اپنے ہی ملک میں غریب الوطن مہاجر مزدور

 

ڈاکٹر سلیم خان

جمہوری نظام میں  خودمختاری کے  تمام تر دعووں کے باوجود  یہ ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کا تقرر اور ترقی مقننہ پر منحصر  ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس  سرکار کا اقتدار  عوام کی حمایت    پرانحصارکرتا ہے اس لیے کم ازکم سیاستدانوں کو تو عوام کی مشکلات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ایسے میں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کیوں کوتاہی کرتے ہیں ؟ حکومت کرناٹک کے ایک ناعاقبت اندیش فیصلے میں اس سوال کا جواب چھپا ہے۔  مرکزی حکومت نےجب ٹرین کے ذریعہ مزدوروں کو ان کے وطن واپس بھیجنے  کا فیصلہ کیا تو اس کے  بعد کرناٹک حکومت نے  بھی انہیں  گھر پہنچانے کے لیے ہر روزدو ریل گاڑیاں  چلانے کا مطالبہ کردیا لیکن  اس سے پہلے کہ عمل در آمد ہوتا ایک تغلقی فرمان کے ذریعہ وزیر اعلیٰ یدورپاّ نے  ان  اسپیشل ٹرینوں کو  رد کروا دیا ۔  

محمد تغلق نے اپنا  دارالخلافہ  دہلی سے منتقل کرنے کا  فیصلہ کیا تو وہ  ضرب المثل بن گیا اور  سیکڑوں سال بعد بھی اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔  اس فیصلے سرکار دربار کو تو پریشانی  ہوئی لیکن  عوام کو کوئی زحمت نہیں ہوئی تھی ۔ عصرِ حاضر میں   جمہوی حکومت  یکے بعد دیگرے ایسی حماقتیں  کرتی رہتی ہے کہ جس کا نزلہ  عوام پر  اترتا ہے ۔ پہلے نوٹ بندی اور اب دیش بندی اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔ درمیان میں جی ایس ٹی جیسے کارناموں سے  نہ جانے کتنی  بار  اسے دوہرایا جاتا  ہے۔ وزیر اعلیٰ   بی ایس یدورپاّ نے اپنا حماقت خیز فیصلہ سرکردہ بلڈروں اور ٹھیکیداروں کے ساتھ  ایک میٹنگ   کے بعد کیا ۔  ان سرمایہ داروں  نے وزیر موصوف کو سمجھایا  کہ  مہاجر مزدوروں کو واپس بھیجنا مناسب  نہیں ہےکیونکہ   اگر وہ  گھر واپس چلےگئے  تو انہیں   کاروباری سرگرمیاں شروع کرتے وقت  مزدوروں کی کمی کا سامنا  کرنا پڑے گا ۔ بلڈروں نے  وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو  مزدوروں کے چلے جانے سے ہونے والے معاشی  نقصانات  سے آگاہ  کرکے  ٹرینوں کو مسترد کرنے پر راضی کرلیا ۔

 اس میٹنگ کے بعد وزیر اعلیٰ نے  اپنے دماغ کا استعمال کرکے مزدوروں کے مسائل  غور کرنے مطلق ضرورت محسوس نہیں کی ۔ انہوں نے آو دیکھا نہ تاو دیگر ریاستوں   میں مزدوروں کو لے کر جانے والی سبھی ٹرینوں کو  منسوخ کرنے کا حکم دے دیا  ۔ کرناٹک کے  نوڈل افسر این منجوناتھ پرساد نے ریاستی حکومت کی طرف سے ساؤتھ ویسٹرن ریلوے (ایس ڈبلیو آر) کو روانہ کردہ خط میں لکھا   کہ  پانچ دنوں تک روزانہ دو ٹرینوں کا انتظام کرنے کی جو درخواست کی گئی تھی اس اب  کی ضرورت نہیں ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں اس  عجیب و غریب فرمان  کو سیاہ الفاظ میں لکھا جائے گا ۔ اس کے تحت مزدوروں کو ان کی مرضی کے خلاف  ببانگ ِ دہل روکا گیا۔  اس غلامی کو تھوپنے کا باقائدہ جواز پیش کیا گیا ۔

کرناٹک کے ایک   سینئر افسر نے ذرائع ابلاغ میں بڑی بے حیائی کے ساتھ  اعلان کیا   کہ ریاست کی معیشت کو درست کرنے کے لیے مہاجر مزدوروں کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کے بغیر  معیشت کی بحالی  ممکن نہیں ہے اس لیے وہ واپس نہیں جاسکتے ۔ اس دلیل کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا  یہ گوشت پوست کے انسانوں کی نہیں بلکہ مویشیوں یا مشینوں کی بات ہورہی ہے کہ جن کو ان کی مرضی کے خلاف جہاں چاہا بھیج دیا اور جب چاہا روک لیا ۔   یہ اگر غنڈہ راج نہیں ہے  تو اور کیا ہے؟ کیا یہ مزدور سرکار کے زرخرید غلام ہیں جو ان سے نقل و حرکت کا حق چھین لیا گیا  ہو۔ شہروں میں  کورونا کا مرض پھیل رہا ہے ۔ وہ اپنی جان بچا کر اپنے محفوظ  گھروں کو  جانا چاہتے  ہیں لیکن انہیں اس کی  آزادی نہیں ہے؟

ایک وبائی   صورتحال میں  بلڈرس کے اشارے پر ناچنے والے   وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو یہ  حق کس نے دیا  کہ وہ   مہاجر مزدوروں سے  اپنے گھر نہ جا نے کی اپیل کریں ؟ ان کے اس وعدے پر کون اعتبار کرے گا کہ  کرناٹک میں   مزدوروں کے لیے سب انتظام کیا جائے گا؟  پچھلے ڈیڑھ ماہ میں اگر ان کا خیال رکھا جاتا تو یہ نوبت ہی کیوں آتی؟ وہ کیوں جوق درجوق اسٹیشن کی باہر جمع ہوجاتے اور انہیں لاٹھی چارج کرکے منتشر کرنا پڑتا؟  وزیراعلیٰ کس منہ سے کہتے ہیں کہ جو  مزدور جہاں ہیں وہیں رہیں انھیں کام ضرور ملے گا؟  پہلی بات تو انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ  کام  کب ملے گا؟ اس کے بعد  یہ  بھی واضح نہیں کیا کہ  اس وقت تک وہ کیسے گزارہ کریں گے ؟  ان ساری یقین دہانیوں اور بہترین انتظامات  کے باوجود بھی  اگر کوئی جانا چاہتا ہو تو اسے اس کی  آزادی  ہے ۔ کوئی  دوسرا شخص یا حکومت کسی  کو زبردستی اپنے یا قومی مفاد کا بہانہ بناکر  روک نہیں سکتی ۔

یدورپاّ کے بہ  آسانی  اس جابرانہ فیصلہ سنانے  کی وجہ یہ ہے وہ مزدور ان کو ووٹ نہیں دیتے  کیونکہ  ان کا  ووٹر کارڈ  گاوں میں ہوتا  ہے ۔ شہر میں تو وہ بیچارے پیٹ پالنے کے لیے آتے ہیں  اس لیے وزیراعلیٰ کے نزدیک ان کی کوئی  قدرو قیمت نہیں ہے  ۔ اس کے برعکس بلڈرس کی لابی اگر ووٹ نہ بھی دے تب بھی نوٹ تو  دیتی ہی  ہے۔ موجودہ سیاسی نظام میں ووٹ سے زیادہ  نوٹ کی  اہمیت ہے کیونکہ  انتخابی مہم اسی کے بل بوتے پر  چلائی جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کو دھن دولت کی مدد سے خرید کر اپنے حق میں رائے عامہ    کو ہموار کیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر الیکشن میں واضح اکثریت حاصل نہ ہوسکے  تو روپیہ کی مدد سے مخالف فریق کے ارکان اسمبلی کو خریدکر حکومت سازی کی  جاتی  ہے۔

۷۷ سالہ یدورپاّ اپنی سیاسی زندگی میں دوبار یہ کھیل کھیل چکے ہیں ۔  اس طریقہ کار کو استعمال کرکے ہی انہوں نے   کانگریس اور جنتا دل (سیکولر ) کی حکومت گرا دی   اورپھر سے  وزیر اعلیٰ بن گئے  ۔  ان کی یہ سرکار ووٹ کے نہیں بلکہ نوٹ کے بدولت قائم ہوئی ہے۔ ابھی حال میں مدھیہ پریش کی سرکار کو گرانے کے لیے کانگریس کے   زر خرید ارکان اسمبلی کو بنگلورو میں رکوایا گیا تھا ۔ اس لیے وہ نوٹ کی اہمیت سے خوب  واقف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بلا تردد مزدوروں کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ تو خیر سے ذرائع ابلاغ میں معاملہ اچھل گیا اورچہار جانب  سرکار کی   تھو تھو ہونے لگی۔ اس    کے بعد کرناٹک سرکار کو  مجبوراً اپناتھوک  چاٹنا پڑا اور مہاجر مزدوروں کو واپس بھیجنے کے  فیصلے کو دوسری بار بدلنے پر مجبور ہونا پڑا ۔  

اس دوران   بی جے پی کا عوام  دشمن  چہرہ کھل کردنیا کے سامنے آگیا ۔ اس ظالمانہ  فیصلے نے فسطائی  ذہنیت واضح کردیا ۔ اب وہ ہندو راشٹر کا نعرہ تو لگا سکتے ہیں مگر عوام کی فلاح و بہبود کا دعویٰ نہیں کرسکتے ۔ عوام نے ان کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے ۔ اب آئندہ انتخاب تک وہ اسے یاد رکھتے ہیں یا بھول جاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اصل مسئلہ ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ  متوسط اور امیر کبیر طبقہ ہے۔ ان طبقات میں  اپنے ساتھ رہنے بسنے  والے   غریبوں  اور مظلوموں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ  اپنے مفادات کی خاطر ان سارے  واقعات کو فراموش کرکے پھر سے فرقہ پرستی کے جھانسے میں آجائے گا  یا مستقبل میں عقل کے ناخون لے گا؟ ویسے اگر حکومت ملک کی معاشی حالت کو سنبھالنے میں  یہ حکومت ناکام ہوجاتی ہے جس کا قوی امکان ہے تو بعید نہیں کہ متوسط طبقات   اپنے مفاد کی خاطر  بی جے پی سے منہ موڑ لیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے  کہ موجودہ مادہ پرست ملحدانہ  نظام کے زیر اثر زندگی گزارنے  والے لوگوں کی کثیر آبادی   خود غرضی   اور موقع پرستی  کا شکار ہوچکی  ہے  ۔  ایسا معاشرہ زیادہ دن باقی نہیں رکھا جاتا ۔ تارخ شاہد ہے کہ ایسی تہذیبوں  کو مکافاتِ عمل  صفحۂ ہستی سے مٹا  دیتی ہے  ۔ یہ صورتحال ایک  تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے کیونکہ بقول اقبال؎

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے                             قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے                         کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف

Comments are closed.