16مزدور وں کا حادثہ یا قتل؟ جب انسانوں کو روٹی نگل گئی۔۔۔۔

عبدالوہاب حبیب
کورونا کی عالمی دہشت کے سبب بھارت تقریباً دو ماہ سے لاک ڈائو نکی مار جھیل رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سابقہ اعلانات کی طرح اس بار بھی ملک میں اچانک لاک ڈائون کا اعلان کیا تھا جس سے 1.3ارب آبادی والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا آبادی والا یہ ملک منجمد ہو گیا۔بعد ازیں ملک کے معاشی حالات،جی ڈی پی کی تنزلی اور کورونا وبائی مرض نے ملک کے حالات ابتر کر دیے۔ملک جو کہ معاشی پستی کا شکار ہے جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے بھی تگ و دو کرتے ہیں ،بھوک پیاس سے نڈھال ،لاک ڈائون کی مخالفت میں جوق در جوق شہروں سے نکل کر اپنے گائوں دیہات کی طرف چل پڑے۔ بے سر و سامان مزدوروں کے یہ قافلے اپنے مجبوری کی داستان بتاتے بتاتے منزل کی طرف گامزن ہونے لگے لیکن ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں کہ اپنے گھر اپنے اہل خانہ کے پاس صحیح سلامت پہنچ سکے۔کئی افراد راستے کی صعوبتو ںسے بیمار گھر سے قریب پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ بیٹھے ۔ہر روز سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے تصاویر و ویڈیوز نے انسانیت کو دہلا دیا۔ان سب واقعات میں جو سب بڑا واقعہ اندوہناک پیش آیا وہ اورنگ آبا د میں یک لخت 16مریضوں کی موت ہے ۔ٹرین سے کچلے جانے والے مزدوروں کی موت۔۔۔8مئی کو 21افراد پر مشتمل مزدوروں کا قافلہ اورنگ آباد سے 65کلو میٹر دور جالنہ سے بھساول کیلئے پیدل نیم شب نکلا۔لاک ڈائون کے سبب راستوں پر پولس پہرے سے بچنے کیلئے اندھیری رات اور ریلوے راستہ اختیار کیا گیا تاکہ راستے میں پولس پکڑ کر واپس نہ کردے۔یہ مزدور جالنہ کی ایک نجی اسٹیل فیکٹری میں ملازمت کرنے مدھیہ پردیس سے آئے تھے لیکن لاک ڈائون نے زندگی اجیرن کر دی تھی نہ رہنے کو سایہ تھا نہ کھانے کو روٹی،،مجبوراً فیصلہ ہوا کہ گھر واپس لوٹ جائینگے لیکن جب کھانے کو ہی پیسہ نہیں تو کرایہ کیسے ادا کریں گے؟جالنہ سے 35کلومیٹر دور پیدل چل کر جب یہ افراد چکل تھانہ ریلوے اسٹیشن سے قریب پہنچے تو انہوں نے وہیں کچھ دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ آگے اورنگ آباد کی سرحد پر انہیں مزید کم از کم 20کلومیٹر پیدل چلنے کی سکت و قو ت حاصل کرنی تھی۔رکتے ہی چند ہی منٹوں سارے مزدور پٹری پر یہ سوچ کر سو گئے کہ لاک ڈائون کے سبب ساری ٹرینیں بند ہے ا ب کو ئی ٹرین نہیں آنے والی۔تین افراد پٹری سے قریب پتھروں پر سو گئے۔مسافر بردار ٹرین تو بند تھی لیکن مال بردار ٹرین چل رہی ہے اس کا علم انہیں نہیں تھا۔ابھی نیند آنکھ لگیہی تھی کہ موت نے انہیں آ دبوچا،لمحوں میں 16افراد ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے اور پٹری خون اور انسانی اعضا ء سے آلودہ ہو گئی۔جو زندہ تھے و ہ بد حواس ہو گئے۔ٹرین کی پٹری سے قریب رہائش پزیر لوگ ٹرین کی ہارن کی آواز اور اچانک بریک سے جمع ہوئے تو پٹری پر بکھری لاش دیکھ کر ہوش اڑ گئے ۔۔۔خبر عام ہوئی، پوسٹ مارٹم ہوا اور دیر رات اسپیشل ٹرین کے ذریعہ نعشوں کو گٹھری میں باندھ کر زندہ مزدوروں کے ساتھ روانہ کر دیا گیا۔۔۔بظاہر معاملہ ختم ہوا لیکن 16جانیں جو ضائع ہوئیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وزیر اعظم کے غم بھرے ٹویٹ، ریلوے کی تحقیقات اور ریاستی سرکار کے 5لاکھ روپئے معاوضہ سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟حادثہ کی رپورٹنگ کے وقت ٹرین پر موجود چند سوکھی روٹیاں تھیں اور چند پھٹے پرانے نوٹوں کے ٹکڑے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ اچانک لاک ڈائون کرنے والی حکومت؟فیکٹری کا کروڑ پتی مالک جو چند دن بھی اپنے مزدوروں کی کفالت نہ کر سکا؟َضلع انتظامیہ؟ یا ڈسٹرکٹ ایمرجنسی مینجمنٹ کمیٹی؟ یا ہماراسماج ؟۔۔۔چند سوکھی روٹی کیلئے یہ مزدور اپنا گھر بار ،اپنے بچے،اہل خانہ کو چھوڑ سینکڑوں کلو میٹر دور آگئے یہ سوچ کر کہ کچھ پیسہ کما کر عزت کی زندگی بسر کریں گے۔لوہے کو پگھلا تے ہوئے ان کے عزائم بھی اتنے مضبوط ہو گئے تھے کہ گھر کی جانب سینکڑوں کلو میٹر پیدل ہی نکل پڑے۔لیکن ہمارے وزیر اعظم جنہوں نے کبھی اپنے ہاتھوں سے مزدوروں کے پیر دھو ئے،ہمارا وہ سماج جس نے چند دن پہلے ہی یوم مزدور کے موقع پر کروڑوں ٹویٹ اور پوسٹ کرتے ہوئے مبارکباد دی تھی اب مزدوروں سے منہ موڑ چکا ہے ان کی جان کی حیثیت کاغذ سے بنے چند نوٹوں کے ٹکڑے رہ گئے ہیں۔لاک ڈائون میں وہیں جالنہ میں رک جاتے تو بھوک سے 1-2مزدور مر جاتے ،کونسی قیامت آجاتی؟سرکار کو فون کرتے،24گھنٹے فون لائن کھلی ہے،کمیٹی ہے اعلیٰ افسران ہیں ایمرجنسی سے نمٹنے،ابھی حال ہی میں ریاستی وزیر نے سبھی کلکٹر کے نمبرس عام کیے تھے مسائل سے نمٹنے۔۔۔لیبر کارڈ پر لاکھوں مزدوروں کو راحت پہنچانے کا دعویٰ ہوا لیکن مزدور ہے کہ مان ہی نہیں رہے۔فون کرتے، پتہ نہیں حادثہ کے مقام پر کہاں کہاں سے ریلوے افسران آئے ؟ وہ کر دیتے انتظام ریل کا ۔آئی پی ایس پہنچیں،رکن پارلمان پہنچے، پولس پہنچی۔نعشوں کو بھجوانے کا جیسا فوری نظم ہوا ویسے ہی انتظام ہو جاتا ۔غلطی ان آئی اے ایس ،آئی پی ایس افسران کی ہے یا نیتائوں کی جو ہیلی کاپٹر سے بھاشن دینے جاتے ہیں ،پھول برساتے ہیں لیکن راشن نہیں پہنچا سکتے۔گھر جا کر آرام کرنے کا سوچنے والے مزدور منزل سے قبل ہی اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے۔۔اب وعدہ ہوا کہ 5-5لاکھ ملیں گے۔ ایک عالیشان پروگرام ہوگا ۔۔تالیاں بجیں گی لیکن وہ مزدوروںکیلئے نہیں ہوں گی وہ تالیاں ہو ں گی نیتائوں کیلئے جورحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ کو چیک فراہم کریں گے۔صحافی برادران بھی پہنچے تھے جائے حادثہ پر ٹرین کی پٹری سے رپورٹنگ کر رہے تھے، ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ذمہ دار ٹہرار ہے تھے لیکن حادثہ کااصل ملزم جو تھا وہیں ان کے چند قدموں سے دور ٹرین پٹری پر ہی خون میں آلودہ تھا ۔۔۔وہی چند سوکھی روٹیاں اور پھٹے پرانے کاغذ کے ٹکڑے۔۔۔جنہوں نے آج پھر 16مزدوروں کو ایک لمحہ میں نگل لیا تھا۔

Comments are closed.