صاف پانی کو ترستا انسان

کیفی حیدر قاسمی
اللہ تعالی نے اپنی پاک و پوتر کتاب قرآن کریم میں صاف اور کھلے لفظوں میں انسانی فطرت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ "بلاشبہ انسان بڑا ناشکرا اور ناقدرا ہے”
اب دیکھئے اور غور کی نظر کیجئے چہار دانگ عالم کا جائزہ لیجئے ، ارے چھوڑیئے خود اپنے آپ کو ٹٹولیئے اپنے گریبان میں جھانکئے اور سوچئے کہ رب ذوالجلال نے اپنی جن نعمتوں کی ہم پر فراوانی اور ارزانی کر رکھی ہے، کیا ہم ان کی قدردانی کرتے ہیں؟ ان کو درست اور بجا طور پر کام میں لاتے ہیں؟ ان کے حقوق کی طرف ہماری نگاہ جاتی ہے؟ ان سب کا جواب ہماری طرف سے نفی میں ہوگا کیوں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو نعمتیں ہمیں ملی ہیں وہ ہم سے رخصت ہوجائیں گی اور بعد کو ہم محتاج بن جائیں گے اور پھر بعد کو بسیار جست جو اور تتبع و تلاش کے ان چیزوں تک ہماری رسائی ناممکن و محال ہوجائے گی
اللہ تعالی کی انہیں گراں قدر نعمتوں میں سے ایک نعمت "پانی” ہے جو کل تک انسان کے لئے بالکل فری اور مفت تھا لیکن آج صاف پانی کے لئے انسان ترستا نظر آرہا ہے
آج اگر آپ عالمی صورت حال کا جائزہ لیں تو بیش تر ممالک میں صاف پانی کا حصول بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے، پینے کے صاف پانی کے لئے آج انسان جنگل و بیابان اور صحراؤں میں بھٹکٹا نظر آرہا ہے ، انسان تو انسان بے زبان جانور بھی قلت پانی کا شکار نظر آتا ہے، جہاں ایک طرف بہت سے جانور شدت پیاس سے دم توڑ رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف حضرت انسان بھی در در کی ٹھوکریں کھاتا نظر آرہا ہے اور اس کے حصول کے لئے مخلتف انسانی تدابیر اختیار کررہا ہے ، آئے دن مختلف انداز میں مختلف مقامات پر احتجاج کررہا ہے سیاسی پارٹیاں بھی پانی کے مسئلہ کو اپنے سیاسی منشور میں داخل کرکے عوام کو دھرنا دینے پر اکسا رہی ہیں اور عوام ان کے فریب میں آکر اپنی رہی سہی توانائی کو بھی ضائع کرتی نظر آرہی ہے،لیکن ان سب کے باوجود صاف پانی کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ، آخر ایسا کیوں ؟؟؟
تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کا کوئی حل مدبران و مفکران قوم اور حکم ران وقت کے پاس ہوتا تو ان کوششوں اور دھرنوں کا کوئی نہ کوئی ثمرہ اور نتیجہ ضرور برآمد ہوتا ، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری کوششیں ثمر آور اور بار آور نہیں ہورہی ہیں تو پتہ چلا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے چوک ہورہی ہے اور اس پر ہم ٹھنڈے دل سے غور و فکر نہیں کر رہے ہیں اگر ہم ٹھنڈے دماغ سے غور و فکر کرتے تو نہ احتجاج کی ضرورت پڑتی اور نہ دھرنے کی حاجت،
آئیے اس مسئلہ کا کافی و شافی حل دنیا کی سب مقدس و منظم کتاب "قرآن کریم” میں تلاش کرتے اور پتہ لگاتے ہیں کہ قرآن نے اس مسئلہ کا حل کیا بتایا ہے؟ جب ہم قرآن کریم اور اس کی تفاسیر و تراجم کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی انسان پانی کی قلت، اولاد و اموال کی کمی اور قلت اغذیہ کا شکار ہوا ہے تو اس کی خود کی بدی و برائی ، گناہوں اور بے اعتدالیوں کا اس میں بڑا کردار رہا ہے لہذا اس کے تدارک و تلافی اور بھرپائی کی طرف قرآن کریم نے عام فہم انداز میں رہنمائی و رہبری کی ہے کہ ” تم اپنے رب غفور کے دربار عالی شان میں توبہ و استغفار کرو جس کے نتیجہ میں وہ موسلا دھار بارش برسائے گا، تمہیں اموال و اولاد کے ذریعہ قوت دے گا ، تمہاری کھیتیوں کو سر سبز و شاداب اور تمہاری ندیوں اور نالوں کو پانی سے سیراب کردے گا”
تو آئیے کیوں نہ ہم اپنے رب کے سامنے اپنا مطالبہ رکھیں کیوں نہ اس کی خوش نودیوں کے کام کریں اور کیوں نہ اس کے سامنے گڑگڑا کر اپنی کوتاہیوں اور بے اعتدالیوں کی معافی مانگیں جس کے نتیجہ میں ہم اپنے رب کی بے پایاں نوازشوں اور انعامات کے مستحق قرار پائیں جس کے حصول کے لئے ہم اپنے جیسے ناتواں و کمزور انسانوں کے در کا چکر کاٹ رہے ہیں
Comments are closed.