رمضان اور زکوٰۃ کی ادائیگی

نثار احمد حصیر القاسمی
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ، حیدرآباد ۔
زکوٰۃ ربانی فریضہ ہے جس کے اندر انسانیت نوازی کی روح پنہا ہے ، زکوٰۃ سماجی تعاون، کمزوروں کی دستگیری ، آپسی رحم دلی اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کی علامت ہے جس کے ذریعہ سماج کے کمزور ونادار طبقہ کے کاندھے سے فقر وافلاس اور ناداری وبے سروسامانی کے بوجھ کو ہلکا کیا جاتا ہے اور ان میںجینے کی سکت پیدا کی جاتی ہے، زکوٰۃ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مال کا وہ حصہ ہے جو مالداروں کے مال میں غریبوں ومحتاجوں کے لئے مختص کردیا گیاہے‘ زکوٰۃ سال بھر کی جمع پونجی میں سے جبکہ اس کی قیمت نصاب سے تجاوز کرجائے ، ڈھائی فیصد 2.5٪فرض ہے۔
زکاۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جو ہر ایسے مسلمان پر فرض ہے جس میں اس کی شرطیں پائی جائیں، زکوٰۃ کا لفظ قرآن مجید میں 32 مرتبہ آیا ہے، اور اتنی ہی بار برکتوں ( اور اس کے ہم معنی لفظ) کا ذکر ہوا ہے، اسی طرح قرآن کریم کی 26آیتوں میںنماز کو زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿البقرہ: ٢٧٧﴾
بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ سنت کے مطابق نیک کام کرتے ہیں، نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے، ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم۔
پکا سچا مالدار مسلمان اپنے مال اور اپنی دولت کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ یہ اس کے پاس اللہ کی امانت ہے، اور اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ مال والے یعنی اللہ کی مرضی کے مطابق اسے خرچ کرے، اس کا پورا پورا حق ادا کرےاور اسے صرف اور صرف اسی راہ میں استعمال کرے جس میں اللہ کی مرضی وخوشنودی ہو ‘ اور اس سے اللہ خوش ہوتا ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بار بار مسلمانوں کو مال خرچ کرنے اور غریبوں میں اسے تقسیم کرنے پر ابھارا ہے، تاکہ اللہ کے اس مال کے ذریعہ غریبوں ،مسکینوں ، فقیروں اور محتاجوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿البقرہ: ٢٤٥﴾
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
اسلام میں زکوٰۃ کا نظام انسانی تاریخ کا پہلا ومنفرد نظام ہے جس کے ذریعہ غریبوں وناداروں کی رعایت وسرپرستی اور سماج کے افراد کے درمیان سماجی انصاف کو یقینی بنایا گیا ہے ، کیونکہ اسلام نے اس نظام کے تحت مالداروں وصاحب ثروت پر فرض کردیا ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ غریب طبقہ اور محتاجوں ومسکینوں پر خرچ کرے۔
زکوٰۃ نہ صرف صاحب ثروت کےمال کو پاک کرتا ہے، بلکہ نفس انسانی کو بھی انانیت‘ حرص وطمع اور لالچ وبخل سے پاک کردیتا ہے، یہ فقیر ونادار اور محتاجوں کے دلوں کو بھی صاحب ثروت اور مالداروں سے نفرت وکراہت ، بغض وحسد اور غیرت وکدورت جیسی بری خصلتوں سے پاک کرتا اور ہر دو طبقہ کے درمیان الفت ومحبت اور بھائی چارگی کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے، زکوٰۃ سماج کو جوڑے رکھنے، مضبوط بنیادوں پر قائم رہنے، اس کے افراد میں تکافل وباہمی تعاون کے فروغ دینے‘ فقرو فاقہ کی صورتحال کا خاتمہ کرنے اور ہر طرح کے اخلاقی، معاشی اورسماجی مشکلات پر قابو پانے میں اہم رول ادا کرتا ہے، بشرطیکہ ان اموال کا صحیح استعمال کیا جائے ، اور مستحقین کے درمیان ہی تقسیم کیاجائے، نصاب زکوٰۃ مال کا وہ متعین مقدار ہے جسے شریعت نے متعین کردیا ہے ، اس سے کم میںزکاۃ واجب نہیںہوتی، سونے کا نصاب رسول اللہ صلعم نے 20مثقال متعین کیا ہے جو 85 گرام کے مساوی ہے، اسی طرح چاندی کا نصاب 200 درہم یا 52 تولہ متعین کیا ہے جو 595 گرام خالص چاندی کے مساوی ہے، کاغذی کرنسی چونکہ سونا‘چاندی کے تابع ہے‘ اس لئے اگر 85 گرام خالص سونے یا 595 گرام چاندی کی قیمت کے مساوی کاغذی کرنسی یا مال ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔
کوئی بھی انسان مالدار یا صاحب نصاب اس وقت سمجھا جائے گا جبکہ اس کے پاس نصاب سے زائد ایسا مال ہو جو اس کی اور اس کی فیملی وزیر سرپرستی افراد کی بنیادی ضروریات سے فاضل ہو‘ ان بنیادی ضروریات میںکھانا پینا، کپڑا ، لباس ، سواری ،رہائش کام کے اوزار وآلات اور اس طرح کی دوسری ضروریات ووسائل سب شامل ہیں، ان ضروریات کے علاوہ اگر کوئی نصاب کا مالک ہوتا اور قمری مہینہ سے ایک سال تک مالک رہتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے، درمیان سال میں اگر اس میںکمی زیادتی ہوتی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ، مال کے علاوہ جانوروں ، غلوں ، پھلوں اور معدنیات میںبھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔
اسلام نے سونے چاندی، مختلف کرنسیوں، سامان تجارت،جانوروں ، غلوں، پھلوں اورمعدنیات میں زکوٰہ فرض کی ہے، عورتوں کے استعمال میں جو زیورات ہوتے ہیں، اگر وہ سونے چاندی کے علاوہ کے ہیں تو وہ چاہے کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہوں اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، البتہ اگر سونے چاندی کے ہوں تو اگر اس کی مالیت 85گرام سونے یا 595گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائیں تو اس میں ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی، یعنی دیگر اشیاء اگر استعمال کی ہوں تو اس میںزکوٰۃ نہیں ہے، مگر سونے چاندی کے زیورات ہوں یا بسکٹ استعمال کے ہوں یا نہ ہوں، بہر صورت اس میں زکوٰہ واجب ہوتی ہے، اسی طرح اگر کچھ سونے اور کچھ چاندی ہوں، علاحدہ ‘علاحدہ نصاب زکوٰہ کو نہ پہنچتے ہوں تو بھی ان دونوں کو ملا کر اگر سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے مساوی ہوجائیں تو اس میں زکوٰہ واجب ہوجائے گی۔
زکوٰۃ نکالنے کا مسئلہ نہایت اہم اور پر خطر ہے، اس میں عام طور پر لوگ تساہل برتتے ہیں جو انسان کے رزق کی بے برکتی کا سبب بنتا ہے جو لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ نہیںنکالتے ہیں، ان کے لئے کتاب اللہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿التوبہ: ٣٤﴾
اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے:
يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ﴿البقرۃ: ٢٧٦﴾
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔
ایک اور روایت میں ہےکہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ زکوٰۃ کا مال ( نہ نکالنے کی صورت میں) جب اصل سرمایہ میں شامل ہوجاتا ہے تو وہ مال انسان کے لئے تباہی وبربادی اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد)
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ جب اپنا مال خرچ کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو فرشتے اس کے حق میں دعاء کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ اے اللہ ، تیرے راستے میں خرچ کرنے والے کو اور زیادہ عطا فرما اور جو صدقہ واجبہ یا نافلہ ادا کرنے اور انفاق سے باز رہتا ہے تو فرشتے اس پر بد دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے اللہ ت تو اس کے مال پر ہلاکت ڈال دے۔ (متفق علیہ )
زکوٰۃ کی ادائیگی کس قدر اہم اور اسلام کی نگاہ میں کس قدر پر خطر ہے، اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا:
ما مِن صاحبِ ذهَبٍ ولا فِضَّةٍ ، لا يؤدِّي منها حقَّها ، إلَّا إذا كان يومُ القيامةِ ، صُفِّحَتْ له صَفائحُ مِن نارٍ ، فأُحْمِيَ عليها في نارِ جهنَّمَ . فيُكوى بها جَنْبُه وجبينُه وظَهْرُه . كلَّما برَدَتْ أُعيدَتْ له . في يومٍ كان مِقدارُه خمسين ألفَ سنةٍ . حتَّى يُقْضى بينَ العِبادِ . فيرى سبيلَه . إمَّا إلى الجنَّةِ وإمَّا إلى النَّارِ (صحيح مسلم – ۹۸۷)
جو بھی سونے چاندی کا مالک ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس سونے اور چاندی کو پلیٹ بنا دیا جائے گا، اور اسے جہنم کی آگ میں اتنا تپایا جائے گا کہ جیسے وہ آ گ کی پلیٹ ہو، پھر اس شخص کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا، اور قیامت کے پورے دن جس کی مقدار اس دنیا کے 50ہزار سال کے برابر ہوںگے، اسی طرح تپا تپا کر اسے داغاجاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کے لئے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے گا، اور وہ جنت یا جہنم کی طرف چلاجائے گا۔
حضرت اسماء بنت زید کی روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ میں اپنی خالہ کے ہمراہ رسول اللہ صلعم کی خدمت میںحاضر ہوئی ، میرے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے جواب دیا نہیں، تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا، کیا تمہیں خوف نہیں کہ قیامت کے دن اس کی وجہ سے آگ کے کنگن پہنایاجائے۔ (مسنداحمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلعم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی بچی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے وزنی کنگن تھے، رسول اللہ صلعم نے اس خاتون سے کہا ، کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا : کیا تم چاہتی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے قیامت کے دن آگ کے کنگن اسے پہنائے، اس عورت نے بچی کے ہاتھ سے ان کنگنوں کو نکال کر رسول اللہ صلعم کی طرف بڑھا دیا کہ آپ اسے جہاں چاہیں،راہ خدا میں صرف کردیں۔ (ابودائود ، ترمذی‘ مسند احمد)
صحابہ اور سلف صالحین کا طریقہ ماہ صیام میںزکوٰۃ نکالنے کا تھا، یوں توجب بھی سال پورا ہوجائے زکوٰۃ نکالنے کا وقت ہوجاتا ہے مگر سلف صالحین نے رمضان کو اس کی ادائیگی کا ماہ بنایا تھا کہ اس کی وجہ سے اجر وثواب میں 700گنا تک اضافہ ہوتا ہے۔
عن السائب بن یزید ا ن عثمان بن عفان ؓ کا ن یقول : هذا شهرُ زكاتِكم فمن كانَ عليهِ دَيْنٌ فليُؤَدِّهِ حتى تَحصُلَ أموالُكم فتُؤّدُّونَ منهُ الزكاةَ( إرواء الغليل جلد ۳صفحہ ۲۶۰)
حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عثمان بن عفانؓ کہا کرتے تھے، (بعض روایتوں میں ہے کہ انہوںنے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا) یہ تمہاری زکوٰہ ادا کرنے کا مہینہ ہے(اس ماہ سے مراد بعضوں نے رجب ، بعضوں نے شعبان، اوربعضوں نے محرم کہا ہے، مگر بیشتر محدثین کے نزدیک راجح رمضان ہے) لہٰذا جس پر قرض ہو وہ قرض ادا کردے تاکہ اس کا خالص مال بچ جائے پھر اس میں سے وہ زکوٰۃ ادا کرے۔ (موطا امام محمدکتاب الزکاۃ:ص:۱۷۲)
مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰۃ پوری خوشی سے نکال کر اپنے رزق کو بربادی سے بچائیں اور رب ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کریں، یہ مبارک مہینہ حسنات میں اضافہ کا مہینہ ہے، اس لئے اگر اس میں ادا کریں گے تو یقیناً عام دنوں میں ادائیگی کی بہ نسبت اس کے ثواب میں اضافہ ہوگا، واضح رہے کہ نفلی صدقات تو چھپا کر دینا افضل ہے جس طرح کہ دیگر نفلی عبادتیں چھپا کر ادا کرنا افضل ہے، مگر فرائض کی ادائیگی میں مستحب اس کو دکھا کر ادا کرنا ہے تاکہ دوسروں کو اس پر ابھارا وآمادہ کیا جاسکے، اور دوسرے بھی اسے دیکھ کر اس کی ادائیگی کی طرف مائل ہوں اسی وجہ سے نماز جماعت کے ساتھ او ر مساجد میں ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

Comments are closed.