مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ
ہمارا ملک یعنی ہندوستان سپرپاور کی صف میں کھڑا ہے جیسا کہ گودی میڈیا سے ہمیں پتہ چلا ہے ۔گودی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ جب سے نریندر مودی نے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی ہے تب سے ملک کی ترقی ہوتی چلی جا رہی ہے اور ان چھ سالوں کے دوران یہ ملک سپر پاور کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے جوکہ 70سالوں کے بعد بھی اسے یہ اعزاز حاصل نہیں ہواتھا اگر یہ جملے کسی نے انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرکے غلطی سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پاس بھیج دیا تو یقیناً وہ بھی حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ جس سپر پاور ملک کا مزدور نمک چاول کھا کر اپنی پیٹ کی آگ بجھائے وہ بھلا کس طرح کا سپر پاور ملک ہو سکتا ہے۔مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ جب سے نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں تب سے ملک کا زوال ہوتا چلاجا رہا ہے چاہے وہ سیاسی ہو ، سماجی ہو اقتصادی ہو تعلیمی ہو یا پھرزراعتی ہو سبھی معاملے میں مودی حکومت پھسڈی نظر آ رہی ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو سپر پاور کہلانے والا یہ ملک غریبوں اور مزدوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے اسے اس بات کا بھی احساس نہیں کہ وہ سپر پاور ملک کے صف میں کھڑا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا جیسے آفات نے ملک کے سپر پاور ہونے کے دعوے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہے پی ایم مودی کے منصوبے اور گودی میڈیا کے دعوے کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ پی ایم مودی کے منصوبے اور دعوے کا انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کا غریب، لاچار ، بے بس مزدوروں کی پیٹ کی آگ اور انکی فاقہ کشی اور مجبوری نے کر دٰیا ہے۔پی ایم مودی کے ذریعہ جلد بازی میں لگائے گئے ملک میں لاک ڈائون نے غریب مزدوروں کی حالت کو بدسے بدتر بنا دیا ہے انہیں اپنی روزی روٹی سے ہاتھ تو دھونا پڑا ہی ہے انہیں اپنی جان بھی گنوانی پڑ رہی ہے ۔ اسکی تازہ مثال مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں ریل کی پٹریوں پر تھک ہار کر سو رہے غریب مزدوروں کی جہاں ایک مال گاڑی نے انہیں کچل ڈالا جس سے16 مائیگریٹ مزدوروں کی موت موقع پر ہی ہو گئی۔ اس حادثے میں چار مزدور شدید طور سے زخمی ہوگئے۔ وہ سبھی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ اور MIDC اورنگ آباد جارہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک ہار کر وہ رات میں آرام کرنے کیلئے ٹریک پر سوگئے۔ افسران کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ایک مال گاڑی کے گزرنے کے سبب ہوا ہے۔ اس سے پہلے مدھیہ پردیش کے اجین ضلع میں میں انہیل موہن پورہ راستے پر بدھ کی علی الصبح ایک تیز رفتار ٹرک نے سڑک کنارے سو رہی خاتون کو کچل دیا تھا۔ایسے کئی درد ناک حادثے مائیگریٹ مزدوروں کے ساتھ ہو رہے ہیں راستے اور چوراہوں پر مزدوروں کی موت سڑک حادثے میں ہو رہی ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان حادثوں کا ایک رٹا رٹایا بیان جاری کر کے اپنا حق ادا کر دیا جا تاہے لیکن افسوس کہ مزدوروں کے لانے لے جانے کا کوئی ٹھوس قدم اب تک نہیں اٹھایا جا رہا ہے جس سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔وہیں اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مائیگریٹ مزدوروں کے لئے نہ تو حکومت نے بروقت گھر جانے کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا کوئی نظم کیا جس کے وجہ کر سیکڑوں مزدور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر 700اور1200میل دوری طے کرنے کے لئے پیدل سڑکوں پرنکل پڑے انکے ساتھ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی اپنے والدین کی کبھی گود میں توکبھی کاندھے پر بیٹھ کر جاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آئے ایک دن دو دن بھوکے پیاسے چلتے رہے کسی کو اگر راستے میں انکی لاچاری اور مجبوری پر رحم آگیا تو انہیں بسکٹ تھما دئے گئے بچارے مزدور بسکٹ کھا کر اور پانی پی کر سوگئے کسی کسی کو تو اس چلچلاتی دھوپ میںپانی بھی نصیب نہیں ہو رہا ہے۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب اس سپر پاور انڈیا میں غریب مزدوروں کو صرف اور صرف نمک چاول ملتا ہے۔ مزدوروں سے بات کرنے پر آنکھیں نم ہو جاتی ہے کہ اس عظیم ملک میں نمک اور چاول کھا کر آدھا پیٹ وہ ہزاروں میل کی دوری طے کر رہے ہیں اور حکومت کو اسکا ذرا بھی احساس نہیں ہو رہا ہے مجھے کہہ لینے دیجئے کہ حکومت کی بے حسی اوربے رحمی کا عالم تو یہ ہے کہ ان غریب اور بے بس مزدوروں سے گھر پہنچانے کے نام پرپیسہ لے رہی ہے انہیں انکے گھر تک پہنچانے کے عوض میں انکے جیب سے پیٹ کی آگ بجھانے کے پیسے بھی نکال لے رہی ہے جو کافی افسوس اور شرم کی بات ہے۔ اس پر کافی سیاست بھی ہو رہی ہے کہ ریل گاڑیوں سے انہیں گھر پہنچانے کے لئے مزدوروں سے مرکزی حکومت پیسے لے رہی ہے اس معاملے میں مرکزی حکومت اپوزیشن پارٹیوں کو صفائی دیتی ہوئے نظر آ رہی ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن مزدوروں کے پاس ریل اور بس کے کرائے دینے کے پیسے نہیں تھے انہیں بھگا دیا گیا مجبوراً انہیں اپنے خاندان کے ساتھ پیدل ہی بھوکے پیاسے اپنی منزل کی جانب چلنے پڑے۔خواہ مودی حکومت کتنے ہی دعوے کر لے کہ وہ غریبوں اور مزدوروں کے ساتھ ہے یہ بات بالکل ہضم نہیں ہوتی ہے ،چونکہ جو کچھ غریب مزدوروں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے حالانکہ مزدوروں کے حالاتِ زار گودی میڈیا پوری طرح چھیپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کچھ ایماندار نیوز چینل اور سوشل میڈیا ہیںجو حکومت کی ناکامی کو اجاگر کر رہے ہیں۔ ویسے مزدوروں کے ناگفتہ حالات کو لے کر سیاست تیز ہوگئی ہے اپوزیشن پارٹیاں بھی مودی حکومت کی ناکامی پر برہم دکھائی دے رہی ہیں لیکن مزدوروں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اس ظلم کو ختم کرنے کے سلسلے میں اپوزیشن پارٹیاں بھی بیک فٹ پر ہے وہ صرف حکومت کی ہائے توبہ کرنے میں لگی ہے اور چند اعلانات مزدوروں کے حق میں کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے مزدوروں کو اب حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے اعلانات دھوکے کے سوا کچھ نہیں لگ رہے ہیں انہیں ذرا بھی انکی بات پر یقین نہیں ہو رہا ہے انکا یہ ماننا ہے کہ مرکزی حکومت نے ہم پرکوئی رحم نہیں کی ہمیں گھر تک پہنچانے کے نام پر ہمارے جیب سے کھانے کے پیسے تک نکال لئے تو اس سے بڑا ملک کا المیہ کیا ہو سکتاہے اپوزیشن پارٹیاں اپنا حق ادا کتنا کریں گے یہ کہنا مشکل ہے۔
بہر حال!پی ایم مودی اور گودی میڈیا بھلے ہی سپر پاور ملک کی صف میں کھڑے ہونے کی بات چیخ چیخ کر یں اور اپنی پیٹھ خود تھپ تھپائیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک اب تک غریبوں کے پیٹ بھرنے میں اپناپاور دیکھانے سے قاصر ہے تو سپر پاور بننے کی بات ہی چھوڑ دیجئے۔ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کے ذریعہ قبل از وقت ٹھوس قدم اٹھائے جاتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ پہلے ہی بیرون ملک سے آنے والے لوگوں پر شکنجہ کسا جاتا تو ملک کا لاکھوں غریب طبقہ ان کی سزا نہ جھیلتا۔اس سے انکار نہیں کہ پی ایم مودی نے لاک ڈائون کرنے کا فیصلہ نہیںلیالیکن افسوس کہ تاخیر سے فیصلہ لیا گیا۔ لاک ڈائون کرنے کا اسوقت فیصلہ لیا گیا جب ہندوستان کے کونے کونے میں کورونا جیسے خطرناک وباء پھیل چکا تھا۔اب جبکہ اس پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن لوگوں میں کورونا پوزیٹو میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے حتہٰ کہ شرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اب17مئی تک تیسرے مرحلے کے لاک ڈائون میں توسیع کی گئی ہے لیکن 17مئی کے بعد کیا ہوگا اسکا روڈ میپ شاید حکومت نے ابھی تک تیار نہیں کی ہے اگر ایسا ہے تو کورونا کے مریضوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اموات کے بھی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے اسے لے کر عام لوگوں میں کافی بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اس سلسلے میںٹھوس اور مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک آبادی سے خالی نہ ہو جائے۔

Comments are closed.