مہاجرمزدوروں کے مسائل اورلیڈران کی خاموشی؛کہیں سیاست کے نئے دور کا آغاز تو نہیں؟

عاقل حسین،مدھوبنی(بہار)
موبائل۔9709180100
چل چلاچل، ہمت نہ ہار! جی ہاں اسی ارادہ کے ساتھ لاک ڈائون کے بیچ ملک کی مختلف ریاستوں میں روزی روٹی کی تلاش میں گئے مزدور اب اپنی اپنی ریاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ اور رات کے اندھیرے میں مزدور اپنی ریاستوں کی جانب پیدل ہی چل پڑے۔ ان مزدوروں کو تھکان ضرور ہورہی ہے مگر ارادے اور حوصلے انہیں اپنی ریاست کی طرف آنے سے روک نہیں پارہی ہے۔ پیدل اور ٹرکوں میں بھر بھر کر آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ کورونا کیاچیز ہے اور سوشل ڈسٹنس سے کیا فائدہ ہوگا۔ انہیں تو خوف بس اتنا ہے کہ کورونا سے وہ لوگ نہیں مریںگے مگر بھوک سے ضرور مرجائیںگے۔ بھوک نے اس قدر خوفزدہ کردیا کہ وہ مزدور اپنے گھر جانے میں ہی اپنی بھلائی سمجھ رہے ہیں۔ ’نمک روٹی ہی کھائیںگے مگر اپنوں کے درمیان رہیںگے‘۔ انتخاب کے وقت بڑے بڑے وعدے کرنے والی حکومت بھی ان مزدوروں کی مجبوریاں سمجھ نہیں پارہی ہیں۔ وہ بڑے بڑے لیڈر کہاں سوگئے جو ہمیشہ ہندو مسلمان کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ ویسے لیڈران کو سڑکوں پر پیدل چل رہے بے بس مزدوروں سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آج سڑکوں پر پیدل نکلے ہندو مسلمان نہیں بلکہ سبھی مزدور ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ ہندو مسلمان کیا ہوتا ہے؟ وہ صرف سمجھ رہے ہیں کہ وہ انسان ہیں اور سبھی کا ایک ہی اردہ اور ایک ہی منزل ہے۔ ہر حال میں اپنی ریاست اور اپنے گائوں پہنچنا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے دوسری ریاست میں پھنسے لوگوں کو گھر واپس لانے کے لئے اسپیشل ٹرین چلائی جارہی ہے جس پر بے بس مزدوروں کے تئیں خوب سیاست بھی ہورہی ہے۔ کانگریس اور این ڈی اے حکومت آمنے سامنے ہے۔ مرکز کہہ رہی ہے کہ ریلوے نے تو کرایہ میں 85؍ فیصد چھوٹ دی تھی بقیہ کرایہ ریاستی حکومت کو دینا ہے۔ مزدوروں سے کرایہ لینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا مگر کانگریس کہہ رہی ہے کہ حکومت کرایہ لے رہی ہے۔ کچھ ایسی ہی باتیں واپس لوٹنے والے مزدور بھی کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے رقم مانگ کر کرایہ ادا کیا ہے تب اپنی ریاست میں واپس لوٹے ہیں۔ کانگریس نے اسی دوران مزدوروں کو کرایہ دینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ ریاستوں میں کانگریس کمیٹیوں کو ہدایات بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔ مرکزی حکومت اور کانگریس کی سیاست کے بیچ کیا مزدوروں کو ریلوے کرایہ کا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اگر ریلوے کرایہ کا فائدہ مزدوروں کو پہنچتا تو وہ پیدل سینکڑوں کیلومیٹر کی مسافت طے کرنے کو مجبور کیوں ہوتے؟ سفری سہولیات نہیں رہنے کے سبب درجنوں مزدوروں کا ایک قافلہ پیدل ہی مہاراشٹر سے نکل پڑا اور جمعہ کو ان میں سے 16؍ مزدور وںکو اپنی جان گنوانی پڑگئی۔ سفر کی سہولیات نہیں رہنے کے سبب مہاراشٹر سے مدھیہ پردیش کے لئے درجنوں مزدور پیدل ہی نکل پڑے۔ تھکان ہونے پر مزدوروںکو مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں ریلوے ٹریک پر ہی نیند آگئی۔ اس پٹری سے گزر رہی مال گاڑی نے مزدوروں کو کچل دیا جس میں 16؍ مزدور ہلاک ہوگئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مہاجر مزدور اپنی ریاست واپس لوٹ رہے ہیں مگر دوسری ریاست سے آنے والے ان لوگوں کو حکومت کہاں رکھے گی اور انہیں گھر بھیجنے کا عمل کیا ہوگا؟ جس تعداد میں مزدور اپنی ریاست میں لوٹے ہیں کیا ان کے کورنٹین، کھانے پینے کی سہولیات ہے؟ فی الحال کس ریاست کے کتنے لوگ دوسری ریاست میں پھنسے ہیں؟ بہار میں تو کورنٹین مراکز کے انتظامات پر صحافیوں نے سوالات اٹھائے تو گڈگورننس کی حکومت نے صحافیوں کے کورنٹین مراکز پر جانے پر ہی پابندی عائد کردی۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورنٹین مراکز کے انتظامات کیا ہوںگے؟ مگر ہندو مسلمان کی سیاست کرنے والے لیڈران مزدوروں کی بے بسی اور مجبوری پر خاموش کیوں ہیں؟ ایسے لیڈران کی خاموشی سے کہیں ایک نئی سیاست کا آغاز تو نہیں ہونے جارہا ہے؟
Comments are closed.