادی استحکام سے لیس حکومت وسیادت کی صورت میں فتح وکامرانی کے جھنڈے گاڑتا چلا جاتاہے،

 

اس تمہید کے بعد اس بات کی وضاحت اب ناگزیر نہیں رہ جاتی ہے کہ جس عنصر عظیم اور گراں سرمایہ انسان کی تمام فتوحات اور بلندی کے سفر میں بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے اس کی حفاظت اور اس کی نگہداشت بھی اسی اعتبار سے لازمی اور ضروری ہے اور ہر وہ عمل جس سے یہ عنصر مجروح ہو،ہر وہ شے جو اس نفیس چیز میں خلل ڈالنے والی ہو اس سے محفوظ رکھنے کی فکر اور اس سے دوری وفاصلہ رکھنے کا عمل جہاں دانشمندی کا تقاضا ہے وہیں خود اپنی بقا کی ضرورت بھی ہے،

 

شراب ودیگر جدید منشیات جو اس دنیا میں بے مقصد جینے والے اور عیاشانہ مزاج رکھنے والوں کی طرف سے وجود میں آئی ہے وہ ایک زندگی کے لئے ہلاکت خیز اشیاء اور عقل وشعور پر حملے کرنے والی چیزوں میں سر فہرست ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے ،،ام الخبائث،، ساری برائیوں کا مجموعہ اسے قراد دیا ہے

جس معاشرے میں بادہ وساغر اور جام و سبو، تہذیب کا حصہ ہوں، اسے تباہ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی،

اس لیے کہ یہ بات یقینی ہے’کہ شراب نوشی کرنے والا حالت مے کشی میں اگرچہ وہ فٹ پاتھوں پر زندگی بسر کررہا ہو لیکن اس حالت میں وہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ تصور کرتا ہے’، اس کا احساس مرجاتا ہے، وہ زندگی کے مقاصد گھر کی ذمہ داریوں، ملک کے تقاضوں سے بے پروا ہوس کا غلام بن جاتا ہے،اس کی ہوس بھری نگاہوں سے نہ معاشرے کی عورتیں محفوظ رہتی ہیں اور نہ ہی اس کے گھر کی خواتین،وہ شام میں راتوں کو جاگنے والے جانوروں کی طرح آنکھیں کھولتا ہے رقص وسرود کی رنگین ومدہوش فضاؤں میں رات گذارتا ہے اور سحر کے وقت عالم مدہوشی میں کسی گھر کی دہلیز،کسی فٹ پاتھ پر بےجان لاش کی طرح سو جاتا ہے’،عقل وخرد کا سرمایہ اس کی ذات سے الگ ہوجاتا ہے’،شعور وادراک کے عناصرِ بے جان ہوجاتے ہیں، ذاتی زندگی کے لحاظ سے وہ ہر وہ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے’جو اسے انسانیت کی صف سے نکال کر حیوانیت کے زمرے میں داخل کردیتا ہے’، وہ سڑکوں پر بلا وجہ راہگیروں کو گالیاں دیتا ہے’،پریشان کرتا ہے’، گھر والوں کی زندگی اجیرن کرتا ہے’انہیں مارتا پیٹتا ہے’، گھرے کے سارے اثاثے کو میخانے کی نذر کرکے خود بھی فٹ پاتھ پر آجاتا ہے اور پورے گھر والوں کو بھی دربدر بھٹکنے پر مجبور کردیتا ھے۔

 

مے نوشی کی عادت اس قدر سنگین،اس قدر گھٹیا،اوراس قدر انسانیت سے گری ہوئی ،اور نتائج کے لحاظ سے اتنی عبرت ناک اور کربناک ہے’کہ اس کے اثرات صرف شراب نوش کی ذات تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ اس کے خاندان سے نکل کر معاشرے اور ملک پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، اس کی اقتصادی حالت کمزور ہوتی ہے’، بدامنی کا ماحول ہوتا ہے’، انتہا پسندی کی فضا قائم ہوتی ہے’، زندگی کے مقاصد گھر کی ذمہ داریوں،بال بچوں کی ذمہداریوں سے فرار کے نتیجے میں بے روزگاری عام ہوتی ہے’، پینے والوں کی جیب خالی ہوتی ہے تو وہ رہزنی کی راہ اختیار کرتا ہے،لوگوں کے مال پر نگاہ رکھتا ہے، اس کو لوٹنے کی ترکیبیں کرتا ہے غرض بدعنوانی، بدکرداری اور جرائم کا ایک سلسلہ ہے جو کہیں تھمتا نظر نہیں آتا ہے،

 

اسلام سے ہزاروں عناد کے باوجود جب ایک انصاف ور اس کی تعلیمات کا مطالعہ کرتا ہے تو اس اعتراف پر مجبور ہوتا ہے کہ ایک پر امن سماجی ڈھانچے،ایک ترقی یافتہ ملک،ایک پرسکون خاندان،ایک خوشگوار معاشرے کے لئے اسلامی قانون پر عمل کے بغیر چارہ نہیں یہ اور بات ہے کہ اس کی عصبیت اس کے اظہار سے مانع ہو، چنانچہ قران کریم میں علی الاعلان اس عمل مے نوشی کو سخت اور وسیع خسارے اور نقصان کا ذریعہ کہا گیا ہے،لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ کہ دیجئے ان دونوں چیزوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور لوگوں کے بعضے فائدے بھی ہیں اور گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں (البقرہ 219ترجمہ بیان القرآن مولانا تھانوی)

 

اس آیت میں مذکورہ چیزوں کے بارے میں سودو زیاں کا حکیمانہ اسلوب ناپسندیدگی کا محض اظہار کیا گیا ہے کہ ظاہری اعتبار سے اگرچہ میکشی سرور قلب اور تسکین جاں کا باعث ہے اور محدود وقت تک اعضاء جسمانی کو عارضی قوت وطاقت فراہم کرتی ہے تاہم اس کے دائمی اثرات کی تہ میں مفاسد اور بے شمار برائیوں کا خوفناک طوفان پوشیدہ ہے معاشرے میں پائی جانے والی اکثر وبیشتر خرابیوں اور سنگین جرائم کے دروازے یہیں سے کھلتے ہیں کہ ہوش وخرد سے بے گانگی کے بعد مے نوش کے لئے تمام گناہوں کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں (شراب ومنشیات ص28 مصنف راقم)

 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شراب بنانے والے،اس کا بزنس کرنے والے،اس کا ایکسپورٹ امپورٹ کرنے والے، اس کی سیلنگ کرنے والے، اس کا آرڈر لینے والے،اس کی کتابت کرنےوالے گاڑیوں پر اس کی لوڈنگ کرنے والے،اسے اتار کر گودام یا دکانوں میں پہنچانے والےاور کسی بھی حیثیت سے اس کاروبار کی معاونت کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے اور اس کے رسول کی بھی لعنت ہے،(ترمذی شریف عن عبداللہ بن عمر)،

 

اسلامی نظریات کے علاوہ آج بھی معاشرے میں جو مہذب زندگی اور کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں،جن کے آگے ملک وقوم کی ترقی،اپنے گھروں کی ترقی،نصب العین کا درجہ رکھتی ہے، جو وقت کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر اسے یونہی ضائع کرنا گوارہ نہیں کرتے،ان کی نگاہوں میں شراب نوشی اوراس کے کاروبار معاشرے کی پسماندگی اور ملک کی بے راہ روی کی علامت ہے’،

کہتے ہیں فطرت بھی بہت بڑا رہنما ہے’،بے شمار وہ افراد جو اسلام کے علاوہ دوسرے مذاھب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اس نظریے پر سختی سے قائم ہیں کہ جس ملک میں شراب و کباب کے دور ہر وقت شباب پر ہوں، میخانے رات بھر آباد ہوں، نشہ آور اشیاء کی نت نئی شکلیں سماج کا تہذیبی حصہ ہوں، نوجوان نسلوں کی خاصی تعداد مے نوشی کی طرف متوجہ ہو، زندگی تمام تقریبات مے نوشی کے اثرات سے ارتعاش میں ہوں،حکومت کی طرف سے اس کے کاروبار کی عام اجازت ہی نہیں بلکہ اس کی ترغیب وحوصلہ افزائی بھی ہو۔

 

اور دوسری طرف اسی ملک کی یہ تصویر بھی ہو کہ روزانہ سیکڑوں خاندان فاقوں سے راتیں گذار دیتے ہوں، تنگ دستی کی وجہ سے ایک عورت ننھے سے بچے کو بیچنے پر مجبور ہو جاتی ہو،

جہاں ہزاروں افراد سخت سردیوں میں اور بارشوں کے اذیت ناک موسم میں کھلے آسمان کے نیچے سڑک کے کنارے سیاہ راتیں آنکھوں میں کاٹ دیتے ہوں،اور حکمراں طبقے کی طرف سے کاروبار شراب ومنشیات کے لائیسنس جاری ہوتے ہوں،اس پر حوصلہ افزائی ہوتی ہو،اس کی طرف لوگوں کو متوجہ ہونے کے راستے ہموار کئے جاتے ہوں تو ایسے ملک کے حوالے سے روشن مستقبل،اقتصادیات کے استحکام،بے روزگاری کے عفریت سے نجات،غربت ومسکنت سے چھٹکارے اور ہر معاملے میں ترقی کی امیدیں کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی زمینوں میں ببول کا بیج ڈال کر آم اور سیب کے ثمرات کی آس رکھے،

 

اس حقیقت کے باوجود یہ امر واقعہ ہے’کہ بھارت کے ساتھ حاکمان وقت کا رویہ کچھ ایسا ہی ہے’جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے، کسے نہیں معلوم کہ ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان کے ذریعے زندگی کی حرکتوں کو یکلخت روک دیا گیا، ہنگام حیات سرد ہوکر رہ گیا، کیا صنعت اور کیا تجارت، کیا دواخانے اور کیا ہاسپٹل اور کیا دانشگاہیں اور کیا عبادت گاہیں سب مقفل ہوکر رہ گئیں، تین مراحل میں اضافہ کی طرف بڑھنے والے اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کتنے لوگ افلاس سے مر گئے،کتنے افراد علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سو گئے،کتنے دوسرے شہروں میں دانے دانے کو ترس گئے،اس کا تجزیہ نیشنل میڈیا کے نہ منصوبہ میں ہے’نہ اس نے آج تک اس کی ضرورت سمجھی ہے’اور نہ آئندہ اس کا امکان ہے، لیکن گھروں کے دروازوں پر،سڑک کے فٹ پاتھوں پر،اسٹیشن کے پلیٹ فارمز پر اورپیدل قافلوں کی صورت میں راستوں میں بے بسی اور بے کسی کی تصویریں اہل ملک سے پوشیدہ نہیں ہیں اور رہ بھی نہیں سکتی تھیں،

 

میڈیکل سائنس کی رو سے کرونا وائرس کو شکست دینے کے لئے سب سے زود اثر یقینا جو تدبیر ہے وہ شوشل ڈسٹینسنگ اور سماجی فاصلے ہیں۔اور دنیا نے عوام کے مضبوط انتظامات کے ساتھ اس تدبیر کو اختیار بھی کیا ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔

اسی بنیاد پر یہاں بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ لیا گیا تھا لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ 6/مئی کو جب دہلی اور کچھ ریاستوں میں پابندیوں میں ڈھیل دی گئی تو مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں نے بھی شراب کی دکانوں کے کھولنےکو ترجیح دی ان ٹھیکوں کا کھلنا تھا کہ طلبگاروں اور شرابیوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اسی ملک میں جہاں ہزاروں مزدوروں کی تعداد ایک کپ چائے کے لئے ترس اور تڑپ گئی ہے اس کے قلب میں شراب نوشی کے لئے سیکڑوں افراد کی ایسی بھیڑ کہ لاک ڈاؤن کے تمام اصول وقانون کو پس پشت ڈال دیا گیا اور یہ صورتحال حکومتوں کو اس لیے گوارا بھی ہوگئی ہے کہ اس کے ذریعے معاشی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی، یہ درست ہے کہ حکومت کے لیے رقم کی فراہمی لازم ہے لیکن اس رقم کے حصول کے لیے معاشرے کو تباہی کی طرف اور عیاشیوں کی طرف اور خود انھیں حالیہ وائیرس کی طرف لے جانا کہاں تک صحیح ہے۔

 

ملک میں مے کشوں کے ہجوم اور اس کی خاموش اجازت کے بعد یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ لاک ڈاؤن کا مقصد اگر کرونا کی مہاماری پر کنٹرول تھا تو اس ہجوم اور وہ بھی انتہائی گھناؤنے کاروبار کے لئے ڈھیل اور اجازت کس فہرست میں آتی ہے ظاہر ہے کہ جس وقت لاک ڈاؤن ہوا تھا پورے ملک میں کرونا متاثرین کی تعداد ساڑھے تین سے چار سو افراد کے درمیان تھی اور جس وقت شراب کی خرید وفروخت کے لئے لوگوں کو اجازت دی گئی اور بے شمار افراد کی بھیڑ کو برداشت کرکے تمام اصول وضوابط کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس وقت ملک میں متاثرین کی تعداد چالیس ہزار سے اوپر جاچکی ہے

اور تیرہ سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں خود شراب کے ٹھیکے کھلنے کے وقت بے محابا بھیڑ کے نتیجے میں تین ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں جو بیماری وسعت اور تیز رفتار ی میں ایک ریکارڈ ہے،

 

حکومت کے اس فیصلے کے بعد اب اس بات میں شک نہیں رہ جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن ملک میں محض ایک ظاہری تدبیر ہے’ اس سلسلے میں اگر کوششیں سنجیدہ ہوتیں تو مساجد کے مصلیوں،اسکولوں کے بچوں پر تشدد نہیں کیا جاتا

تبلیغی جماعت کو ٹارگیٹ کرکے اسے بدنام نہیں کیا جاتا، انہیں دہشت گردوں کی طرح گرفتار نہیں کیا جاتا، مسلمانوں کے ساتھ بائیکاٹ کی راہیں ہموار نہیں کی جاتیں، جامعہ ملیہ کے طلباء وطالبات کو آریسٹ کرکے پس دیوار زنداں نہیں کیا جاتا،اور ملک کی ایک نمائندہ اور علمی وتحقیقی حوالے سے عالمی شخصیت پر اظہار حق کی پاداش میں ان کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے مقدمہ قائم نہیں ہوتا۔۔۔

Comments are closed.